شہباز شریف پکڑے گئے

خادم اعلی بادشاہ تھے ایک بار فیصل آباد گئے تو بیوروکریسی کے دو اہم افراد کو ہتھکڑیاں لگوا دیں اور شنید یہ کہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں جن کے کارن مسلم لیگ نون کے صدر سلاخوں کے پیچھے ہیں اسے مکافات عمل کہئے یا اور کچھ یہ آئیندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا۔

اگر نیب نے پہلے والی بونگی ماری تو پھر کہنا پڑے گا کہ پردے کے پیچھے کچھ اور ہی ہے ہمارے ایک محترم اور مہربان دوست خالد منہاس نے ایک بار اردو میگزین جدہ میں کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا چولی کے پیچھے کیا ہے؟یہاں اس سوال کا اٹھایا جانا کوئی غیر مناسب نہیں ہے کہ نواز شریف کیس میں نیب کی قانونی ٹیم نے جو ہمالائی غلطیاں کیں اور جن کی وجہ سے نواز شریف کیپٹن صفدر اور مریم نواز کو چھوٹ ملی تو ایسی ہی کوئی غلطی کی گئی تو من پنچھی کو کہنے دیجئے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور یہ سب کچھ ڈرامہ ہی قرار دیا جائے گا۔اﷲ نے مغز اسی لئے دے رکھا ہے کہ اسے ہر بار فرائی کر کے نہ کھایا جائے ویسے بھی جن کے مغز استعمال نہیں کئے جاتے وہ کٹا کٹ میں بکتے ہیں ۔اس لحاظ سے انسان اشرفالمخلوقات ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت بخشی گئی ہے۔یہ سوال بھی زندہ ہے کہ نواز شریف اور ان کی ہر دم چہکتی بیٹی مریم رہائی کے بعد چپ کیوں ہیںْایجینسیوں کا نام اس قدر استعمال کیا جا رہا ہے کہ کسی کا معمولی سا نقصان یا آٹا بھی ڈھیلا رہ جائے تو ایجینسیوں کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔کل سے ایک ہنگامہ ہے اور اس ہنگامہ کے پیچھے جناب خادم اعلی کی گرفتاری کا واقعہ ہے جناب شہباز شریف گرفتار ہو گئے ہیں گویا وہ ہستی گرفت میں ہے جو کھڑے کھڑے ہتھکڑیاں لگوا دیت تھی۔جن کا کہنا تھا کہ کہ اگر دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو قوم میرے گلے پرم ہاتھ ڈالے۔موصوف بھولے بادشاہ ہیں انہیں علم ہے کہ دھیلا آنہ دونی چونی اب اس ملک میں نہیں چلتی۔انہیں کم از کم یہ تو جان لینا چاہئے کہ قوم ان کے گریبان پر ہاتھ ڈال چکی ہے اور عام انتحابات میں اعلی حضرات کو چاروں شانے چت کر کے قوم نے آپ کی دھیلے کی نہیں اربوں کی کرپشن کا بھانڈہ بیچ بازار میں پھوڑ دیا ہے۔نیب کے بارے میں لوگوں کو فکر طاری ہے کہ یہ جان بوجھ کر یا نادانی میں اچھے خاصے کیسوں کا تیا پانہ کر دیتی ہے۔گویا برس ہا برس کی کرپشن لوٹ مار کا کیس نیب کا کوئی اناڑی منٹوں میں خراب کر سکتا ہے۔اگر کوئی ایسی بات ہے تو جناب وزیر اعظم آپ ہی نے وعدہ کیا تھا کہ نیب کو مضبوط کیا جائے گا اور اس کی مضبوطی کا تقاضہ ہے کہ سیب کے مقابلے میں سیب اور کیلے کے مقابلے میں کیلا رکھا جائے ایک طرف سسلین مافیا کے بھاری فیسوں والے وکیلوں کے مقابلے میں نیب کے سیپ پر کام کرنے والے اترتے ہیں خواجہ حارث کے مقابلے میں نعیم بخاری اتاریں لگ پتہ جائے گا۔کشتیوں کے عالمی مقابلے دیکھ لیجئے ہیوی ویٹ،لائٹ ویٹ کی تقسیم کی جاتی ہے اور مطلوبہ وزن کے پہلوان پہلوانوں کی کیٹیگری میں ایک جیسے وزن والے میدان میں اترتے ہیں۔میاں نواز شریف معاملے میں ایسا نہیں ہوا اور وہاں مضحکہ خیزیاں دیکھنے میں آئیں۔اداروں کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ کسی ادارے کے سربراہ کو کھلی چھوٹ ہو چیک اینڈ بیلینس کا نظام ہونا چاہئے۔حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں کوئی بھی ہائی پروفائل کیس خصوصی چھان پھٹک کے بعد اعلی عدالتوں کے سامنے لایا جائے۔عدالتیں انگریزی قوانین کی روشنی میں شک کا فائدہ ملزم کو دینے کی پابند ہوتی ہیں۔لہذہ کوئی بھی کیس خصوصی چھان بین کے بعد آگے بھیجا جائے۔

