سچ

سچ تین مرحلوں سے گذرتا ہے ، پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں اس سچائی کو یوں تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی ْ

پچیس جولائی کے عام انتخابات کے بعد جب ٹی وی پر غیر رسمی غیر حتمی نتائج دکھائے جا رہے تھے تو حلقہ این اے ۵۷ سے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور نون لیگ کے امیدوار جناب شاہد خاقان عباسی صاحب جیت چکے تھے اور یہ نتیجہ پی ٹی وی کی سکرین پر دکھا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اقلیت کو معلوم ہے اور اکثریت بھی زیادہ بے خبر نہیں ہے۔تین ماہ میں بہت سا پانی بہہ گیا ہے، زمین بطور حقیقت سامنے ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی کی مقبولیت کی حقیقت این اے ۱۲۴ کے نتیجے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ تحمل مزاج، بردبار ، پاکستان کے بیٹے نے اپنے حلقے کا نتیجہ بدل دیے جانے کے واقعے کو ہرز جان بنایا نہ کوئی شکوہ زبان پر لائے البتہ لاہور ۱۴ اکتوبر کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دینے اکٹھے ہوئے حلقے کے لوگوں سے خطاب کے دوران انھوں نے بردباری سے لیکن اہم واقعہ سنایا کہ انھوں نے ