تاروجبہ کا پرائمری سکول نمبر 2 تباہ حالی کی علامت بن گیا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخوا میں سرکاری تعلیم کا ڈھانچہ کئی سال سے زوال کا شکار ہے، مگر بعض اسکولوں کی حالت اس زوال کو اور بھی کھول کر سامنے رکھتی ہے۔ ضلع نوشہرہ کی تحصیل پبی میں واقع گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 2 تاروجبہ اسی بوسیدہ نظام کی واضح مثال ہے۔ یہ اسکول 1971 میں بنایا گیا تھا اور اب مکمل طور پر مرمت کا محتاج ہے۔ چھتوں سے سیمنٹ جھڑتا ہے، دیواروں میں گہرے کریک نظر آتے ہیں اور بعض جگہوں پر سریہ کھلا پڑا ہے۔ اس عمارت میں 453 بچے زیر تعلیم ہیں، جو ٹاٹ پر بیٹھ کر اپنی پڑھائی پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال صرف ایک اسکول کی نہیں۔ یہ خیبر پختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں کی اصل تصویر ہے، جسے حکومتی اعلانات اور منصوبوں سے کہیں زیادہ زمینی حقائق بیان کرتے ہیں۔اس اسکول کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ کئی سالوں سے مرمت کی درخواستیں دی جا رہی ہیں، مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ عمارت کی بوسیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دوران کلاس چھت سے سیمنٹ کے ٹکڑے گرنا معمول بن چکا ہے۔ بعض کمروں میں دیواریں کٹائی کے قریب ہیں جنہیں لکڑی کے تختوں اور عارضی سہاروں سے تھام رکھا گیا ہے۔
بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ یہ اسکول علاقہ کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز ہے، مگر بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نہ بینچ ہیں، نہ ڈیسک، نہ پنکھے، نہ روشنیاں۔ شدید گرمی میں بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر پورا دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ بارش کے دنوں میں بعض کلاسیں مکمل بند ہو جاتی ہیں کیونکہ پانی چھت کے سوراخوں سے اندر ٹپکتا ہے۔یہ افسوسناک صورت حال اس حلقے کے منتخب نمائندوں کے سامنے عرصہ دراز سے موجود ہے، مگر مسائل کی فہرست طویل ہونے کے باوجود عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تاروجبہ کے اس علاقے سے موجودہ ایم این اے ذوالفقار خان اور ایم پی اے اشفاق احمد خان دونوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ ماضی میں بھی یہاں دو مرتبہ میاں خلیق الرحمان رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بھی رہے۔ ایم این اے ڈاکٹر عمران خٹک اس حلقے سے منتخب ہوئے جو سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے داماد تھے۔اس کے باوجود یہ اسکول کسی بھی نمائندے کی ترجیح کبھی بن نہ سکا۔ دہائیاں گزریں مگر نہ نئی عمارت بنی، نہ مرمت ہوئی، نہ فرنیچر آیا اور نہ ہی بنیادی سہولیات فراہم ہو سکیں۔
