اگرآپ بچوں کے ادیب ہیں، بچوں کیلئے کہانیاں لکھتے ہیں،
آپ کی کہانیاں چھپتی ہیں، آپ کی تحریروں کو پسند کیا جاتا ہے اور اس حوالے
سے آپ کی ایک مستحکم پہچان بھی ہے تو پھر میرے اصل مخاطب آپ ہی ہیں لیکن اس
کے ساتھ ساتھ میری یہ بھی خواہش ہے کہ اس اہم موضوع پر گفتگومیں بچوں کے
ادب سے وابستہ تمام فریقین بشمول ادیب، قارئین، والدین، اساتذہ اور وہ بچے
بھی شریک ہوں جو کہانی لکھنے، پڑھنے اور سننے میں آج بھی دلچسپی رکھتے ہیں،
میں بچوں کے ادب کا ایک قاری ہونے کے ناطے آپ سے صرف یہ دریافت کرنا چاہتا
ہوں کہ کیاموجودہ دور میں تخلیق ہونے والا ادب بچوں کے ذوق مطالعہ کی تسکین
میں کامیاب ہو رہا ہے؟ بچوں کی کتاب سے دوری المیہ اور باعث تشویش سمجھنے
سے پہلے کیا یہ سمجھنا ضروری نہیں کہ بچہ کتاب سے دور کیوں ہوا؟ محض یہ کہہ
دینا کہ ویڈیو گیمز سے موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے سوشل میڈیا تک آسان
رسائی نے بچوں کو کتاب سے دور کیا تو کسی حد تک حقیقت ہونے کے باوجود میں
اس امر سے پوری طرح متفق نہیں ہوں، میں سمجھتاہوں کہ کتاب میں بچوں کیلئے
کوئی قابل ذکر دلچسپی نہ ہونا ہی بچوں کی کتاب سے دوری کا اصل محرک بنا ہے
اور اس کیلئے دیگر عوامل کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہوگی، مجھے
یقین ہے کہ آپ بچوں کو ان کی ذہنی سطح کے مطابق تخلیقی مواد پڑھنے کیلئے
دیں تو وہ بہت جلد مطالعے کی طرف واپس لوٹ آئیں گے اور میرے اس یقین کی ایک
بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کا ادب عروج پر ہے، ناول، کہانیاں،
ڈرامے، کارٹون، فیچر اور اینی مینڈ فلمیں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر رہی
ہیں تو پھرتو پھر پاکستان میں بچوں کا ادب روبہ زوال کیوں؟ حقائق سے نظریں
چرانا اور بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینا میرے نزدیک
مستحسن رویہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان میں بچوں کیلئے معیاری ادب کا
فقدان بڑھتا چلا جا رہا ہے، ہم یہ جاننے کے باوجود کہ ہم اپنے بچپن میں کیا
پڑھنا چاہتے تھے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج کا بچہ کیا پڑھنا چاہتا ہے؟
بچہ ہر دور میں متنوع موضوعات پر دلچسپ، تحیر اور تجسس سے بھرپور کہانیاں
پڑھنا چاہتا ہے، اس کی آنکھیں سپنے دیکھنا چاہتی ہے اور وہ اپنی تصور کی
آنکھ سے ان دیکھی دنیاؤں کی سیر کرنا چاہتا ہے
آپ میری سوچ سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر میں ذاتی طورجنوں بھوتوں، پریوں اور
شہزادے ،شہزادیوں کی کہانیوں کے یکسرخلاف نہیں ہوں کہ نانی اوردادی کے
بسترمیں یہی کہانیاں سن سن کر ہی توآنکھوں میں سپنے اترا کرتے تھے، نیکی
اور بدی، حق اور باطل کے درمیان حد فاصل کاپتہ چلتاتھا، دل میں صلہ رحمی،
بھلائی اورخیرکے جذبات جنم لیتے تھے، تحقیق اورجستجو کاجذبہ
پیداہوتاتھامگراب یہ کہانیاں قدرے ناپید ہوتی جا رہی ہیں، لاہور کے کچھ
رسائل جوایسی کہانیاں چھاپتے ہیں آج بھی اچھی خاصی تعداد میں فروخت ہوتے
ہیں جبکہ کئی پبلشرز بھی ایسی ہی کہانیوں کی کتابیں چھاپ کر پیسہ کما رہے
ہیں جو اس امر کی واضح دلیل کہ ان دیو مالائی کہانیوں کا دور ابھی گیا نہیں،
کثرت کسی بھی چیز کی مناسب نہیں مگر کبھی کبھار ایک آدھ ایسی اچھی کہانی
کسی اچھے ادیب سے سرزد ہوجائے تو میرے نزدیک اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا
چاہئے، 80ء کی دہائی کے وسط اور بالخصوص نوے کی دہائی کے آغاز سے ہمارے ینگ
رائٹرز نے کہانی کے اسلوب کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے اور اپنے ارد گرد کے
ماحول اور جیتے جاگتے کرداروں کو اپنی کہانیوں کا حصہ بنانے کیلئے جس روایت
شکنی کا آغاز کیا وہ بہرحال قابل تحسین مگر کہانی کے اسلوب میں تنوع اور
توازن کو برقرار رہنا چاہئے تھا، گذشتہ تین دہائیوں میں بچوں کیلئے یقینی
طور بے پناہ ادب تخلیق کیا گیا، مستقل لکھنے والوں کی اکثریت نے انفرادی
طور پر سینکڑوں کی تعداد میں کہانیاں لکھیں لیکن بڑی معذرت کے ساتھ عرض ہے
کہ ان میں یکسانیت غالب رہی اور ان میں سے ہر ادیب اپنی شاہکار کہانیوں کی
تعداد انگلیوں پر گن سکتا ہے، پاکستان میں بدقسمتی سے ایک عرصہ تک بچوں کے
ادب کا شعبہ جمود کا شکار رہا لیکن اب الحمد اﷲ یہ جمود ٹوٹ چکا ہے اور میں
آنے والے کل کو بچوں کے ادب کے حوالے سے آج کے دن سے کہیں زیادہ تابناک
دیکھ رہا ہوں، ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی تعلیم اور تربیت کے اس اہم
ذریعے کو مزید فعال بنانے کیلئے اپنی ذمہ داریوں کومحسوس کرتے ہوئے نئے
تجربات کی طرف توجہ دی جائے، کتب اور رسائل وجرائد میں بچوں کی عمر، نفسیات
اوردلچسپی کے امورکومدنظررکھتے ہوئیتخلیقی موادمہیا کیاجائے جبکہ ٹارزن،
عمرو،چھن چھنگلو، آنگلوبانگلو،ناگ عنبر ماریہ،انسپیکٹرجمشید سیریزجیسے نئے
کرداروں کی تخلیق بھی بہت ضروری ہے
آج بچوں کے ادب کو نئے تجربات کی اشد ضرورت ہے، ایسے تجربات جو بچوں کو
مطالعہ کی طرف راغب کرسکیں، ایسی کہانیاں جو اپنے اچھوتے موضوعات اور منفرد
انداز تحریر کی بدولت ننھے منے قاریئین کو اپنے سحر میں جکڑ لیں، ان میں
نیکی و بدی. برائی و بھلائی، حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے کا غیر محسوس
انداز میں خود شعور پیدا ہو، ان کے لئے اصلاحی، اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی
موضوعات کے ساتھ ساتھ جنوں، بھوتوں، پریوں، دیوں، بادشاہوں، شہزادے
شہزادیوں سمیت جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں اور سمندروں کی ان دیکھی دنیاؤں کی
حیرت انگیز بھی لازمی لکھیں، ایسی کہانیاں صرف چھوٹے بچے ہی نہیں بلکہ بڑے
حتی کہ والدین بھی شوق سے پڑھتے ہیں، کہانیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے
شاعری کا شعبہ بھی قدرے جمود کا شکار ہے اس پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت
ہے، اچھی نظمیں بھی بچوں کے ادب کا گراں قدر سرمایہ ثابت ہوتی ہیں، یہ بات
سچ ہے کہ ادب میں اس امر کی کوئی تخصیص نہیں کہ کون سا ادب بچوں کے لئے ہے
اور کون سا خواتین یا بڑوں کیلئے اور پوری دنیا میں ایسا کوئی معیار رائج
بھی نہیں, ہمارے چند سینئرز اس تقسیم کے حوالے سے بجاطور پر اپنے تحفظات کا
اظہار بھی کرچکے ہیں مگر میں نہایت ادب کے ساتھ یہ گزارش کروں گا کہ بچوں
کو مطالعہ کی طرف راغب کرنے جیسے عظیم مقصد کے حصول کی خاطر فی الوقت اس
تقسیم کو گوارہ کرلیا جائے کیونکہ بہرحال ہم شعوری طور پر ابھی اتنے بالغ
نہیں ہو? کہ اس واضح تقسیم کے بغیر نئی نسل کیلئے ادب تخلیق کرنے کی ہمہ
گیر تحریک کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھا سکیں، اس لئے بچوں کے ادب کی انفرادیت
ہر حال میں برقرار رہنی چاہئے، بچوں کے ادیبوں کی خدمت میں یہ چند معروضات
پیش کرنے کے بعد میں اختتامی کلمات کے طور پر بلاتخصیص تمام نامور اہل قلم
سے التجا کرنا چاہتاہوں کہ ازراہ کرم وہ بھی بچوں کے اس ادب میں اپنا کم یا
زیادہ حصہ ضرور ڈالیں جس سے بچپن میں متاثر ہوکر وہ ادب کی طرف مائل ہوئے
اور آج اس شعبہ میں ایک اعلی مقام رکھتے ہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ
بچوں کے لئے لکھنے سے آپکی ادبی حیثیت اور مقام پر کوئی حرف نہیں آئے گا
بلکہ مقبولیت اورقدر ومنزلت میں اضافہ ہی ہوگا،آپ کو شاید یاد ہو کہ ہمارے
پرانے ادیب اور شاعر بھی بچوں کیلئے بطور خاص لکھا کرتے تھے، اب علامہ
اقبال سے بڑی کیا مثال دوں؟
|