کئی من گدھے کا گوشت فروخت ہوتا ہوا پکڑا گیا ،
سینکڑوں گدھوں کی کھالیں ملیں ، سو من مردہ جانوروں کا گوشت تلف کیا گیا ،
ہزاروں لیٹر کیمیکل ملا دودھ گرا دیا گیا ، دودھ میں مضر صحت کیمیکلز کی
ملاوٹ کی جا رہی ہے ۔ یہ وہ خبریں ہیں جو روز اخبارات میں شائع اور ٹی وی
چینلز پر نشر کی جا رہی ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی واہ
واہ کی جا رہی ہو تی ہے کہ فلاں ہوٹل ناقص صفائی پر سیل کر دیا گیا ، فلاں
کو اتنے ہزار جرمانہ کیا گیا وغیرہ وغیرہ لوگوں کے بچوں کے منہ سے دودھ
چھین لیا جاتا ہے اور میڈیا اپنی ٹی پی آر ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔عرصہ دراز سے
یہ خبریں سن کر تجسس ہونے لگا ہے کہ پنجاب میں کھانے پینے کی کوئی چیز خالص
نہیں ہر ہوٹل پر گدھوں کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے !دودھ اور دودھ سے بننے
والی اشیاء خوردو نوش کسی زہر سے کم نہیں! اگر سوچا جائے تو ان خبروں پر
کئی سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں ۔ نظام قدرت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حلال چیز میں
برکت رکھی ہے ۔ پاکستان میں روزانہ ان گنت بھیڑ بکریاں ، گائے اور بھینسیں
گوشت حاصل کرنے کیلئے ذبح کی جاتی ہیں پھر بھی ان کے ریوڑ ہر جگہ دیکھنے کو
ملتے ہیں جبکہ گدھوں ، کتوں اور بلیوں کے ریوڑ کہیں نظر نہیں آتے ۔خبروں کے
حساب سے اب تک تو پاکستان میں گدھوں کو معدوم ہو جانا چاہئے تھا ۔ گدھا
ریڑھی بان کے مطابق گدھے کی قیمت تیس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہے اور وزن
بھی چالیس سے ساٹھ کلو گرام کے درمیان ہوتا ہے ۔آخر اس میں ہوٹل والوں کو
کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ دودھ کی بات کی جائے تو ایک دودھ والا صبح سویرے اٹھ
کر دیہات سے اسی سے سو لیٹر دودھ اکٹھا کر کے شہر میں دوکانداروں اور گھروں
میں فروخت کرتا ہے۔ نہ ہی گھروں میں اور نہ ہی اکثر دوکانداروں کے پاس دودھ
کی چکنائی چیک کرنے والے آلات ہوتے ہیں جس سے دودھ والے کو ڈر ہو کہ کہیں
دودھ کی چکنائی کم ہونے سے قیمت کم نہ ملے ۔ہاں! لیکن مختلف دودھ کی
کمپنیوں کے کولیکشن سینٹرز پر تعینات عملہ دودھ کی چکنائی بڑھانے کیلئے
کیمیکلز ڈالتے ہیں تاکہ کمپنی سے زیادہ قیمت وصول کر سکیں ۔انہی کولیکشن
سینٹرز کے دودھ میں کمپنی والے مزید کیمیکلز ڈال کر خوبصورت پیکنگ میں
بازار میں دوگنی قیمت پر فروخت کرتے ہیں ۔ آج تک میں نے نہ دیکھا نہ سنا کہ
کسی دوکان سے ان مشہور کمپنیوں کے دودھ کے ڈبے اٹھا کر لیبارٹری میں چیک
کئے گئے ہوں ۔فریش کریم کیک کی تیاری میں آج کل زیادہ تر دوکاندار حضرات
ڈبوں میں پیک تیار شدہ کریم استعمال کر رہے ہیں جس کی فی لیٹر قیمت ایک سو
ساٹھ روپے ہے ۔ اگر اس ڈبے کی کریم کو گرم کیا جائے تو بجائے گھی بننے کے
سفید رنگ کے دانے بن جاتے ہیں اور مرے ہوئے بد بودار جانور جیسی بو آتی ہے
۔ اور اس کریم کے بنے ہوئے کیک سرعام فروخت کئے جا رہے ہیں۔ دیسی گھی اور
خالص مکھن سے تیار شدہ مٹھائیوں کے بورڈ ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں لیکن ان
مٹھائیوں میں دیسی گھی اور مکھن جیسی کوئی چیز شامل نہیں ہوتی ۔ اور نہ ہی
کبھی فوڈ اتھارٹی والو ں نے زحمت کی کہ اسے چیک کیا جائے۔ یعنی شیشے کی
دوکان بنا کر کچھ بھی بیچنے پر فوڈ اتھارٹی کو کوئی اعتراض نہیں ۔ میں نے
اپنے شہر جھنگ میں دیکھا کہ یہاں فوڈ اتھارٹی کا کام لوگوں سے بدتمیزی کرنا
،جائز ناجائز چھوٹے اور غریب دوکانداروں کو جرمانے کرنے کے علاوہ کچھ نہیں
