شہباز شریف کی عالمی شہر ت ایک انتھک ،سخت گیر اور محنتی
ایڈمنسٹریٹر کی ہے ، ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ جس کام کا ارادہ
کرلیں اسے انجام تک پہنچائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھتے ، گزشتہ روز انکی
گرفتاری کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی،گوکہ صبح ہی سے
خبریں چل رہی تھیں کہ انہیں آج صاف پانی کیس میں انکوائری کے لئے پیش ہونا
تھاتاہم اس بات کا پتا نہ تھا کہ جب وہ انکوائری کے لئے جائیں گے تو انہیں
صاف پا نی کیس کی بجائے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم سکینڈل میں گرفتار کر لیا جا ئے
گا ، شہباز شریف کی ایک اور شہرت بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ
مفاہمانہ رویہ رکھتے ہیں اور مشرف دور میں بھی انہوں نے انکے ساتھ مستقل
بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا اور اپنے طور پر نواز شریف اور مشرف میں
مفاہمت کے لئے مسلسل کوشاں رہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اس میں کتنے کامیاب ہو
ئے،جہاں تک پانامہ کیس اور اسکے بعد کی صورتحال کا تعلق ہے ، شہباز شریف
اور انکے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف نے اداروں کے بارے میں محتاط رویے کا
مظاہرہ کیا یہاں تک کہ این اے 120لاہور کے الیکشن سے لاتعلقی بھی اختیار کی
، باپ بیٹے کا نواز شریف اور مریم نواز کے بیانئے سے واضح فرق بھی عوام
اچھی طرح جانتے ہیں ،پاکستان میں نیب کے ذریعے سیاستدانوں کو ماضی میں
پارٹیاں چھوڑنے اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبو رکیا جاتا رہا ہے
اس لئے اس ادارے کی ساکھ کبھی بھی اچھی نہیں رہی ہے ، تحریک انصاف کی
موجودہ حکومت احتساب کا نعرہ تو لگا رہی ہے لیکن اس بات کا کبھی تسلی بخش
جواب نہیں دے سکی کہ خیبر پختون خواہ میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور
دیگر وزراء پر الزامات کے بعد انکے احتساب کا عمل روکنے کے لئے وہاں اس
ادارے کو کیوں بند رکھا گیا ، کے پی میں وزراء خود ایک دوسرے پر سنگین
الزامات لگاتے رہے لیکن وہاں احتساب کا عمل کن مصلحتوں کا شکار ہوا اس بارے
میں عوام کے ذہنوں میں آج بھی سوالات گردش کر ر ہے ہیں ، ملک میں بلاامتیاز
حتساب کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن اس احتسابی عمل پر عوام کااعتماد حاصل
کرنا بے حد ضروری ہے ، یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب مسلم لیگ ن، ق لیگ ،
پیپلز پارٹی سمیت33 سال اقتدار میں رہنے والے مارشل لاء ڈکٹیٹرز اور انکے
حواریوں ، وزیروں اور مشیروں سے بھی باز پرس کی جائے، ورنہ تو احتساب محض
انتقام ہی دکھائی دیتا رہے گا اور شہباز شریف کی گرفتاری سیاسی انتقام کے
تاثر کو مزید ہوا دے گی بلکہ موجودہ حکومت جسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے
لئے اس وقت ملک میں سیاسی استحکام کی فضاء درکار ہے اسکے لئے بھی مشکلات
میں اضافہ ہوگا ، وزیر اعظم عمران خان احتساب کے پر زور حامی ہیں ، انہیں
چاہئے کہ اس عمل کوسال کے 12مہینے جاری رکھنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے
ساتھ مل کر نئی قانون سازی کریں اور سیاستدانوں سمیت ججز، جرنیلوں ،
افسرشاہی ، جاگیرداروں اور صنعتکاروں سب کے احتساب کے لئے ایک ایسا ادارہ
قائم کریں جس کی ساکھ نیب جیسی ہرگز نہ ہواور عوام اس پر اپنے اعتماد کا
اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ بدقسمتی سے اگر ایسا نہ ہوا تو
سیاستدان اپنی باری آنے پر تماشہ بنتے رہیں گے اور آج کے تماشائی کل حکومت
میں نہ ہونے کے بعد خود تماشہ بن جا ئیں گے۔ احتساب کے عمل کو قابل بھروسہ
بنائے بغیر اس قسم کی کارروائیاں جاری رہیں توانہیں سیاسی انتقام سے ہی
تعبیر کیا جائے گا اورپاکستان کی جگ ہنسائی میں اضافہ ہوگا۔ |