بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
۵ جون ۲۰۰۸ء کو میڈیا میں ایک خبر آئی کہ بارک حسین اوباما نے کہا ہے کہ
دہشت گرد گروپ اسرائیل کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاہم وہ اسرائیل کے سچے دوست
ہیں اور اسرائیل کو در پیش خطروں کو امریکہ کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ذہن
میں سوال اٹھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہر امریکی صدر، صدر بننے سے قبل اور بعد
حتیٰ کہ صدارت سے ہٹنے کے بعد بھی اسرائیل کا بھوت اپنے سے چمٹائے رکھتا ہے؟
عقل تو کہتی ہے کہ اگر فکر کرنا ہی ہے تو پیٹرولیم سے مالا مال ممالک کی
کرو، جن سے امریکہ سمیت دنیا کے سارے ممالک کا پہیہ حرکت میں ہے۔ یہ
انتہائی قلیل اسرائیلوں کی فکر میں کیوں پریشان رہتے ہیں؟ یہ تو ناممکن ہے
کہ وہ ان کی نفسیات سے واقف ہوں اور ان کے نسبی اور تاریخی کردار سے لاعلم
ہوں پھر آخر ایسا کیوں ہے؟ سوچ کا دائرہ وسیع ہونے لگا اور سابق صدر بل
کلنٹن کے دورِ اقتدار کا آخری زمانہ یاد آگیا جب انہوں نے فلسطین اور
اسرائیل تنازع کو حل کرنے کی مخلصانہ کوششوں کا آغاز کرنا چاہا تو ان کے
ساتھ ایک یہودی عورت کا اسکینڈل سامنے لاکے میڈیا پر اس کی اتنی تشہیر کی
گئی کہ امریکی صدر کو بھی دفاعی راستہ اختیا ر کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور
اصل معاملہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا، کیونکہ اسرائیل تو امریکہ کے کندھے پر
سوار ہو کے ساری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ اس معاملہ کو
کیونکر ختم ہوتے دیکھنا پسند کرے گا۔ پھر میڈیا کی وہ رپورٹیں بھی ذہن میں
آئیں کہ اسرائیلی ایجنٹ امریکہ کے الیکشن میں اپنے من پسند امیدواروں کو
کامیاب کروانے کے لئے ڈالر پانی کی طرح بہاتے ہیں اور پھر ان ہی کے دورِ
اقتدار میں یہ رقم کئی گنا سود کے ساتھ امداد کی شکل میں اسرائیل منتقل
ہوجاتی ہے۔ یہ رقم غریب عوام کے ٹیکس کی شکل میں ادا کی گئی رقم میں سے ہی
ہوتی۔ پھر بھی میڈیا کی جادو گری سے یہ قوم مغربی ممالک کی نظر میں مظلوم
بنی ہوئی ہے۔ میڈیا کے کرشموں پر مزید نظر ڈالنے سے قبل لندن یونیورسٹی میں
شعبہ فلسفہ وعلم النفس کے سابق صدر پروفیسر جوڈ (پیدایش ۱۸۹۱ء فوت ۱۹۵۳ء)
کی کتاب ”جدید شیطانیت کی طرف رہنمائی“ کا ایک اقتباس درج ذیل ہے۔ جس سے یہ
مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اپنی کتاب کے صفحہ ۱۵۳ پر پروفیسر جوڈ لکھتے
ہیں، ”........... جو لوگ کسی قوم پر کسی مقصد کے لئے حکمرانی کرنا چاہتے
ہیں وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اس کے لئے کوئی ایسی چیز تلاش
نہ کرلیں جس سے وہ نفرت کرے اور اس کے لئے کوئی ایسی شخصیت یا قوم نہ پیدا
کرلیں جس سے وہ ڈر ے، میں ہی اگر قوموں کو متحد کرنا چاہوں تو مجھے چاہئے
کہ میں ان کے لئے کسی اور سیارے پر کوئی دشمن ایجاد کروں۔ مثلاً چاند پر،
جس سے یہ سب قومیں ڈریں۔ اس بناء پر قطعاً حیرت کی بات نہیں کہ اس زمانے کی
