جماعت اسلامی صوبہ خیبر پجتونخوا کے امیر سینیٹر مشتاق
احمد خان نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مختلف امور پر روشنی ڈالی، ان امور
میں موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف سے قرض لینا بھی شامل ہے.سینیٹر مشتاق
احمد خان نے آئی ایم ایف کے قرض کو دائمی مرض سے تشبیہ دی ہے، حقیقت بھی
یہی ہے کہ یہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایسے عطائی(اتائی) معالج کی حیثیت
رکھتا ہے جو کسی چھوٹے سے مرض کے لئے دوا دیتا ہے اور وہ مرض تو برقرار
رہتا ہی ہے اس کے ساتھ بیمار کو کئی مزید امراض لاحق ہوجاتے ہیں اور مریض
بے چارہ یہ شوگر کوٹڈ کڑوی ادویات استعمال کر کر کے آخر کار قبر میں جا
اترتا ہے.
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف جدید استعمار کا وہ پھندا ہے جسے
اگر کوئی ملک ایک بار اپنے گلے میں ڈال لے تو اس طوق سے جان چھڑانا مشکل ہو
جاتا ہے.آئی ایم ایف نے جن ممالک کو بھی امداد کے نام پر قرض دیا ان کی
معاشی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوئی ہے. یہ ادارہ دراصل تیسری دنیا کے
غریب ممالک کو طاقتور استعماری ممالک کے ایجنڈے کے تحت چلانے کے لئے بنایا
گیا ہے. معاشی اصلاحات اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے جیسی شرائط پر غریب
اور ضرورت مند ممالک کو قرض دے کردراصل یہ ادارہ ان کی پالیسیوں پر
اثرانداز ہوتا ہے.
آئی ایم ایف سے جن ممالک نے بھی قرض لیا ہے اس کے نتیجے میں اس ملک کے عوام
کو بہت برے نتائج بھگتنے پڑے ہیں، ملک کی معاشی صورتحال کو تو وقتی طور پر
کچھ سہارا مل جاتا ہے لیکن عوام کا بھرکس نکل جاتا ہے. ملک میں مہنگائی کا
طوفان آجاتا ہے، کئی طرح کے ظاہری اور پوشیدہ ٹیکسوں کی بھرمار ہوجاتی ہے،
ملکی کرنسی مسلسل عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہے اور اسٹاک ایکسچینج کی
صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے.ملکی ترقیاتی عمل متاثر ہوتا ہے اور اس
ادارے کی شرائط پوری کرتے کرتے ملک و قوم کا ستیاناس ہوجاتا ہے.
ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرض دینے کے بعد قرض لینے والے ملک کی معیشت عملاً آئی
ایم ایف کے کنٹرول میں آجاتی ہے. اگر کوئی ملک اس ادارے کی شرائط پوری نہ
کرسکے اور لیا گیا قرض بھی واپس نہ کرسکے تو بین الاقوامی سطح پر اسے
دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یا پھر وہ اپنی رہی سہی آزادی و خودمختاری
بھی اس ادارے کے ہاتھوں گروی رکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے.
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی میں ہمارا ملک کئی بار اس ادارے کے چنگل میں
پھنسا ہے، ہمارے حکمرانوں نے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے نام پر قرض لئے
اور اس کا خمیازہ قوم نے بھگتا ہے، موجودہ حکومت ایک بار پھر اس چوکھٹ پر
پہنچ گئی ہے، سینیٹر مشتاق احمد خان نے ماضی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے
یہ الفاظ استعمال کئے ہیں اور ریاست و قوم کو درپیش چیلنجز اور خطرات سے
آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے.
ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال کی بہتری کیلئے قرض کے نام پر دائمی مرض لینے
کی بجائے پالیسیوں میں جنگی بنیادوں پر تبدیلیوں کی ضرورت ہے. ویسے بھی
موجودہ حکومت تبدیلی کی علمبردار ہے تو اپنے اس سلوگن کو مدنظر رکھتے ہوئے
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی
کے لئے فوری طور پر اقدامات کرے. پاناما لیکس میں 436 پاکستانیوں کے نام
آئے تھے اس حوالے سے وزیراعظم جناب عمران خان اور سینیٹر سراج الحق امیر
جماعت اسلامی پاکستان نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا اس کے نتیجے
میں شریف خاندان کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا اور شریف برادران کو
اپنے 30 سالہ اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے، سینیٹر سراج الحق کی پٹیشن میں
تمام 436 پاناما زدہ افراد کے خلاف کارروائی کی استدعا تھی، لیکن تاحال ایک
کے سوا باقی 435 افراد کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا کوئی عندیہ نہیں مل
رہا ہے. جناب عمران خان صاحب اس وقت اقتدار میں ہیں وہ اپنی اس پٹیشن کی
تکمیل کے لئے اقدامات کریں، اگر حکومت صرف ان 435 باقی افراد کے خلاف
سنجیدگی سے کارروائی شروع کر دے تو چند ماہ میں قومی معیشت میں بہتری آنی
شروع ہو جائے گی اور آئی ایم ایف کے در پر حاضری کی ضرورت نہیں پڑے گی.
حکومت کو دوسرا قدم یہ اٹھانا چاہیے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کیلئے عزم مصمم
کرلے اور ہر سطح پر کرپٹ افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے. عوام پر
ٹیکس در ٹیکس کا بوجھ لادنے اور ہر کچھ عرصے بعد کسی نئے ٹیکس کے نفاذ یا
ٹیکس نیٹ میں اضافے کے نام پر نچلے طبقے کی گردن پر چھری چلانے کی بجائے
اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے. غیر ضروری درآمدات پر پابندی عائد کر
دی جائے یا پھر ان پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کردیئے جائیں، جب تک درآمدات
اور برآمدات میں توازن قائم نہیں ہوگا اس وقت تک زرمبادلہ کے ذخائر میں
استحکام نہیں آئے گا.
اسی طرح سود اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے، ایک اسلامی جمہوریہ
میں سود کے کاروبار کو ختم کرنے کی بجائے فروغ دیا جا رہا ہے، اللہ نے قرآن
پاک میں اعلان کیا ہے کہ سود کا کاروبار کرنے والوں کی معیشت تنگ کر دی
جاتی ہے، جناب عمران خان صاحب نے بارہا اپنے انتخابی جلسوں میں بھی اور
اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک خلافت راشدہ کا
نظام لائیں گے. اس وعدے کی طرف پیش قدمی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ملک
میں سودی نظام کو بتدریج ختم کرنے کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کئے جائیں.
سینیٹر مشتاق احمد خان کی سینٹ میں کی جانے والی تقریر اپوزیشن رہنماؤں کی
عمومی مخالفت برائے مخالفت پر مبنی تقاریر کے برعکس ایک عمدہ تعمیری تقریر
تھی انہوں نے دینی مدارس کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا ہے حکومت ان پر
بھی توجہ دے، دینی مدارس کے خلاف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ بند کیا جائے اور
سابقہ حکومت کے دور میں ان مدارس کے اتحاد نے جن نکات پر اتفاق کیا ہے
انہیں عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے. تیس، پینتیس لاکھ طالبعلموں کے روشن
مستقبل کے لئے ایک قابل عمل اور متفقہ پلان کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں یہ
ادارے قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار
ادا کرسکیں.
|