فلسفہ سقراط پر اک نظر

تحریر: علی عبداﷲ
سقراط کو مغربی فلسفے کے بانیوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ جس نے اہل مغرب کو ایک جدید نظریے اور فلسفے سے روشناس کروایا اس کی کوئی باقاعدہ اپنی تصنیف موجود نہیں سوائے افلاطون کے جس نے سقراط کے نظریات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایتھنز میں پیدا ہونے والا سقراط ایک سنگ تراش تھا اور بعد میں ایتھنز کی فوج میں بھی شامل رہا۔ سقراط نے عوام میں پھیلے گمراہ کن عقائد پر تنقید کی جو کہ معاشرے میں سرایت کر چکے تھے۔ سقراط مکالموں کی صورت عوام میں گفتگو کرتا تھا جس کا مقصد عوام کو ان گمراہ کن عقائد پر غور و فکر کی دعوت دینا ہوتا تھا۔ اس کے مکالمے کچھ یوں ہوتے، سقراط: کیا دیوتا سب جانتے ہیں؟جواب:جی ہاں! بالکل۔سقراط: لیکن بعض اوقات وہ کچھ معاملات سے غیر متفق بھی ہوتے ہیں۔جواب: ہاں ایسا ہی ہے، وہ ہمیشہ لڑتے ہیں۔

سقراط: یعنی وہ صحیح اور غلط کی کشمکش میں الجھے رہتے ہیں؟ جواب: جی میرا خیال تو یہی ہے۔ سقراط: تو مطلب یہ ہوا کہ دیوتا ہر شے کے بارے میں علم نہیں رکھتے؟ سقراط کا خیال تھا کہ اچھائی یا برائی۔ کوئی نفسی موضوعات نہیں بلکہ یہ ابدی تصورات ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلسل خودشناسی کے ذریعے ان تصورات کو دریافت کریں۔ حکمت اور دانائی ہی انسان کو اخلاقیات کی حقیقی روح سے متعارف کرواتی ہیں۔ سقراط کے نزدیک کائنات میں واحد اچھائی علم اور جہالت واحد برائی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کو علم کی تلاش کسی بھی قیمت پر جاری و ساری رکھنی چاہیے ورنہ جہالت اس کا مقدر بن کر عمر بھر اسے اندھیروں میں ہی بھٹکاتی رہے گی۔ سقراط کے نزدیک جسم اور روح دو مختلف چیزیں ہیں اور اگر جسم متروک کر دیا جائے روح کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ وہ کہیں اور چلی جائے گی۔

سقراط کی نظر میں نقصان صرف وہ ہوتا ہے جو آپ کو روحانی طور پر متاثر کرے اور یہ صرف انسان کے اپنے غلط عمل کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ سقراط کے سامنے اس کے جرائم پر 5 شرائط تھیں جن میں سے اس نے موت کو چنا تھا۔ پہلی قید، دوسری جلاوطنی، تیسری اپنے نظریات سے کنارہ کشی، چوتھی جرمانہ اور آخری موت۔ قید سقراط کے لیے ناقابل قبول تھی کیوں کہ اس طرح اسے عمر بھر دوسروں کے تابع رہنا پڑتا۔ سقراط جو ایتھنز کو دل و جان سے چاہتا تھا، 70 سال کی عمر میں جلاوطنی کا تو وہ سوچنا بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کہیں اور بھی چلا جائے تب بھی لوگ اسے ڈھونڈ کر اس کی محفل میں بیٹھنے لگیں گے اور ان سے بچنے کے لیے اسے مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ چلتے رہنا پڑے گا۔ سقراط کے لیے علم و حکمت سے بھرپور مکالموں سے دست بردار ہو کر خاموشی کی زندگی گزارنا موت جیسا تھا۔ خاموش رہنے کا مطلب دیوتاؤں کی نافرمانی تھی۔