۔ایک دیہی علاقے میں بیٹھے ایک کباڑیے کی دوکان کے تالے توڑ کر سوکھی روٹی
کے ٹکڑوں کو مضر صحت قرار دے کر مقدمہ درج کر دیا جبکہ اس دن اس کباڑیے کے
والد کی فوتیدگی کی وجہ سے دوکان بند تھی !دودھ والے کا دودھ ہاتھ سے چیک
کر کے گرا دیا جاتا ہے، ایک کریانہ کی دوکان پر چھاپہ مارا جاتا ہے اور فوڈ
اتھارٹی کے عملے کا بندہ اپنی جیب سے گٹکا نکال کر اس کے غلے میں ڈالنے کی
کوشش میں عوام کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔ پھر رات گئے تک فوڈ اتھارٹی والوں
کی جانب سے دوکاندار کے پاس معافی کیلئے لوگ بھیجے جاتے ہیں کہیں کوئی
کاروائی نہ کرے ان کے ڈر کی وجہ سے لوگ خاموش ہو جاتے ہیں کہ اپنا کاروبار
بھی چلانا ہے ۔کیونکہ ان کے خلاف شکایت کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے ۔یہ بھی
سننے میں آیا ہے کہ جھنگ میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے عملے نے ہوٹل والوں کے
ساتھ اپنے قریبی عزیزوں کے کاروبار شروع کروا رکھے ہیں، ان سے مال نہ
خریدنے پر جرمانے کیلئے تیار رہیں ۔
اب تو بڑے بڑے فارم بنائے جا چکے ہیں جہاں زیادہ تعداد میں جانور رکھ کر ان
سے سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے اور مختلف کمپنیوں کی گاڑیاں وہاں سے خود دودھ
لے جاتی ہیں ۔ان لوگوں نے ہی ایک نئے رواج کو جنم دے دیا ہے جو انتہائی
مہلک ہے لیکن افسوس کہ فوڈ اتھارٹی کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ۔ گائے اور
بھینسوں میں دودھ کی مقدار زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کیلئے ہارمون آکسی
ٹوسن جو ٹیکے کی صورت میں دستیاب ہے استعمال کیا جاتا ہے جس کے لگنے کے
فوری بعد عضلاتی نظام اثر انداز ہوتا ہے اور بچے دانی سکڑتی ہے جس کی وجہ
سے فوری دودھ اتر آتا ہے اس کے علاوہ پورا سال دودھ حاصل کرنے کیلئے کم از
کم ایک دفعہ ضرور بھینسوں کو حاملہ کیا جاتا ہے لیکن آکسی ٹوسن کے استعمال
سے وہ حمل بھی ضائع ہو جاتا ہے اور ان کا دودھ والا مقصد پورا ہو جاتا
ہے۔اگر ہم آکسی ٹوسن کے بارے میں جانیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ ہارمون
بھی وراثتی صنف رکھتا ہے اسی لئے یہ گائے کے دودھ کے ذریعے آگے پینے والوں
میں منتقل ہو جاتا ہے ۔ اس کا استعمال پچھلے کئی عشروں سے ہو رہا ہے ۔ خطے
میں موسمی تبدیلیوں اور ایسی خوراک کے استعمال کی وجہ سے آج کی نوجواں نسل
جلد جوان اور جلد بوڑھی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں میں کینسر جیسے
موذی امراض میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ان سب کے پیچھے ایسی ہی ادویات
جو جانوروں میں لالچ و حرص کیلئے استعمال کروائی جاتیں ہیں کارفرما ہیں ۔ویسے
آفرین ہے اس شخص پر جس نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے عملے کی بھرتی کے وقت اس
بات کو انتہائی ملحوظ خاطر رکھا کہ کہیں کوئی مہذب اور تمیز دار انسان اس
محکمے میں بھرتی نہ ہو جائے ۔ تحریک انصاف کی حکومت جو خود کو عوامی حکومت
کہتی ہے کو چاہئے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قوانین اور اختیارات پر نظر ثانی
کرے ۔ مستند لیبارٹری رپورٹ کے بغیر کسی کے خلاف کاروائی نہ کی جائے بڑے
بڑے پولٹری فارمز کی باقاعدہ چیکنگ کروائی جائے اور آکسی ٹوکسن جیسے دیگر
ادویات کی سرعام خریدو فروخت کو ممنوعہ قرار دیا جائے ۔ اور اس محکمے کے
خلاف شکایات کیلئے ہر ضلع میں شکایت سینٹرز قائم کئے جائیں ۔سزا وغیرہ کا
معاملہ بھی متعلقہ ضلع میں ہی قائم ہو ۔ میری ناقص رائے میں صوبائی محتسب
پنجاب کو ان کے خلاف شکایات سننے کا اختیار دیا جائے ۔
|