² سگیریا
ناشتے کے فوراً بعد ہم سگیریا (Sigiriya) روانہ ہوئے ،سامان پہلے ہی تیار
تھا۔ یہ ایک تاریخی مقام ہے جو کولمبو سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پرسب
سے زیادہ سیر کرنے والی جگہ ہے۔سگیریا کے قدیم محلات میں داخل ہونے کے لئے
سیاحوں کو ٹکٹ لینا پڑتا ہے اور سارک ممالک کےشہریوں کے لئے اس میں خاص
رعایت ہےلیکن یہ رعایت صرف پاسپورٹ دکھانے پر ہی ملتی ہے اور یہ رعایت ہمیں
بھی ملی۔ اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی اس قدر پر دلی خوشی محسوس ہوئی۔اگر آپ
کاوہاں جانے کا پلان ہو تو پاسپورٹ ضرور ساتھ رکھیں۔ ٹکٹ لینے کے بعد ہم
قدیم شہر کے کھنڈرات کی طرف بڑھے جو کہ ایک بہت بڑی مستطیل چٹان کے اوپر
اور اردگرد واقع ہیں۔ایک گائیڈ کو اپنے ساتھ رکھا جس نے چھوٹتے ہی سینہ بہ
سینہ منتقل شدہ معلومات طوطے کی طرح فرفر منتقل کرنا شروع کر دیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہ کشیاپا King Kasyapa (477ء تا 595 ٫عیسوی)نے اس
جگہ اپنا محل اور قلعہ تعمیر کروایا۔ شاہی روایات کے عینمصداقاس کی بے شمار
بیگمات تھیں جن کی تعداد پانچ سو تک بیان کی جاتی ہے۔مزید یہ کہ بادشاہوں
کی عادت کے عین مطابق اس نے بادشاہت کسی اور بادشاہ سے چھینی تھی لہذا وہ
اپنی سلطنت بچانے کے لئےبہت فکر مند رہتا تھا اس لئے اس نے اپنا محل اس دیو
قامت پتھر پر بنوایا۔ یہ پتھر660 فٹ اونچا ہے۔اس کو Lion Rockیا شیر والی
چٹان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے چاروں طرف گھنے جنگلات ہیں۔اس کے سامنے کھڑے
ہو کر میں نےکچھ دیر چشم تصور سے دیو ہیکل چٹان پر اور اس کے اردگرد محلات
کا نظارہ کیا۔ دیکھنے والوں کے لئےکیا ہی مرعوب کن منظر ہوتا ہو گا! ایسے
کئی بادشاہوں کے ذکر سے تاریخ کے گرد آلود صفحات اٹے پڑے ہیں اور اب ان کے
محلات کے کھنڈرات "دیدہ عبرت نگاہ" بنے ہمیں دنیا کی بےثباتی کا درس دے رہے
ہیں۔۔۔۔۔۔ بے شک"كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ
ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ" (جو کوئی بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا
ہےاور تمہارے پروردگار کی ذات جو کہ صاحب جلال و عظمت ہے، باقی رہے گی) مٹے
نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!!