کل ایک چینیل پر اینکر کا سوال تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی احتسابی عمل کی حمائت کرے گی؟جواب تھا بلکل اس لئے پیپلز پارٹی بھی اسی ڈوبنے والی کشتی کی سواری ہے،دراصل دونوں پارٹیاں کرپشن مار دھاڑ میں ایک دوسرے کے آگے پیچھے رہی ہیں وہ کہاں چاہیں گی کہ پاکستان میں برس ہا برس سے جاری و ساری روائت ٹوٹے۔غریب چھوٹی سی غلطی کرتا ہے تو اسے بھگتنا پڑتی ہے اور امیر پہاڑ جیسی غلطی کرے تو اس کو بچانے پورا سسٹم آ جاتا ہے۔اﷲ کے پیارے رسولﷺ نے فاطمہ نامی لڑکی کے کیس میں یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ تم سے پہلی قومیں اسی لئے برباد ہوئیں کہ وہ غریب اور کمزور کو سزا دیتی تھیں اور امیر اور تگڑے کو معاف کر دیتی تھیں۔اور مزید فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو اس کو بھی یہی سزا دیتا۔

قوم اس وقت ایک دو راہے پر کھڑی ہے اگر اس وقت احتساب نہ ہوا اور بے دریغ احتساب نہ ہوا تو لکھ لیجئے پاکستان اندھرے اور پستی میں تو جائے گا ہی موجودہ حکومت بھی ہل کے رہ جائے گی۔فواد چودھری کا یہ یان خوش آئیند ہے کہ پچاس ارب ڈالر بھی مل جائے تو نواز شریف کو جواب دینا ہو گا۔اس سے کوئی ڈیل نہیں ہو گی۔

