فیصلہ تمہارے ہاتھ میں

افغانستان میں اقتدارکی جنگ نے عبداللہ عبداللہ کواس قدرجنون میں مبتلاکر دیا کہ اپنے محسن پاکستان کی دشمنی میں آقاؤں کی زبان میں گفتگوکرنے کے باوجودمکمل اقتداران کاخواب ہی رہااور اب افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات نے انہیں اپنی سیاسی روش بدل کرزمینی حقائق کااعتراف کرنے پر مجبورکر دیاہے ۔یہ پہلاموقع ہے کہ ماضی کی روش سے ہٹ کرانہوں نے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کے افغانستان کے بارے بیان کوخوش آئند قراردیتے ہوئے اسے خطے میں امن واستحکام کیلئے انتہائی مفید قرار دیا ہے۔نومنتخب حکومت کے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے اپنی خارجہ پالیسی کا آغازبھی 13ستمبرکو ایک روزہ افغانستان کے دورے سے کیاہے۔اس حوالے سے عبداللہ عبداللہ نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کواپنے ایک انٹرویومیں کہاکہ پاکستان اورافغانستان کے دوطرفہ خوشگوارتعلقات قائم رکھنے میں فی الحال جودشواری کاسامناہے ،امیدہے کہ اب ہم مل جل کران دشواریوں پرقابوپالیں گے جس کیلئے دونوں جانب سے صدق دل سے مصالحانہ اورمثبت رویہ اختیارکرنالازمی ہے۔

عبداللہ عبداللہ نے مزیدکہاکہ پاکستان ہرصورت میں خطے سے دہشتگردی کاخاتمہ چاہتاہے کیونکہ وہ بھی اس حقیقت کوتسلیم کریں گے کہ افغانستان کے بعد دہشتگردی میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرنے والاملک پاکستان ہے اوراس نقصان کی تلافی اسی وقت ممکن ہے جب اس خطے سے دہشتگردی کامکمل خاتمہ کردیاجائے گا اور مکمل خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب افغانستان بھی پاکستان کاساتھ دے اوردہشتگردی کے خاتمے کی مخلصانہ مساعی روبہ عمل لائے کیونکہ اس وقت دہشتگردوں کی آماجگاہ اور مستقل ٹھکانہ افغانستان ہے۔جہاں تک افغان طالبان کاتعلق ہے توافغان حکام یقین رکھیں کہ افغان طالبان بلاوجہ میدان جنگ میں نہیں بلکہ ان کامطالبہ عین جائزہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے فوری نکل جائیں اوران کی بھی موجودگی بھی ویسی ہی غیرقانونی ہے جس طرح سوویت یونین کی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی کواقوام عالم نے غیرقانونی اور جارحیت قراردیاتھا اوریہ افغان قوم کی فطرت کے بھی خلاف ہے کہ وہ اپنی سر زمین پرکسی غیرملکی کاوجودبرداشت نہیں کرتے جس طرح انہوں نے سوویت یونین کے خلاف جہادکرکے اسے افغانستان سے نکل جانے پرمجبورکیاتھااوراس زمانے میں تمام مغربی ممالک بشمول امریکاان کومجاہد کے القابات سے نوازتے اوران کے استقبال کیلئے اپنی آنکھوں کوفرش راہ کئے رکھتے تھے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ امریکی قیادت اس پالیسی سازاس حقیقت کوتسلیم کرنے سے قاصرہیں اوراس کی وجہ ان کی وہ سازش ہے کہ افغانستان میں اپنامستقل اڈہ قائم کرکے وہاں سے چین،روس،ایران اورپاکستان پرنظررکھ سکیں ۔عبداللہ عبداللہ اوردیگرافغان حکمرانوں کوامریکی سازش کا ادراک ہونا چاہئے۔پاکستان ان کاہمسایہ ملک ہے اورافغانستان کے حالات براہِ راست پاکستان پراثراندازہوتے ہیں۔افغان قیادت کوسوچناچاہئے کہ پاکستان اگرافغانستان کے خاف ہوتاتوچالیس لاکھ افغان مہاجرین کوپناہ کیوں دیتا،یہ بھی عالمی حالات کامنفردواقعہ ہے ،ظاہرہے کہ پاکستان کوافغان عوام سے محبت ہے تبھی تواس نے اتنابھاری بوجھ برداشت کیااوریہ افغان مہاجرین نہ صرف اب تک پاکستان میں موجودہیں بلکہ یہاں رہ کرکاروبار بھی جماچکے ہیں۔ بدقسمتی سے انہیں سے کچھ لوگ افغانستان سے آنے والے دہشتگردوں کی سہولت کاری میں بھی ملوث پائے گئے ہیں،اس لحاظ سےپاکستان کودوہرانقصان ہورہاہے۔اس کی حالیہ مثال پشین میں ہونے والاوہ دہماکہ ہے جس پراسسٹنٹ کمشنرکی گاڑی کے قریب بم دہماکے کے نتیجے میں تین محافظ سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ ڈرائیورشدیدزخمی ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلاہے۔