LION ROCK
گو کہ ہمیں اس سلطنت کی بادشاہی سے کوئی دلچسپی نہ تھی تاہم ہم نے اسکو سر
کرنے کا ارادہ کیا۔ اور پتھر اور سرخ اینٹوں سے بنی قدیم سیڑھیوں کی طرف
بڑھے سیڑھیوں خاص قسم کےسفید ماربل سے بنی ہوئی تھیں جو گائیڈ کے مطابق
اندھیرے میں بھی روشن ہوتی ہیں۔جن کے دونوں جانب غار بنے ہوئے تھےجو پرانے
زمانے میں مختلف اجلاسوں کے لئے ہال کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اس پتھر
کے ایک طرف سیڑھیاں اوپر کو چڑھتی ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ آرام کے لئے
بالکونیاں بنی ہوئی ہیں جو شاید شاہی خاندان کے افراد کے آرام کےلئے کام
آتی ہوں گی ہم نے بھی اس شاہی روش کی پوری تقلید کی اور جگہ جگہ رکتے ہوئے
آگے بڑھے۔
راستے میں ایک غار میں ہاتھ سے بنی ہوئی پینٹنگز کی گیلری موجودتھی جو کہ
مذکورہ بادشاہ کے حکم پر بنائی گئی تھی ۔ذرا سا اندر جا کر دیکھا تو
دیواروں پرعورتوں کی ایسی تصاویر بنی تھی جو بادشاہ کی عیاش پسند طبیعت کی
غمازی کر رہی تھی۔گائیڈ نے بتایا کہ بادشاہ نے اپنی تمام500 بیویوں کی
تصاویریہاں بنوائی تھیں جو بعدمیں بدھ راھبوں نے تباہ کر دیں یعنی کہ یہ
ایک بہت بڑی گیلری تھی۔نہ جانے بادشاہ سلامت کو اتنی ساری زندہ بیویوں کے
ہوتے ہوئے، ان کی تصاویر بنانے کا خیال کیونکر آیا ؟بہرحال بادشاہ کی مرضی
کے سامنے کس کی مجال ؟ہم نےان پر نظر ڈالتے ہی لاحول پڑھا اور فوراً باہر
کی راہ لی اور مزید آگے چڑھنا شروع کر دیا۔
پینٹنگ وال سے ذرا آگے مرر وال یعنی دیوار آئینہ ہے۔جہاں دراصل کوئی آئینہ
تو نصب نہیں بلکہ خاص قسم کا سفید پینٹ کیا گیاہے شاید جب یہ بنا ہو گا تو
اس قدر نفیس ہو گا کہ اس میں بادشاہ سلامت اپنا عکس دیکھتے ہوں گے۔ امتداد
زمانہ کے بعد اب یہ صرف نام کا آئینہ رہ گیا ہے۔ اس دیوار پر صدیوں پرانے
اشعاربھی لکھے ہوئے ہیں جن کی تاریخ آٹھویں صدی تک جا ملتی ہے۔ (خیر وال
چاکنگ میں تو ہماری قوم بھی کسی سے پیچھے نہیں آپ جانتے ہیں اور مورخ ہماری
دیواروں کے کھنڈرات دیکھ کر یقیناً یہی لکھے گا کہ اس خطے میں زنانہ و
مردانہ پوشیدہ بیماریوں کے سب سے زیادہ کلینک پائے جاتے تھے)۔
ہمارااوپر چڑھنے کا سفر جاری تھا۔ سیاحوں کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں سفید
لباس میں ملبوس طالب علم بھی نظر آ رہے تھے۔ پتہ چلا کہ بدھ مت میں سفید
رنگ کو مقدس رنگ سمجھا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے لڑکے لڑکیاں اور
اساتذہ سبھی سفید رنگ کے کپڑے اور ساڑھیاں پہنتے ہیں۔ اوپرچڑھتے ہوئے آدھے
راستے میں ایک چپٹی جگہ آتی ہے جہاں سے محل کی جانب دروازہ نما راستہ ہے جس
کے دونوں جانب شیر کے پنجے بنے ہوئے ہیں۔ ان کی نسبت سے ہی اس کو لائن راک
کہا جاتا ہے۔(تصویر دیکھیے) جلد ہی ہم چٹان کے اوپر پہنچ گئے قدیم محلات کے
چند نشانات دنیا کی بے ثباتی کے نشان کے طور پر موجود تھے۔آس پاس کچھ تالاب
بھی موجود تھے جو ہمارے گائیڈ کے مطابق بادشاہ اور اس کی بیویوں کے لئے خاص
طور پر بنائے گئے تھے۔ تاریخ کے کسی بادشاہ کے دور کا مطالعہ کر لیں،اس طرح
