آئین پاکستان کا آرٹیکل 260

 قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور تعامل امت میں مسلمان اور غیر مسلمان کے حوالے سے واضح تعلیمات موجود ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں وضاحت کے ساتھ’’ مسلمان اور غیر مسلمان‘‘ کی تشریح کر دی گئی ہے۔پارلیمان میں جب یہ بحث و تمحیص جاری تھی تو اس موقع پر پارلیمنٹ میں دیگر ممبران اسمبلی کے ساتھ ساتھ ہر مکتبہ فکر کے جید علمائے کرام کو بھی بحث میں حصہ لینے اور اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا گیا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) A میں بتایا گیا ہے کہ ’’مسلم‘‘ سے مراد کوئی ایسا شخص جو وحدت اور توحید قادر مطلق اﷲ تبارک و تعالیٰ، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے‘‘ آئین کی شق اپنے معنی و مفہوم میں بالکل واضح ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ذہنوں میں اسے سمجھنے میں دانستہ یا نا دانستہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ آئین کی شق کے چند الفاظ پر توجہ مبزول کر کے کسی بھی وجہ سے پیدا شدہ ابہامات کو دور کیا جائے۔اس میں لکھا گیا کہ ’’ حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے‘‘ ان الفاظ کی رو سے نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کے بعد جو بھی نبوت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے اور اس کے ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ایسے جھوٹے دعووں سے تاریخ اسلامی کے کئی صفحے داغدار ہیں۔ ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک اہل اسلام نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے محاز پر لازوال قربانیاں دیں لیکن عقیدہ توحید کی طرح عقیدہ ختم نبوت پر بھی کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔البتہ ان الفاظ کو حضرت عیسی علیہ السلام کے قیامت سے پہلے زمین پر نزول کے ساتھ جوڑنا کم فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے ماں کی گود میں اعلان اور دعوی نبوت پر اﷲ کا قرآن گواہ ہے۔ پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو کوئی قبل از قیامت حضرت عیسی علیہ السلام کی تشریف آوری کا عقیدہ رکھے وہ بھی آئین کی اس شق کے مطابق غیر مسلم قرار پائے گا۔ جو کوئی بھی حضور ﷺ کی تشریف آوری سے قبل عیسی علیہ السلام کے دعوی نبوت کا منکر ہے وہ تعلیمات قرآنیہ سے ناواقف اورعقل سلیم سے نابلد ہے۔ اوراگر کوئی قرآن کی تعلیمات کے مطابق اس بات کو مانتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اعلان نبوت فرمایا اور بنی اسرائیل کو تبلیغ فرمائی تو پھر آئین کی اس شق میں ’’حضرت محمد ﷺ کے بعد‘‘ کے الفاظ کو کم از کم تین بار دہرا کر دوبارہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرے کہ اس کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ امید ہے کہ غلط فہمی دور ہوجائے گی۔ اس مختصر سے کالم میں تفصیلات اور حوالہ جات کی گنجائش نہیں ۔ بہر کیف قرآن پاک اور احادیث متواترہ کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ وہ حضرت مریم علیھا السلام کے بطن مبارک سے محض اﷲ تعالیٰ کی کامل قدرت سے بن باپ پیدا ہوئے۔ پھر بنی اسرائیل کی طرف نبی بن کر مبعوث ہوئے۔ آخر کار جب ایک موقع پر ان کے قتل کی مذموم کوشش کی گئی تو بحکم خداوندی فرشتے ان کو اٹھا کر زندہ سلامت آسمان پر لے گئے اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو طویل عمر عطا فرما دی۔ قرب قیامت میں جب دجال کا ظہور ہو گا اور وہ دنیا میں فتنہ وفساد پھیلائے گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ قیامت کی ایک بڑی علامت کے طور پر نازل ہونگے اور دجال کو قتل کریں گے۔ دنیا میں آپ کا نزول ایک امام عادل کی حیثیت سے ہو گا اور اس امت میں عیسی علیہ السلام

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے اور قرآن و حدیث (اسلامی شریعت) پر خود بھی عمل کریں گے اور لوگوں کو بھی اس پر چلائیں گے۔ نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نکاح بھی فرمائیں گے اور ان کی اولاد بھی ہو گی پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہو جائے گی اور مسلمان آپ کی نمازہ جنازہ پڑھ کر حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضہ اقدس میں دفن کر دیں گے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور تمام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ روئے زمین پر امن وامان کا دور دورہ ہوگا، شیر اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس ٹھہریں گے۔ (مسند احمد: ۶۰۴/۲۔ فتح الباری: ۷۵۲/۶) یہ تمام امور احادیث صحیحہ متواترہ میں پوری وضاحت کیساتھ بیان کئے گئے ہیں جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔اسی طرح احادیث میں امام مہدی علیہ السلام کی تشریف آوری کی پیشین گوئیاں بھی موجود ہیں۔ اسلامی عقیدہ کے مطابق امام مہدی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ مدینہ منورہ میں ان کی پیدائش وتربیت ہوگی، ان کا نام نامی ’’محمد‘‘ او روالد صاحب کا نام ’’عبداﷲ‘‘ ہوگا، وہ شکل وشباہت اور اخلاق وشمائل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشابہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ ان کی نبوت پر کوئی ایمان لائے گا، مکہ مکرمہ میں ان کی بیعت خلافت ہوگی اور بیت المقدس ان کی ہجرت گاہ ہوگا، بیعتِ خلافت کے وقت ان کی عمر چالیس برس کی ہوگی، ان کی خلافت کے ساتویں سال دجال نکلے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہوگا، حضرت مہدی کے دوسال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معیت میں گزریں گے اور94 برس میں ان کا وصال ہوگا۔ نزول عیسیٰ و امام مہدی علیھما السلام کی مذکورہ بالا روایات صحیحہ متواترہ سے صاف طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔ نہ یہ کہ وہ دنیا میں کسی خاندان میں پیدا ہوں گے۔ جبکہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کے بارے میں حدیث ہے ’’سمعت رسول اﷲﷺ یقول المہدی من عترتی من ولد فاطمۃ‘‘(ابوداؤد ص ۱۳۱ ج۲ کتاب المہدی)ترجمہ: ’’حضورﷺ نے فرمایا کہ مہدی میری عترت سے ہوگا۔ یعنی حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے۔ واضح رہے کہ ابن ماجہ شریف کی ایک ضعیف روایت جس میں ذکر ہے کہ’’ عیسیٰ و مہدی ایک ہی شخصیت ہوگی‘‘ کا رد سینکڑوں احادیث متواترہ سے ہوتا ہے۔ سینکڑوں احادیث صحیحہ و متواترہ کو نظر انداز کرکے کسی ایک ضعیف حدیث پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھنا بھی بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ کالم کا دامن ان تفصیلات کی اجازت نہیں دیتا لھذا اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218858 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More