لوگوں کا یہ سوال بھی اہم ہے کہ احتساب صرف شریف فیملی کا ہی کیوں؟اس میں بڑا وزن ہے اور سچی بات ہے ڈاکٹر عاصم اور ان جیسے کئی لوگ اگر اڑنچو ہو جاتے ہیں تو سوال تو زندہ ہو جاتا ہے۔قوم کا مطابہ بجا ہے کہ جن جن پر الزاامات ہیں اور ٹھوس شواہد ہیں تو انہیں ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے۔جن کو علاج معالجہ چاہئے تو انہیں بے نظیر ہسپتال کی او پی ڈی میں پرچی کٹوا کر لائن میں علاج معالجے کی سہولتیں دی جائیں۔اگر اسحق ڈار بیماری کا بہانہ بنا کر لندن کی سڑکوں پر ٹوپی پہن کر گھوم رہا ہے تو جنرل پرویز مشرف ٹوٹی کمر کے ساتھ دبئی کے کلبوں میں ہلکے سروں پر ٹھمکے لگا رہا ہے تو اس پر عمل ہو۔سپریم کورٹ انہیں جن مراعات کی پیش کش کر رہی ہے بعین وہی مراعات اسحق ڈار کو بھی پیش کی جائیں۔احتساب سب کا ،ان صحافیوں کا کیوں نہیں جو چالیس چالیس لاکھ تنخواہیں لیتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں چودہ لاکھ تنخواہیں لینے والوں گا۔کل مجھے ایک پاکستانی امریکن ڈاکٹر ملیں جنہوں نے مجھے ہلا کے رکھ دیا کہ امریکہ سے کڈنی ٹرانسپلانٹ کے ماہر ڈاکٹر سعید اختر اس لئے واپس جا رہے ہیں کہ نیب ان کی چودہ لاکھ تنخوا پر معترض ہے،جب کے وہ ایک ٹراسپلانٹ کے اتنے پیسے امریکہ میں لے رہے تھے۔بیرون ملک ایک اعلی عہدوں پر فائز پاکستانیوں کے مشاہرے پاکستانی چالیس پچاس لاکھ عام ہیں خصوصا ڈاکٹر حضرات کی تنخواہیں اور مراعات اس سے بھی زیادہ ہیں۔اگر انہیں کسی اچھے کام کے لئے دس بارہ لاکھ دئے جاتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں آپ سوچیں صرف انڈیا اور چائینہ میں ٹرانسپلانٹ کا خرچہ ایک کروڑ کے قریب ہے۔پاکستانی یہ زر مبادلہ کیسے لے جاتے ہیں یہ کرنسی چینجر مارکیٹ میں جائیے پتہ چل جائے گا۔احتساب کے اس عمل کے ساتھ ساتھ ہمیں یہم بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں ہم قوم کا نقصان تو نہیں کر رہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وعدہ معاف گواہ کیا بلا ہے؟یعنی شریک جرم شخص کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ وہ پھنسا ہے تو اس کی ساری لوٹ کھسوٹ ناجائز کام صرف اس شرط پر معاف ہو سکتے ہیں کہ وہ سچ بتا دے اور ایسے ثبوت مہیا کر دے جس سے دوسرے شخص کو سزا ہو جائے۔میں شہباز شریف کی طرف دا ری نہیں کر رہا لیکن آپ کو علم ہونا چاہئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں بھی وعدہ معاف گواہ نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے وہ پھانسی چڑھائے گئے۔مسعود محمود فیڈرل سیکورٹی فورس کے سر براہ تھے ۔میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد مدتوں مزے کرتے رہے ناجائز کاموں میں معاون خصوصی بنے رہے۔حالنکہ پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ غیر قانونی کاموں سے انکار کر دیا جائے سرکاری ملازم کی تو نوکری آسانی سے ختم نہیں ہوتی انہیں عام حالات میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے اگر ایسا تھا تو ان لوگوں کا جرم بھی بڑے ملزم کے برابر ہے اور انہیں بھی سزا ملنی چاہئے۔جناب وسیم سجاد کہہ رہے تھے کہ ان کی مدد اس لئے ضروری ہوتی ہے تا کہ نا قابل تردید ثبوت حاصل کئے جائیں۔نہیں حضور اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے وہ معاملات پر نظر رکھے اینٹی کرپشن ایف آئی اے اور بہت سے محکمے کس کام کے ۔یہ ملک خدادا اسلامی جمہوریہ ہے اسلام کسی طور ایک چور کو صرف اس لئے چھوڑنے کی اجزات نہیں دیتا کہ وہ دوسرے چور کو پکڑوا دے۔اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات تیار کر کے وزیر اعظم کو دے۔اس طرح تو فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے لوگ صاف بچ نکلیں گے اور وہ اپنی ساری دولت جو وہ ضرور ٹھکانے لگا چکے ہوں گے اس سے گلچھرے اڑانے بیرون ملک چلے جائیں گے۔ہمارے قانون میں اس خرابی کو دور کرنا ضروری ہے۔

اداروں کی نیت صاف ہے اور صاف نیت متقاضی ہے کہ کوئی چور اور ڈاکو صرف اس لئے بچ نہ پائے کہ عدالتی نظام کے تقضے پورے کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔یقینا شہباز شریف کی گرفتاری ایک درست قدم ہے لیکن اپنے اداروں کی کارکردگی پر اٹھائے جانے سوال بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔
 

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 417 Articles with 283085 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More