قومی حکومتیں اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں نفرت اور خوف ہی
کے جذبات کے زیر اثر ہیں۔ انہیں جذبات پر ان سلطنتوں پر حکمرانی کرنے والوں
کی زندگی موقوف ہے اور انہیں جذبات پر قومی اتحاد کی بنیاد ہے“۔ اب اسی
تناظر میں ہمیں اسرائیلی ذہنیت کو پرکھنا ہوگا۔
یوں تو بیسویں صدی کی ابتداء سے ہی دنیا کے بیشترعلاقوں میں انسانیت کے
اخلاق واعمال، حرص وہوس ، سنگ دلی و بے رحمی کی سطح چوپایوں اور درندوں کی
سطح سے کچھ بلند نہیں تھی بلکہ کم تھی۔ مغربی اقوام کی اولین ترجیح دولت کو
ہر ممکنہ ذرائع سے حاصل کرنا، اسے اپنی نفسانی خواہشات پر خرچ کرنا اور اس
کے لئے دوسری اقوام کے مادی وسائل پر قبضہ کرنا ہی رہ گیا تھا تاکہ اپنے
عیش وعشرت کا گراف مزید بلند کیا جاسکے جو آج تک جاری ہے۔ وہ پرندوں کی طرح
تیز رفتاری سے اڑنا اور سمندر کی گہرائیوں میں مچھلی کی طرح تیرنا تو سیکھ
چکے تھے مگر زمین پر انسانوں کی طرح چلنا بھول گئے۔ دوسری قوموں پر ڈر،
خوف، نفرت بٹھانے اور ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لئے پوری عقل، قوت اور
لامحدود وسائل صرف آلاتِ حرب کو مہلک سے مہلک تر بنانے میں خرچ کئے جانے
لگے۔ یہاں تک کہ اسی صدی کے درمیان جاپان کے دو بدقسمت شہر ہیروشیما اور
ناگاساکی نے ایٹم بم کی وہ ہولناک تباہ کاریاں دیکھیں کہ جن کے تصور سے آج
بھی انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والوں کی
پیشانیاں بھی عرق آلود ہوجاتی ہیں اور اب تو یہ حال ہے کہ خدانخواستہ تیسری
عالمی جنگ چھڑی تو روئے زمین پر شاید ہی کہیں زندگی کے کوئی آثار باقی
بچیں۔ پروفیسر جوڈ کے فلسفہ کی رہنمائی میں اقوام عالم کے درمیان خوف ونفرت
کے جذبات ابھارنے کے نت نئے راستے دریافت کئے جا رہے ہیں تاکہ ان کی
حکمرانی مستحکم رہ سکے۔ پہلے سوشلزم کا عفریت اور اب اسلام کا ہوا کھڑا
کیا۔ پہلا راستہ جو دریافت ہوا وہ پیٹ اور جیب کا راستہ تھا۔ اس جال کو
انہوں نے معاشی اصلاحات، حقوق انسانی اور آزاد‘ نسواں کے شیرے میں لپیٹ کر
اپنے ایجنٹوں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، این جی اوز، اور میڈیا کے ذریعہ اس
طرح اقوام عالم پر پھینکنا شروع کیا جیسے جانوروں کے شکاری جانوروں کو قابو
کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بعض رحم دلانہ اور بعض ظالمانہ
نتائج دنیا کے لئے جیسے بھی رہے ہوں، ان کے لئے خوش آئند اور مسحور کن تھے۔
سب سے بڑا حریف سرخ ریچھ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ دوسرا جو تھا تو حلیف مگر حریف
بننے کی صلاحیت رکھتا تھا، سمجھ دار نکلا۔ اس لئے جب پاؤنڈ اسٹرلنگ کی قیمت
گرتے گرتے امریکن ڈالر کے قریب پہنچ گئی، معاشی حالت انتہائی خطرے کے نشان
کو چھونے لگی، آئی آر اے (آٹرش ریپبلکن آرمی) کا کانٹا حلق میں اٹک گیا،
ٹریڈ یونینوں کی ہڑتالوں نے بدحال کردیا تو دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے
والی سود خور قوم کے سامنے جاکر گھٹنوں کے بل ہوا اور بولا ”جناب آپ کی
خدمت میں حاضر ہوں“ اس طرح وہ اپنی رہی سہی عزت تو بیچ گیا مگر عوض میں