پولیس کاکہناہے کہ دہماکہ کوئٹہ سے ملحقہ ضلع پشین ،شہرسے چندکلومیٹردور بائی پاس پرہوا،جب وہاں اسسٹنٹ کمشنرکی گاڑی گزررہی تھی۔ پولیس کے مطابق دہماکہ ریموٹ کنٹرول بم سے کیاگیا جوسڑک پرکحری ایک موٹرسائیکل پرنصب کیاگیاتھا۔ دہشتگرداسسٹنٹ کمشنرکونشانہ بنانا چاہتے تھے تاہم وہ حملے کے وقت گاڑی میں موجودنہیں تھے۔اس دہماکے سے دوباتیں تومسلم ہیں کہ ایک تویہ رسوائے زمانہ بھارتی ''را''ملوث ہے اوردوسری یہ کہ دہشتگردافغانستان سے یہاں داخل ہوئے اورپاکستان کوافغانستان سے یہی شکائت ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس درپردہ بھارت سے آنے والے ''را''کے ایجنٹوں اوردہشتگردوں کونہ صرف پناہ دیتی بلکہ ان کی سرپرستی بھی کرتی ہے۔اب شاہ محمدوقریشی نے سلجھے ہوئے اندازمیں بجاطور پر افغان قیادت کوباورکرایاکہ افغانستان میں امن پاکستان کے بہترین مفادمیں ہے اورہم خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ افغانستان میں مکمل امن قائم ہو کیونکہ دونون ملکوں کی ترقی ایک دوسرے کے امن سے وابستہ ہے۔

اس حقیقت کااگرچہ افغانستان کی طرف سے بھی اظہارہوتارہتاہے کہ دونوں ملکوں میں امن اور ترقی وخوشحالی ایک دوسے سے وابستہ ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان عملی طورپرسفارتی وسیاسی سطح پرافہام وتفہیم کی پالیسی میں شدت اورسرگرمی پیدا کریں تاکہ غلط فہمیاں دورہوسکیں اوردوبرادرملک ایک دوسرے کے دلوں کے قریب آسکیں۔ عبداللہ عبداللہ اب اپنادل پاکستان کی طرف سے صاف کرلیں کہ وزیراعظم عمران خان نے 6ستمبریومِ دفاع کے موقع پربرملایہ اعلان کیاہے کہ اب آئندہ پاکستان کی سرزمین سے کسی کے مفادکی جنگ نہیں لڑی جائے گی۔اب یہ افغانستان کی ذمہ داری ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کودرپردہ ''را'' کی غلامی سے آزادکروائے اورپاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے وہ تمام ٹھکانے ختم کرائے اورپاکستانی طالبان اوردیگردہشتگردوں گروپوں کی پناہ گاہوں وٹھکانوں کوبندکرے۔