تاروجبہ کا اسکول تنہا مثال نہیں۔ صوبے کے اکثر سرکاری اسکول انہی مسائل کا شکار ہیں۔عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں بیشتر سرکاری اسکول 1970 اور 1980 کی دہائی میں بنے تھے۔ آج وہ اپنی عمر پوری کر چکے ہیں۔انکی چھتیں کمزور ہیں ‘دیواروں پر کریک پڑ چکے ہیں اور زلزلے اور سیلاب کے مقابلے کے قابل نہیں ہیں ‘ کئی عمارتیں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں کئی جگہوں پر اسکولوں کی عمارتیں "خطرناک" قرار دے کر خالی کرنے کی سفارش کی گئی، مگر کلاسیں آج بھی انہی کمروں میں جاری ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہزاروں اسکولوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے اور کمرے کم۔جس کا نتیجہ یہ ہے بچے ٹاٹ پر بیٹھتے ہیں بعض اسکول اوپن ایئر کلاسز چلاتے ہیں کئی اسکول دو دو شفٹوں میں کام کرتے ہیں بچیوں کی سکول چھوڑنے کی شرح بڑھ جاتی ہے فرنیچر کی عدم فراہمی سب سے بڑا بحران ہے۔ بعض اضلاع میں 40 فیصد تک اسکول بغیر بینچ اور ڈیسک کے چل رہے ہیں۔اسی طرح ان سکولوں میں پانی، ٹوائلٹ، بجلی — بنیادی سہولیات کی کمی ہے کئی اسکولوں میں پینے کا صاف پانی نہیں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے الگ ٹوائلٹ نہیں اور ہاتھ دھونے کی جگہ موجود نہیںبعض میں بجلی نہیںاسی طرح پنکھے اور لائٹس نہیںجبکہ بعض تو بغیر دیوار اور بانڈوری کے کام کررہے ہیں یہ کمی خاص طور پر طالبات کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کیلئے ٹوائلٹ اور دیوار اور باونڈری نہ ہونا براہ راست ڈراپ آو¿ٹ کا سبب بنتا ہے۔
کچھ علاقوں میں ایک ہی استاد پانچ کلاسیں پڑھا رہا ہوتا ہے۔ غیر حاضری کا مسئلہ بھی مسلسل رپورٹ ہوتا رہا ہے۔ جہاں عمارتیں خراب اور سہولیات ناکافی ہوں وہاں سیکھنے کا ماحول بھی خراب ہو جاتا ہے۔2025–26 کے بجٹ میں تعلیم کیلئے مناسب رقم رکھی گئی ہے، لیکن مسئلہ بجٹ کی کمی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ضلعی سطح پرفنڈز کی تقسیم میں تاخیرسمیت نگرانی کمزور کی جاتی ہیں اسی طرح کنسٹرکشن میں معیار کی کمی اور سیاسی مداخلت ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں منصوبے روکے جاتے ہیں یا ادھورے رہ جاتے ہیں۔ورلڈ بینک، یونیسف، UNDP اور دیگر اداروں نے کچھ منتخب اسکولوں میں بہتر سہولیات فراہم کیں، مگر صوبے کے ہزاروں اسکول ابھی بھی اسی توجہ کے منتظر ہیں۔
صوبے کے وزیراعلیٰ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ سرکاری اسکولوں میں "AI کلاسز" شروع کی جائیں گی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں پنکھے نہیں جہاں فرنیچر نہیں جہاں پانی اور ٹوائلٹ نہیں جہاں چھتیں ٹوٹ رہی ہیں وہاں مصنوعی ذہانت کی تعلیم کا اعلان زمینی حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔یہ وہی تضاد ہے جو تعلیم کے سیکٹر میں پالیسی اور عملی صورتحال کو واضح کرتا ہے۔
تاروجبہ کے اسکول کی ٹوٹتی دیواریں صرف اینٹیں نہیں، یہ مستقبل کے ٹوٹتے خواب بھی ہیں۔ 453 بچے روزانہ ایک خطرناک عمارت میں بیٹھ کر یہ امید لگاتے ہیں کہ شاید کبھی ان کا اسکول بھی کسی کی ترجیح بن جائے۔خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کی حالت یہ بتا رہی ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے سالوں میں تعلیمی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔فرنیچر، محفوظ عمارتیں، پینے کا پانی، ٹوائلٹ اور اساتذہ کی دستیابی — یہ بنیادی چیزیں ہیں۔ پہلے یہ پوری ہوں تب ہی جدید تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔فی الحال اگر کوئی چیز واضح ہے تو وہ یہ کہ تعلیم کے زمینی حقائق حکومتی دعوو¿ں سے میل نہیں کھا رہے۔ #kikxnow #musarratullahjan #education #emergency #warkadanga #dakpkda
|