آج عالمی یوم اساتذہ ہے۔ 5اکتوبر کو ہر سال یہ دن
منایا جاتا ہے۔ استاد کا بلند اور عظیم مرتبہ ہے۔ جیسے کہ درس و تدریس ایک
عظیم اور مقدس پیشہ ہے۔ عظیم ہیں وہ لوگ جو اس پیشہ کو اختیار کرتے ہیں۔
اپنے خون جگر سے قوم کے معماروں کو ہیروں کی طرح تراشتے ہیں ان کی رہنمائی
فرماتے ہیں۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کے منہ سے کسی انسان کو اس کے پیشے
کی وجہ سے چھوٹا قرار دینا اور وزیراطلاعات فواد چوھدری کی جانب سے کسی کو
قلی قرار دینا ایک ہتک آمیز رویہ ہے۔ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ یہ
رسوم ورواج، اونچ نیچ ، اچھوت پن غیر اسلامی ہیں۔ اسلام میں وہی بڑا ہے جو
متقی ہو۔ یعنی نیک لوگ۔ کوئی پیشے یا منصب کے لحاظ سے چھوٹا بڑا نہیں۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیر مشیر اس طرح اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔
اور درباری لوگ جی حضوری میں لگے ہیں۔ زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے
ہیں۔جو لوگ بچ کے نکل رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔ ضرب
المثل جان بچنے کے بھی کئی قصے کہانیاں ہیں۔ شعراء حضرات اور ادیبوں نے اس
سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ تا ہم یہ برادری ادب سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس لئے
بے ادبی سے بچی رہتی ہے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ جو چیز غیر معمولی ہو۔ آپ
کے جذبات کی عکاسی کرے۔ آپ اسے سنیں یا پڑھیں تو بلا ساختہ پکار اٹھیں کہ
یہی تو میں بھی کہتا یا چاہتا ہوں ۔ یہی ادب ہے۔ اب اس کی بھی کئی قسمیں
دریافت ہوئی ہیں۔ اس میں جدید بھی ہیں اور قدیم بھی ہیں۔ تا ہم آج بھی یہی
کہا جاتا ہے کہ شعر و شاعری میں اگر گستاخی بھی ہو تو شاعر کو چھوٹ ہے۔
جیسے یہ بھی مشہور کیا جا چکا ہے کہ ایمبولنس کو کئی قتل معاف ہیں۔ کیوں کہ
وہ جان بچانا چاہتے ہیں۔ اگر اس دوران ایمبولنس کے راستے میں کوئی رکاوٹ آ
جائے تو وہ اس کو کچلنے میں آزاد ہے۔ لیکن یہ محاورہ انتہائی نامعقول ہے۔یہ
کیسے ہو سکتا ہے کہ جان بچانے کے لئے کئی جانیں لی جائیں۔ جان بچانے کے لئے
جان لینے کی ہر گز کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایمبولنس کو بھی کسی کو کچلنے کی
چھوٹ نہیں ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے کئی محاورے ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہو
رہے ہیں۔ ان کی صحت پر بات وہ سکتی ہے۔ یہی ادب کی شان ہے کہ وہ معاشرے کی
عکاسی کرتا ہے۔ آپ آج سے سو سال پہلے کے ادب کا مطالعہ کریں، اس میں تاریخی
ادب بھی شامل ہے۔ پنڈت کلہن کو ہو سکتا ہے کشمیر سے باہر لوگ عام طور پر نہ
جانتے ہوں۔لیکن ان کی راج ترنگنی نے اپنے چھ ہزار سالہ تاریخ کو سر عام کیا
ہے۔ یہ چھ ہزار سالہ کشمیر ی معلوم تاریخ ہے۔ اس میں زمانہ جاہلیت کا عکس
بھی ملتا ہے۔ دیوی دیوتاؤں کا زکر بھی ہے۔ خیالات اور نظریات کو بھی تاریخ
بنایا گیا ہے ۔ مولانا روم، ابن بطوطہ کا ادب بھی دیکھ لیں۔ اس کا بھی ایک
الگ حال ہے۔ جو یہاں قارئین کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ
اپنے خیالات کو خبر بنائیں گے تو تاریخ ضرور مسخ ہو گی۔ اس کو کوئی رنگ دیں
گے تو تاریخ متاثر ہی نہیں بلکہ لہو لہاں ہو گی۔ درباری شاعری سے لے کر
درباری تاریخ تک کے چلن نے اسے پہلے ہی تباہ کیا ہے۔ لوگوں نے جان بچانے،
جان کی امان پانے کے لئے بادشاہوں اور امراء کی شان میں قصیدہ گوئی کی۔ آج
بھی ہمیں اس طرح کے قصیدہ گو مل جاتے ہیں۔ کسی نے صدیوں پہلے عہدوں کے لئے
یا شہرت کے لئے تعریفی کلمات کہے یا لکھے ۔ بلکہ مرثیہ گوئی تک ہوئی۔اس کو
تاریخ بنا دیا گیا۔ آپ دیکھیں کہ سوانح عمریاں لکھنے والوں نے کیا کمال کیا
ہے۔ اپنی تعریف کی۔ جو اپنی کمزوریاں تھیں ،ان پر پردہ ڈال دیا۔ جس کی وجہ
سے اس زمانے کے سچے حالات ہم تک نہ پہنچ سکے۔ ہم اس ماضی کو سامنے رکھ کر
فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں اسی وجہ سے نہیں رہتے ہیں۔ ہماری صحافت بھی اسی
وجہ سے سوالات کی زد میں رہی ہے۔ شایدکئی نے اپنا لیڈر، پارٹی،فرقہ، پرچم،
نظریہ، نصب العین رکھا ہے۔ جب کہ آسمانی صحیفوں سے نکلی صحافت ان سب تضادات
سے پاک ہے۔ سب کے لئے انصاف کا ترازو ہے۔ صحافت اگر ادب کی ایک شاخ ہے۔ تو
اس نے حالات کی درست عکاسی کرنی ہے۔ ورنہ درباری لوگ تو صدیوں پہلے بھی
موجود تھے۔ یہ دور زمانہ جاہلیت کا تھا۔ آج کوئی زرداری صاحب کی شان میں
قصیدہ گوئی کرتا ہے تو کوئی شریف برادران کی۔ کوئی عمران خان کی شان میں
زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے تو کوئی کسی اور کو ہی نجات دہندے کے طور
پر پیش کرتا ہے۔ آپ جس بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ آپ کا زاتی
معاملہ ہے لیکن جب آپ اپنی امانت میں خیانت کریں گے تو یہ افسوسناک بات ہو
گی۔ اگر کوئی لفافے یا نذرانے، تحائف لے کر یا مفادات کے لئے حقائق کو توڑے
مروڑے گا تو یہ سراسر نا انصافی ہو گی۔ یہ اس امانتمیں بھی خیانت ہے جو ہم
پر آئیندہ نسلوں نے ڈالی ہے۔ آج سے پچاس، سو، ہزار سال بعد کے لوگ آج کے
درست حالات معلوم کرنا چاہیں گے۔ تو ان کے لئے کون سی ریفرنس، کتاب قابل
بھروسہ ہو گی۔ کوئی نہیں جانتا۔
سیاستدان اگر عوام کو گیلے کپڑوں کی طرح نچوڑ رہے ہیں تو ان کو یہ موقع
دستیاب رکھنے میں کچھ قصور عوام کا بھی ہو گا۔ یہی وجہ ہے اس گفتگو کا آغاز
ہی جان سے کیا ہے۔ آج سچ پوجھیں تومفادات کی مہم جاری ہے۔ سب لوگ ایک دوسرے
کو پچھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔
اس کا انجام کیا ہو گا۔اب امتحان ہو گا ادب کا۔ کیا یہ ادب تخلیقی ہے یا
اصلاحی یا تخریبی۔مفروضے الگ ہیں۔ ہمارے دربار مختلف ہیں۔ کوئی پارٹی کا
نمائیندہ ہے، کوئی کسی حکمران کا اور کوئی کسی سیاستدان کا، کوئی کسی مکتب
فکر کا۔ کہیں ہم آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں درباری ادیب، صحافی،
سکالر، شہراء ، امراء، وزراء، مورخین کا کردار ادا تو نہیں کر رہے ہیں۔کہیں
ہم اکیسویں صدی میں درباری ادب کی ترویج و فروغ میں کردار ادا تو نہیں کر
رہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آئیندہ نسلیں سچ سے محروم رہ کر ہم پر درباری
، چاپلوس، متعصب ، خائن ہونے کا الزام تو نہیں عائد کریں گی۔کیا ہم مستقبل
کو آج کے حقائق، سچ سیمحروم تو نہیں کر رہے ہیں۔
|