آہستہ آہستہ ہماری روز کی مسکراہٹ روزانہ کے قہقہے لگانے
ميں تبديل ہوگئ۔اسُ کے روزانہ کے وجود کا عادی ہوگيا تھا،ہم دونوں کا
بلاوجہ ايک دوسرے کو گلے لگانا اور حسبِ معمول خاموشی سے ايک دوسرے کا نام
اپنی کاپی ميں لکھ لينا اور گھر جاکر اسُ کو پڑھنا احساسِ خوشی کا سماع
بنتا تھا۔اسکول کے آخری روز اختتِامی پيغام دے کر ايسا لگا کے آخری سانس تک
يہ رشتہ قائم ہو گياہے۔ کل اچانک کمرے ميں داخل ہوا تو پيروں ميں ايک کاغذ
آيا جس پر سالوں کی مٹی جمی ہوئ تھی،صاف کيا تو ۴ سال پرانہ اپنے رقيب کا
خط پايہ جس کا عنوان تھا ميرے پيارے دوست۔۔۔۔۔ناہی اب ميں پيارا رہا ہوں
اور لفظِ دوست تو کب سے مٹی کے اندر ہے۔
جی لو ان پلوں کو ہنس کر اے دوست
پھر لوٹَ کر دوستی کے گزرے زمانے نہيں آتے |