کی عیش و عشرت ،فنون لطیفہ کی سرپرستی کے نام پرلہو و لعب اور کھیل تماشوں
کی داستانیں عموماً بکھری نظر آئیں گی۔
بادشاہ کشیاپا کے متعلق یہ سب جان کرمیرے دل میں کھٹک سی لگ گئی کہ ضرور اس
عیاش بادشاہ کا انجام عبرتناک ہی ہوا ہو گا۔ کچھ کھوج کی تو یہ بالکل درست
نکلا۔ کہتے ہیں کہ موگالان بادشاہ جس سے اس بادشاہ نے سلطنت چھینی تھی،
نےخود کو مضبوط کیا اور بڑی فوج اکھٹی کر کے حملہ کیا۔ بادشاہ کشیاپا اپنے
تئیں ہاتھیوں کا لشکر لے کر آگے بڑھا اور اپنے غرور میں یا شاید کسی حکمت
عملی کے طور پر اس قدر آگے چلا گیا کہ باقی فوج سے بچھڑ گیا ۔جلد ہی
موگالان کی فوج نے اس کو آلیا پھر اپنے تکبر کی بنا پر اس نے دشمن کے
ہاتھوں گرفتار ہونے کی بجائے خود ہی اپنی تلوار پر گر کر اپنی جان لے لی۔تو
یہ تھا اس شاندار محل کے مطلق العنان بادشاہ کا خاتمہ! آج دیدہ وروں کے لئے
یہ محل کے کھنڈرات ہی نہیں بلکہ بادشاہ کی داستان حیات بھی ایک سبق آموز
واقعہ ہے۔
حبارانا Habarana
سگیریا سے 20 منٹ کی ڈرائیو پر ہماری اگلی عارضی قیام گاہ "حبارانا"میں
واقع Cinnamon Lodges تھے۔ داخل ہوتے ہی وہاں کے خوش اخلاق سٹاف نے ہمارا
استقبال کیا اور تازہ پھلوں کے جوسز اور اپنے ہوٹل کے نام کی نسبت سے دار
چینی کی خوشبو میں بسے چھوٹے تولیے پیش کیے گئے تاکہ ہم دن بھر کی تھکن
اتار لیں۔ویسے میری تھکن تو اس جگہ کو دیکھتے ہی اتر چکی تھی۔ گھنے درختوں
کے بیچوں بیچ نہایت خوبصورت لاجز بنائے گئے تھے ان میں سے دو لاجز ہمارے
لئے بک تھے۔ پاس ہی ایک نہایت خوبصورت" حباراناجھیل" تھی ۔ وہاں کی سمارٹ
سی سری لنکن لیڈی مینجر ہمارے پاس آئی اور گپ شپ کے دوران اس نےبتایا کہ اس
نے دوبئی سے تعلیم حاصل کی ہے، یہ جان کر وہ مجھے اور اچھی لگی کہ وہ
مسلمان ہے اورعمرہ کے لئے سعودی عرب آنا چاہتی ہے۔ اسی دوران ضابطے کی
کاروائی مکمل ہو گئی اور ہم نے اپنی آرام گاہوں کا رخ کیا۔
اپنے کمروں میں داخل ہوئےتو بہترین تزئین و آرائش دیکھ کر طبیعت اور خوش ہو
گئی۔ چائے اور کافی کا سامان حسب معمول کمرے میں موجود تھا۔ گرما گرم کافی
کی چسکیاں لگاتے ہوئے ٹی ویکے چینلز گھمانے شروع کر دیئے ۔رات ہو چلی
تھی۔باہر کچھ دیر گھومنے کے بعد ڈنر کا ارادہ کیا اور باقی سیر صبح تک موخر
کر دی۔ بہت خوبصورت سوئمنگ پول کے کنارے کھانے کا بہت بڑا ہال سیاحوں سے
بھرا ہوا تھا اور خوبصورتی اور سجاوٹ میں بھی بے مثال تھا۔ان گنت کھانے کی
اشیاء اور تمام موسمی پھلوں کےفریش جوسزکے علاوہ desserts کے آئٹمز کے لئے
ایک بڑاکمرہ الگ مخصوص تھا۔ ٹور پیکج میں ہمارے لئے روز ناشتے اور ڈنر پر
اسی طرح کے بوفے کا اہتمام تھا۔سب نے راؤنڈ لگا کر اپنی اپنی پسند کی چیزیں
منتخب کیں ۔ بے شک میرے رب کی نعمتوں کا شمار نہیں "فبای الاءربکما
تکذبان"۔بوفے کی ایک بات جو مجھے بے حد ناگوار گزرتی ہے، وہ ہے کھانے کا بے
حدزیاں، اکثر و بیشتر آپ کو بچی ہوئی پلیٹیں کھانے سے بھری ہوئی نظر آئیں
گی ، یہ منظر میرے لئے بہت کوفت کا سبب بنتا ہے۔ کاش ہمیں رب العالمین کی
نعمتوں کے استعمال کا بھی شعور آ جائے!