عبداللہ عبداللہ نے خودایک سوال کے جواب میں کہاہے کہ دہشتگردعناصرطویل مدت تک کسی بھی ملک کے وفادارنہیں رہتے اورنہ ہی کسی ملک کے مفادمیں مددگارثابت ہوتے ہیں بلکہ انتہاء پسندعناصرکی اوّلین ترجیح اقتداراورطاقت کاحصول ہوتاہے اوروہ اپنی حکومت قائم کرنے کیلئے اس ملک کے خلاف بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جوانہیں پناہ اورتعاون مہیا کرتے ہیں۔ جب عبداللہ عبداللہ اس حقیقت سے واقف ہیں توانہیں اب دہشتگردوں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھالیناچاہئے اور افغانستان کوہرقسم کی دہشتگردی کی سرپرستی سے باز آنا چاہئے کیونکہ اب وقت آگیاہے جب دہشتگردافغانستان پرقبضے کاخواب دیکھنے لگے ہیں اوریہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ان دہشتگردوں کاتعلق بھارت سے ہے یعنی دوسرے لفظوں میں بھارت افغانستان پرقبضے کے خواب دیکھنے لگاہے۔ عبداللہ عبداللہ خودسوچیں کہ آخربھارت کوافغانستان میں اتنی دلچسپی کیوں ہے کہ وہ افغانستان میں کیوں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے؟یہ امدادبے لوث توہرگز نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے پیچھے کوئی غرض،کوئی لالچ یاکوئی سازش تویقینا ہے تبھی توبنیایہ سب کچھ کررہاہے۔

عبداللہ عبداللہ جذبہ حب الوطنی کے تحت ایمانداری کے ساتھ تمام معاملات کابغورجائزہ لیں تو پھرفیصلہ کریں کہ ان کیلئے پاکستان جوان کاہم مذہب اوربرادرملک ہے جس کا نفع ونقصان افغانستان کے نفع ونقصان سے مشروط ہے یابھارت جو مسلمانوں کاازلی دشمن اورپاکستان کوروزِ اوّل سے اپنا دشمن نمبرایک کہہ کرپکارتاہے اورحال ہی میں اسرائیل کے ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی قربت اورمشترکہ مسلم دشمنی کایجنڈہ کسی سے ڈھکاچھپانہیں رہا۔اس لئے بھارت کے حوالے سے عبداللہ عبداللہ نے جوجواب دیا تھاانہیں بھارت کی جانب سے مختلف شعبۂ ہائے زندگی میں تعاون ومددگار ثابت ہواہے اورکسی حد تک دفاعی امورپربھی دوطرفہ تعاون ہواہے لیکن افغان سرزمین پربھارتی فوجیوں کی موجودگی کا تاثریکسر غلط ہے اورنہ ہی کوئی ایسی کوئی تجویززیربحث ہے۔عبداللہ عبداللہ صرف اتناکریں کہ اپنی خفیہ ایجنسی کواس تحقیق پرلگادیں کہ افغانستان میں داعش کی داغ بیل کس نے ڈالی توان کو بہت جلدعلم ہوجائے گاکہ افغانستان میں داعش کاقیام سراسربھارت کاکیا دھرا ہے،جو طالبان پراس لئے حملے نہیں کرتے تھے کہ وہ افغان حکومت کے مخالف تھے بلکہ اس لئے حملے کرتے تھے کہ جب بھارت وہاں اقتدارمیں آئے تواس کوکسی اختلافی قوت کا سامنا نہ کرناپڑے اور وہاں سے وہ پاکستان کے خلاف من مانے طورپرکاروائیاں کرسکے۔اب یہ عبداللہ عبداللہ کے اختیارمیں ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کراپنے عوام کوتابناک مستقبل دیناچاہتے ہیں یابھارت کے پیچھے چل کر دہشتگردی اورطوائف الملوکی کواستحکا م دیناچاہتے ہیں۔فیصلہ اب ان کے ہاتھ میں ہے۔

