تحریر :۔ شرف الزماں
یوں تو سندھ سرکار کا ہر ڈپارٹمنٹ بے حسی کا کمبل تانے خواب خرگوش کے مزے
لوٹنے میں مصروف ہے لیکن صحت و صفائی کے حوالے سے گذشتہ 10 برسوں اور
موجودہ تقریباً 40دن میں بھی سندھ کے ادارے ہوش میں نہ آئے۔ کراچی عوامی
مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہاں نہ تو پانی ہے نہ ہی سڑکیں گٹر اپنی مرضی سے
کہیں بھی ابل پڑتے ہیں اور کبھی بھی از خود خشک ہو جاتے ہیں۔
صحت و صفائی کے محکمہ کو اگر بیماری و گندگی کا نام دے دیا جائے تو بے جا
نہ ہوگا۔
ملک کی سب سے بڑی جمہوری جماعت کی دعویدار پیپلز پارٹی جمہوریت کے تمام تر
ریکارڈ توڑتے ہوئے عوامی مسائل کے نچلی سطح کے تمام تر وسائل پر بزور حکومت
و اکثریت پرخود قابض ہو چکی ہے۔ کیونکہ شائد یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ شہر
کراچی میں یوں تو لاتعداد مسائل منہ کھولے وسائل کا رونا رو رہے ہیں ان میں
کون سا سر فہرست ہے اور کون سا زیر فہرست ۔ اب تو یہ سوچنا اور سمجھنا بھی
مشکل ترین ہو گیا ہے ۔ فی الوقت میرے لئے آج کا اہم ترین مسئلہ "آوارہ کتے"
ہیں صوبائی حکومت کے اداروں کے پاس کام کی زیادتی کے سبب شہر میں کتوں کی
افزائش نسل میں مہنگائی سے زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔یہ کتے صبح سویرے
اسکول کے معصوم بچوں کے لئے ٹریفک حادثات میں اضافے اور سنگ گزیدگی کے باعث
پیدا ہونے والے انجکشنوں کے ناپید ہونے میں اپنا کردار بھر پور انداز میں
بلا خوف و خطرادا کر رہے ہیں۔
اور شائد اسی دلیری سے آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ کیوں کہ ہمارے علم کے مطابق
گذشتہ کئی برسوں سے حکومت کی جانب سے اس کتا گیری کے خلاف کوئی ایکشن نہ
ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت کو فی الحال اس کتاّ گیری سے کوئی خطرہ
لاحق نہیں ہے۔ خطرہ ہے تو عوام کو اور عوام کی ضروت تو ان کو صرف اور صرف 5
برس بعد وہ بھی صرف "ووٹ" کا حق استعمال کرنے کے لئے پڑتی ہے۔ اور پھر
5برسوں کے دوران ان با شعوراور غیور عوام کو اپنے حق رائے دہی استعمال کرنے
کے صلے میں اپنے سینکڑوں ،ہزاروں حقوق پر ماتم کرنا ہوتا ہے ۔یہی ہوتا رہا
ہے ۔ یہی ہو رہا اور یہی ہوتا رہیگا"۔ کیوں کہ یہی روایت ہے ۔ اور یہی
ہماری جمہوریت کا حسن بھی ہے کہ" جمہور پریشان اور جمہوریت کے چیمپئین خوش
حال۔
بہر حال یہ سب تو ضمنی باتیں ، خیالات، سوچ و بجار، توقعات اور واقعات پر
مبنی منفی و مثبت اشارے تھے ۔ ہمارا موضوع تو کتےّ ہیں ۔ سندھ سرکار کے ایک
بڑی سے جب کتےّ کے کاٹنے کے واقعات پر سوال کیا گیا تو انہوں نے بڑے بڑے
فلسفیوں کی قبروں پر اپنی لات شریف مارتے ہوئے فرمایا کہ ہر کاٹنے والا
کتاّ پاگل نہیں ہوتا۔ اگر ہم محترمہ کی اس نرالی منتق کو مان بھی لیں تو ان
سے ایک گزارش ہے کہ شہر کے تمام کتوں کے گلے میں ایک تختی ڈلوا دیں جس میں
لکھا ہو کہ یہ کتّا پاگل ہے۔ اس سے بچیں اور یہ کتّا پاگل نہیں ہے لہذا اس
سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔مگر تمام تر کہ باوجود یہ حقیقت تو اپنی جگہ
مسلمہ رہے گی کہ" کتےّ نے کاٹا ہے"۔ ہم محترمہ اور ان کی حکومت سے یہ
مطالبہ بار بار کریں گے کہ آوارہ کتے خواہ و پاگل ہوں یا نہ ہوں۔ وہ کسی کو
بھی کاٹ سکتے ہیں۔اور وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کون پریشان اور خوف زدہ ہے
اور کون فلسفہ جھاڑ رہا ہے ۔لہذا ان کے خلاف کاروائی کی جائے تاکہ اس
مہنگائی کے دور میں جہاں غریب عوام آٹا، چاول، پیٹرول اور گیس وغیرہ کی
بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نہ صرف پریشان بلکہ ہوش باختہ ہیں ۔ ان پر مزید
14انجکشنوں کا بوجھ نہ پڑے۔
'شائد کہ اترے دل میں اتر جائے میری بات" |