سقراط کے نزدیک علم ایک نیکی ہے اور لوگوں تک اسے پہنچانے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ان سے ان کے عقائد کے بارے میں سوال کیے جائیں تاکہ وہ جوابات کی تلاش میں زندگی کے نئے اسراروں سے پردہ ہٹا سکیں ۔ سقراط کے پاس اتنی دولت بھی نہ تھی کہ وہ جرمانہ بھر کر آزاد ہو سکتا لہذا موت ہی ایک آخری صورت تھی جسے وہ چن سکتا تھا ۔ کیوں کہ سقراط سمجھتا تھا کہ خاموشی، جلاوطنی اور قید اس کی روح کو نقصان دیں گے اور وہ نہیں چاہتا کہ خود اپنی مرضی سے اپنی روح کو نقصان پہنچائے اور دیوتاؤں کو ناراض کرے۔ سقراط موت کو ایک امید سمجھتا تھا۔ ایسی امید کہ جس کے بعد ا س کی روح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جائے گی۔ جہاں اسے وہ تمام خوشی اور دانائی مل سکے گی جو یہاں نہ مل سکی تھی لہذا سقراط نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پی لیا۔

سقراط کو مغربی تاریخ کا پہلا شہید دانشور تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اپنی زندگی حکمت و دانائی کی کھوج اور انصاف و خوب صورتی جیسے تجریدی تصورات کے حصول میں وقف کر کے آنے والی دنیا کو علم و حکمت کی نئی راہوں پر گامزن کیا۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ انسان کو سائنسی مشاہدات کی بنا پر بہت سا علم حاصل ہوا ہے۔ فلیمنگ کی پنسلین ہو یا مارکونی کا ریڈیو معلومات جس ذریعے سے بھی حاصل ہوں وہ ہمارے علم میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کا تمام علم عملی مشاہدات کی بنا پر ہی حاصل ہوا؟ ہمارا جواب ہاں ہی ہو گا مگر سقراط کے نزدیک ایسا نہیں ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ حسیات کسی بھی صورت حقیقت کو نہیں سمیٹ سکتیں۔ روح اور بدن کے مابین ایک تقسیم ہے جس میں بدن کا علم حاصل کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ سقراط کے نزدیک جسم کا تعلق صرف مادی خوشی کے ساتھ ہے جیسے خوراک، جنسی ضروریات اور دولت وغیرہ ۔لہذا ان تمام وجوہات کی بنا پر بدن علم کے حصول میں ایک رکاوٹ ہے اور یہ کبھی بھی حقیقی علم سے آشنا نہیں کروا پاتا بالکل اسی طرح جیسے ایک ہی شے کو دو مختلف لوگ مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں اور ان کا مشاہدہ کبھی بھی یکساں نہیں ہوتا ۔
 
سقراط کا کہنا ہے کہ انسان کو علم کے ذرائع کے لیے اپنی حسیات پر کبھی انحصار نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ہر انسان کی حسیات مختلف ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق علم ایک ابدی، ٹھوس اور کبھی نہ بدلنے والی شے ہے اور اس کے لیے اپنی حسیات پر انحصار کر کے اسے کھوجنا بیکار ہے۔ اس کی مثال سقراط یوں دیتا ہے کہ اگر ایک لکڑی کو آدھا پانی میں ڈبو کر دیکھا جائے تو یہ ٹیڑھی دکھائی دے گی جب کہ حقیقت میں وہ ایسی نہیں ہے۔ تو کیا ہماری حسیات ہمیں دھوکہ دیتی ہیں؟ سقراط کہتا ہے کہ جسم کا تعلق ایک ناپائیدار اورحسیاتی دنیا سے ہے جب کہ روح ایک ابدی اور پائیدار دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ حسیاتی دنیا یہی ہے جو ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں لیکن یہ ایک عکس ہے ۔ حقیقی دنیا ہم سے پوشیدہ ہے جہاں ہر شے کی پہلے سے ایک وضع اور ہئیت موجود ہے۔ یہ ہئیت ایک پائیدار، ناقابل تبدیل اور ابدی پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر ہم اس ناپائیدار دنیا میں اشیا کو پہچان پاتے ہیں۔