عبداللہ عبداللہ کوجاری زمینی حقائق کوبھی ذہن میں رکھناچاہئے کہ امریکابالآخرسترہ برس کی شرمناک جارحیت اورایک کھرب ڈالرسے زائد افغان جنگ کی آگ میں جھونکنے کے باوجود شکست درشکست کھانے کے بعداس نتیجے پرپہنچاہے کہ طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے بغیر افغانستان سے نکلنے کاکوئی راستہ نہیں اوراس بات کااعتراف پینٹاگون اورافغانستان میں امریکی کمانڈرجنرل نکلسن کاوہ اعتراف ہے جس میں انہوں نے طالبان سے مذاکرات میں شرکت پرآمادگی کااظہارکیاہے تاہم یہ طالبان قیدیوں کی پیشگی رہائی سے مشروط ہے۔بعض امریکی حلقے اوراس کے حواری چاہتے ہیں کہ امریکاافغانستان میں الجھارہے تاکہ وہ اس کی سرپرستی میں اپنے مذموم مقاصدپرکام کرتے رہیں اورافغانستان،پاکستان ایک دوسرے کے حریف رہیں۔

2001ء میں افغانستان پرامریکی جارحیت کے بعدپہلی بارامریکی ونیٹوافواج کی سرپرستی میں بھارت کوافغانستان میں زمینی طورپرموجودرہنے کاموقع ملااوراس نے اس خطۂ میں اثرونفوذ کرنے،سیکورٹی معاملات میں مداخلت اورجیوپالیٹکس کواپنے مفادکے مطابق مرتب کرنے کی کوششوں کاموقع ملااوراس کی مستقل کوشش یہی ہے کہ وہ امریکی آشیرآبادکے ساتھ افغانستان میں اپنے قدم جمائے رکھے۔اس حوالے سے بھارتی چانکیہ پالیسی سازوں نے افغانستان میں اپنے انفراسٹرکچرکی بحالی ، بڑے معاشی منصوبے اورسماجی سطح پراستواردرکاربڑھانے اور مواصلات کے شعبہ میں سرمایہ کاری ،اسٹیل کنسورشیم کے قیام،بجلی گھروں کی تعمیرکے علاوہ افغان پولیس اور سیکورٹی فورسز کی تربیت کوبھی پالیسی کاحصہ بنایااورپاکستان کوباور کرانا چاہاکہ بھارت اپنے خطہ کی برترقوت ہے جسے عالمی طاقتوں خاص طورپرامریکامیں مخصوص مقام حاصل ہے،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ معاشی وسیاسی کامیابیوں کے ساتھ اس نے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ اورپاکستان مین تخریب کاری کے بیس بھی وہاں قائم کرلئے ہیں۔

افغانستان وپاکستان کے تعلقات خراب کرنے میں کئی دوسرے ملکوں کیلئے سازشی کردارادا کررہا ہے اورآج بھی ہے اوریہی تیسرافریق اعتمادسازی میں رکاوٹ ہے اورخطہ میں فساد پھیلارہا ہے جسے عالمی طاقتوں کی بھی سرپرستی حاصل ہے ،خطہ کے دواہم ممالک چین اورروس نے بھی خطہ میں بھارت کی کوششوں کوتسلیم نہیں کیا،ایسے میں بھارت کیلئے خطے میں اپنی علمبرداری تزویراتی مفاداورتحفظ کی امریکی یقین دہانی کے باوجودکئی محاذوں پربھارتی تخمینے ناکام ثابت ہوئے ہیں اوراس کے اہداف دھرے کے دھرے رہ گئے ،نہ توطالبان کوخاموش کرایاجاسکااورنہ ہی پاکستان کی ایک فعال مداخلت کے رول آگے بندباندھاجاسکا۔پاکستان کی نئی حکومت نے ایک بارپھرکوشش کی ہے کہ افغانستان بھارتی شکنجے سے نکلے اورخطے کے مفادات کوافغان عوام کی نظرسے دیکھے لیکن روزِ اوّل سے افغان اشرافیہ کوبھارتی اورامریکی سرپرستی کانشہ ہے، اس لئے کم ہی توقع کی جاتی ہے کہ افغان حکمران پاکستان مخالف قوتوں کے چنگل سے نکل سکیں۔کیاعبداللہ عبداللہ آگے بڑھ کراس افغان اشرافیہ کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کرسکیں گے یاپھرخودبھی اسی نمک کی کان کا حصہ بن کرتاریخ کے سیاہ باب میں اپنانام لکھوانے پر شرمندہ ہونے کوترجیح دیں گے۔فیصلہ اب ان کے ہاتھ میں ہے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.