حبارانا ایک ایسی جگہ ہےجہاں سیاح ٹھہرنے کے بعد یہاں سے سگیریا، سفاری ٹور
یا ہاتھیوں کے یتیم خانہ(Orphanage) کا دورہ کرتے ہیں۔ہم سگیریا سے گھوم
آئے تھے اور سفاری اور یتیم خانہ میں نے اپنے ٹور میں شامل ہی نہیں ہونے
دیا تھا۔کیونکہ ایک تو مجھے جانوروں سے کوئی خاص رغبت نہ تھی ۔ دوسرے جب سے
انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں ہاتھی نے اپنے ساتھ سیلفی لینے
والی ایک خاتون کو زبردست کک لگائی تھی،میں نے ہاتھیوں سے دور رہنے میں ہی
عافیت جانی۔ آپ یقیناً میرے اس فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیں گے کیونکہ ایک
تو کک اور وہ بھی ہاتھی کی! آنے والےوقت نے بھی میرے اس فیصلے کو درست ثابت
کیاکیونکہ دیگرمنتخب کردہ جہگوں کی سیرزیادہ پر لطف رہی۔
ہمارے لاجز کے اردگرد کےجنگل میں گزارا ہوا وقت ہم سب کی زندگی کے خوبصورت
ترین لمحات تھے۔ اگرچہ سری لنکا میں ہمارے ٹور کی تمام جگہیں ایک سے بڑھ کر
ایک تھیں لیکن حبارانا کو میں ان سب میں ٹاپ رینکنگ پر رکھتی ہوں۔ اگلے دن
فجر کے بعد ہم جنگل کی سیر کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔جنگل میں روح تک کوشانت کر
دینے والی ہوا، کوئل کی آواز، بے شمار گلہریوں کا ایک درخت سے دوسرے تک
دوڑنا، نایاب قسم کے خوبصورت پرندے،چڑیوں کی تسبیح،سامنے ایک وسیع نیلگوں
جھیل اور اس میں خوراک کی تلاش میں سفید بگلے، جھیل کنارے بنے ہوئے ہٹس،
لیٹ کر جھولنے والے جھولے یعنی hammocks،درختوں پربنے مختلف سٹائل کے Tree
housesاور بہت کچھ ۔۔۔۔یہ سب الفاظ کبھی اس ماحول کی منظر کشی نہیں کر سکتے
جو اس جنگل میں گھومتے ہوئے اوروہاں کے جھولوں پر جھولتے ہوئے میں نے اپنے
اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سمو لیا۔اب اپنے گھر میں واک کرتے ہوئے بھی
حبارانا کے یہ حسین مناظر ضرور میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔
دو گھنٹے کی بھرپور سیر کے بعد بھوک کا احساس ہوا تو میں نے واپسی کا رخ
کیا۔ بچے پہلے ہی سوئمنگ کے لئے جا چکے تھے۔واپس آتے ہوئے جھیل کے کنارے
ایک بنچ پر عبایا پہنے ایک خاتون کو دیکھا تو حسب عادت سلام کیا۔باتیں شروع
ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ بھی ریاض سے آئی ہیں۔ مزید باہمی استفسار پر پتہ
چلا کہ نہ صرف میری ہم شہر بلکہ ہم محلہ بھی ہیں اور ہمارے گھر کے قریب ہی
ان کا گھر ہے۔ لو جی کر لو گل ہزاروں کلو میٹر دور اپنی ہمسائی سےملاقات ہو
گئی، ہے ناں دنیا گول!!
شاندار قسم کا بوفے ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے اگلی منزل کی تیاری شروع کر
دی۔ بقول شاعر
مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ !!
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
|