سارے یورپ کو یونین کی شکل میں ان کے قدموں میں ڈالا اور مسلم ممالک کے
حکمران جو اپنی عیاشیوں کی وجہ سے اپنی نسلوں تک کو گروی رکھ چکے ہیں،
انہیں تو جب حکم ملتا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ تو کھڑے ہوجاتے ہیں اور حکم ملتا
ہے کہ بیٹھ جاؤ تو بیٹھ جاتے ہیں کہ کہیں ان سے حکمرانی نہ چھن جائے یا ان
کا حشر بھی شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو یا جنرل ضیاء الحق جیساہ نہ
ہوجائے۔ نہ کوئی ایٹم بم پھٹا نہ کوئی کیمیکل بم، نہ کارپٹ بمباری کی ضرورت
محسوس ہوئی، نہ کلسٹر بمباری کی اور دنیا کا ایک بڑا حصہ بالواسطہ یا
بلاواسطہ ان کے پاؤں تلے آگیا۔ اگر قدم ذرا سا بھی غلط پڑجاتا تو وہ تباہی
پھیلتی کہ جس کا تصور بھی محال ہے اور جس کا خطرہ ابھی تک منڈلا رہا ہے مگر
وہ بے حس قوم پوری انسانیت کی تباہی کا خطرہ تو مول لینے کو تیار ہے لیکن
اپنی فطری خواہش بدلنے کو تیار نہیں۔
دوسرا راستہ پروپیگنڈہ مہم کی ایجاد تھی۔ کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این)
کے وجود میں آنے کے بعد میڈیا پر ان کی گرفت مزید مستحکم ہوچکی تھی، خلیج
ممالک میں تو اس نے قریباً وہی پوزیشن بنالی تھی جو بریٹش براڈ کاسٹنگ
کمپنی (بی بی سی) کو مشرقی ممالک میں حاصل تھی۔ اس وقت ایران اور عراق دو
بدمست ہاتھیوں کی لڑائی کی طرح جنگ سے نڈھال ہانپ رہے تھے۔ بیک گراؤنڈ میں
میڈیا عراق کے جوہری وکیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق ابھی تک مسلسل
دھن بجانے میں مصروف تھا۔ جس سے ساری دنیا فکرمند ہور ہی تھی۔ مگر گلف
ممالک کے عوام کے لئے یہ کوئی تشویشناک بات نہ تھی، کیونکہ وہ عراق کو اپنے
لئے خطرہ نہیں سمجھتے تھے۔ اچانک ایک صبح اس خبر نے ساری دنیا کو عموماً
اور عربوں کو خصوصاً ہلاکر رکھ دیا کہ عراقی افواج نے کویت پر قبضہ کرلیا
ہے اور وہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ یہ خبر ساری دنیا میں تیز میوزک کی
طرح ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ پھر خبر پھیلی کہ عراقی افواج سعودی عرب کے
تیل سے مالامال مشرقی صوبے میں داخل ہونے والی ہیں۔ اب تو حالت یہ تھی کہ
خطرے کے سائرن بج رہے ہیں، میڈیا پر سعودی عوام کو خبردار کیا جارہا ہے کہ
سائرن کی آواز سنتے ہی گیس ماسک چڑھالیں۔ گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کی
جھریاں بند کردیں تاکہ گیس اندر داخل نہ ہو جائے، کیونکہ عراق کیمیکل بم
استعمال کرسکتا ہے۔ عوام ہر وقت ٹی وی پر سی این این دیکھتی اور لرزتی رہتی
جو گویا آنکھوں دیکھا حال نشر کررہا ہے۔ عراقی صدر صدام حسین سے ہر چہرہ پر
خوف ونفرت عیاں تھی۔ اس خوف ونفرت کے انتہائی جذبات کے زیر اثر اس سے پہلے
کہ آرگنائیزشن آف دی اسلامک کانفرنس (او آئی سی)، عرب لیگ اور گلف کوآپریشن
کونسل (جی سی سی) مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں اور کوئی حل
نکالیں، عراق تہہ وبالا کردیا گیا ۔ انسانیت سسکتی رہ گئی اور شیطانیت
ناچنے لگی۔ ہر قسم کا جدید اسلحہ اور پیٹریاٹ سمیت جدید ڈیفنس سسٹم تیل کی