سقراط کے نزدیک چونکہ یہ کائنات مسلسل بدلاؤ کا سامنا کرتی ہے اس لیے یہ حقیقی نہیں ہو سکتی اور اسی بنا پر کوئی بھی شے یہاں مستقل نہیں ٹھہر پاتی ۔ مثال کے طور پر لکڑی کی ایک کرسی چاہے جتنی اعلی اور مضبوط بنائی گئی ہو لیکن ایک وقت آتا ہے کہ یہ بھی زوال پذیر ہو کر اپنا وجود مکمل کھو بیٹھتی ہے۔ اسی طرح جسم بھی اپنی تمام ضروریات اور خواہشات کی بنا پر ہمیں مختلف طریقوں سے مصروف رکھتا ہے۔ اسی حسیاتی وجود کی بنا پر یہ انسان کو علم و حکمت سے دور کر دیتا ہے۔سقراط کے نزدیک اگر کوئی انسان علم و دانش حاصل کرنا چاہتا ہے تواسے حسیاتی دنیا سے توجہ مکمل طور پر ہٹانی ہو گی کیوں کہ یہ ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ خواب کتنا تیزی سے بدلتے ہیں ۔ اگر چیزیں اسی طرح بدلتی رہیں تو ہم کیسے کچھ بھی سیکھ سکتے ہیں؟ جسم ایک بدی کا مقبرہ ہے جو ہماری روح کی اچھائی کو قید کر لیتا ہے اور حکمت کے ہر موقعے کو دھوکہ میں بدلنے کی سعی کرتا ہے ۔

اس طرح سقراط مختلف دلائل کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ بدلاؤ اور ناپائیداری سے بھرپور اس کائنات میں ہماری حسیات کبھی حقیقت تلاش نہیں کر سکتیں۔ حقیقت اور حکمت صرف اپنی روح میں تلاش کی جا سکتی ہے جس کے لیے روح تک پہنچنا لازم ہے۔ ہماری پیدائش ہمیں وہ تمام چیزیں بھلا دیتی ہے جو ہماری روح سیکھ چکی ہوتی ہے لیکن انہیں پہچاننا ممکن ہوتا ہے۔ اسی لیے سقراط کہتا ہے کہ انسانوں کو وہ سب سیکھا ہوا دوبارہ یاد کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے سقراط جدلیاتی طریقہ اپنایا کرتا تھا۔ وہ لوگوں سے سوالات کرتا تھا اور انکو غور و فکر کرنے پر اکساتا تھا۔ سقراط کہتا ہے، ’’حکمت و دانائی اس وقت آ سکتی ہے جب انسان کسی بھی منظر یا حسیاتی مشاہدے کو ذریعہ بنائے بنا خالصتاً اپنے خیالات پر غور کرے۔ آنکھوں اور کانوں اور دیگر بدنی عوامل سے آزاد ہو کر ہی روح انسان کو حقیقی علم سے آشنا کروا سکتی ہے کیوں کہ انسان کا بدن ہمیشہ اس کی روح کو کشمکش میں ڈال کر اسے سچائی اور حکمت سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے ‘‘۔

ذرا غور کیا جائے تو سقراط کا یہ فلسفہ دنیا کی ناپائیداری اور ابدی زندگی کے بارے واضح اشارات پیش کرتا ہے ۔ یہ ہمیں علم و حکمت کے حصول کے لیے جسمانی خواہشات سے دوری اور مکمل یکسوئی سے غور و فکر کرنے کی بھی دعوت دیتا ہے لیکن سقراط کی مثال اس شخص سی ہے جو کسی صحرا میں بھٹکتا ہوا اپنے عقل اور وجدان پر غور و فکر سے منزل کی جانب چلنے کی کوشش توکرتا ہے مگر کسی واضح راستے سے ناآشنا رہتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے الہیات کا تصور شروع ہوتا ہے ۔ عقل یہاں پر آ کر بے بس ہو جاتی ہے اور پھر مذہب اسے ایک مکمل راستہ دکھا کر منزل کی نشاندھی کرتا ہے ۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.