قیمت پر آزمائے گئے۔ لیکن عراق کی طرف سے نہ کوئی ایٹم بم پھٹا نہ کوئی
کیمیکل بم، نہ کوئی گیس پھیلی نہ کوئی قیامت ٹوٹی بس دو چار بلاسٹک میزائل
ہی پھٹے اور میڈیا پر پیش کئے جاسکے۔ جنگ کے اخراجات مع سود کے جن ممالک پر
ڈالے گئے ان کی معاشی حالت کی بنیادیں تک ہل گئیں۔ صدام حسین کا سحر ٹوٹ
گیا، دنیا پر حقیقت منکشف ہوگئی اور کویت آزاد ہوگیا۔ لیکن مدد کے نام پر
حاضر ہونے والی افواج تیل سے مالا مال خطے میں پنجے گاڑے بیٹھی ہے۔ بعد میں
یہ بھی خبریں آئیں کہ صدام نے کسی کی تھپکی پر یہ حماقت کی تھی۔ بلکہ کہنے
والوں نے تو اسے امریکن ایجنٹ تک کہا۔ بہرحال معلوم ونا معلوم وجوہ سے اسے
کچھ عرصہ اور زندہ در گور رکھا گیا پھر ضروری قانونی تقاضے پورے کئے بغیر
اسے بے شمار رازوں اور معموں کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ اب حقیقت چاہے جتنی
بھی پروپیگنڈے کے برعکس ثابت ہوجائے، مقصد تو بہرحال پورا ہو ہی چکا۔
اس جنگ کے اثرات ساری دنیا پر پڑے مگر سب سے کم نقصان اسرائیل کا ہوا۔ ابھی
اس سانحہ کے اثرات باقی تھے کہ دنیا نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۶ء کو ٹی وی پر ہولناک
منظر دیکھا۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے نیویارک جیسے بڑے شہر میں دو
عظیم الشان اور بلند تجارتی جڑواں عمارتوں ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے چند لمحات کے
فرق سے دو جہاز آ ٹکرائے اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں عمارتیں زمین بوس
ہوگئیں۔ دنیا کا ہر انسان خوف وغم سے پھٹی آنکھوں اور ماؤف ذہنوں کے ساتھ
اس عظیم سانحہ کی فلم کئی دن تک دیکھتا رہا جو میڈیا پر مسلسل نشر ہور ہی
تھی۔ بالکل ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ دونوں جہاز کسی اور سیارے سے
آئے ہوں۔ جنہوں نے امریکہ جیسے ملک کے سارے جدید رڈار سسٹم جام کردیئے ہوں،
کنٹرول ٹاورز کے ساتھ ساتھ ائیرپورٹ کی پوری سیکورٹی کی ساری صلاحتیں سلب
کرلی ہوں اور اطمینان سے اپنا مشن پورا کر گئے ہوں۔ اس انسانیت سوز فعل پر
ساری دنیا میں آباد سب قوموں کے افراد اپنے پیاروں کے مرنے کے غم میں نڈھال
تھے، علاوہ عالمی دہشت گرد یہود کے۔ چار ہزار کے قریب یہودی اپنا تہوار
منانے کے لئے اس دن ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دفاتر سے چھٹی پر تھے۔ کیا اس سانحہ
کے لئے اس دن کا انتخاب محض ایک اتفاق تھا؟ اس سوال کا جواب دنیا کو شائد
ہی مل سکے۔ جتنا بڑا سانحہ تھا، رد عمل تو اتنا ہی بڑا ہونا تھا۔ اصل
کاریگری یہ تھی کہ اس زخمی ہاتھی کے رخ کو کس طرف موڑا جائے۔ صحیح رخ کی
تفتیش میں تو وقت لگتا اور اتنے میں امریکیوں سمیت ساری دنیا سحر کی کیفیت
سے نکل سکتی تھی جس سے اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اس لئے انتہائی سرعت سے
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے عالمی اتحاد قائم ہوا اور پاکستان بھی اس میں
شامل ہوا۔ دہشت گردوں کا تو کوئی دین وایمان نہیں ہوتا اور بہت سے اسلامی
ممالک بھی دہشت گردی کا شکار ہیں مگر پھر اس کا رخ اور ساری توپوں کے دہانے
میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی طرف پھیر دیئے گئے۔ بہت سارے بے گناہ مسلمانوں
کی بھی پکڑ دھکڑ کر گوانتاناموبے جیسے ٹارچر سیلوں میں پہنچا دیا گیا۔ جن
کی حقیقت اور تفصیلات اب سامنے آرہی ہیں۔ ان کے بیان دنیا کے سامنے پیش کئے
جانے لگے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ سابق صدر بش کو کچھ دنوں کے لئے
گوانتاناموبے جیسے ٹارچر سیلوں میں پہنچا دیا جائے تو وہ اپنا تعلق نازی
تحریک سے ہونا قبول کر لیں گے۔ آخر ان کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات
کیوں نہیں چلائے جارہے؟ پہلے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ، پھر صلیبی جنگ اور
اب طالبانائزیشن کے خلاف جنگ قرار دیا جارہا ہے۔ عراق اور پھر افغانستان پر
قبضہ کیا گیا اور اب پاکستان، ایران اور شام کو بھی آنکھیں دکھائی جارہی
ہیں۔ یہاں تک کے امریکی صدر بارک اوباما نے انتخاب کے وقت اپنی خارجہ
پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے صاف کہہ دیا تھا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ
صرف بغداد پر ہی نہیں بلکہ قندھار، کراچی، ٹوکیو، بیجنگ، برلن اور لندن پر
بھی نظر رکھیں گے۔ اس پالیسی بیان سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ جنگ
ان علاقوں میں بھی لڑی جاسکتی ہے۔ وہاں بھی اسامہ اور القاعدہ کی تلاش شروع
ہوسکتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے تل ابیب اور نئی دہلی کا کوئی ذکر نہیں
کیا؟ جو فساد کی اصل جڑ ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ نہ یہ دہشت
گردی کی جنگ ہے نا صلیبی جنگ بلکہ یہ اسرائیل کی اپنی جنگ ہے جو مسلمانوں
اور عیسائیوں کی قیمت پر لڑی جارہی ہے۔ کیونکہ نقصان ان ہی دونوں کا ہورہا
ہے اور گیم پلانر دور بیٹھے بغیر کسی نقصان کے تماشہ دیکھ رہے ہیں اور لطف
اندوز ہو رہے ہیں۔ پانچ سال کی اس طویل جنگ میں امریکہ اب تک ۸۵۰ ارب ڈالر
خرچ کر بیٹھا ہے جس سے یقیناً کرہٴ ارض پر انسانیت کا مستقبل تابناک بنایا
جاسکتا تھا۔ بے گھروں کو گھر میسر ہوسکتے تھے۔ لیکن اس کے برعکس کیا حاصل
کیا گیا؟ لاکھوں بے گناہ انسان مارے گئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ہوگئیں،
لاکھوں بچے یتیم ہوچکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ یتیم بچے بڑے
ہوکر کیا بنیں گے؟
ہمیں پروفیسر جوڈ کے فلسفے سے نکلنا ہوگا دنیا کی ہر قوم کو خوف ونفرت کے
جذبات سے نکالنا ہوگا اور رحم، فیاضی اور محبت کے جذبات ابھارنا ہو گا۔
ورنہ دنیا پر اقتدار کی ہوس دنیا میں انسانیت کو اس طرح تباہ کردے گی کہ
پھر نہ کوئی ظالم بچے گا نہ مظلوم اور مستقبل کا مؤرخ اکیسویں صدی کے انسان
کو مادی طورپر انتہائی ترقی یافتہ تسلیم کرنے کے باوجود جاہل مطلق قرار دے
گا کہ جس نے ایک مٹھی بھر حرص وہوس کی ماری قوم کی خاطر ساری انسانیت کو
تباہ کرڈالا۔ انہوں نے عظیم سائنسدان، انتہائی تربیت یافتہ فوجی، بڑے دولت
مند تاجر تو پیدا کئے مگر انسان نہ پیدا کرسکے۔ |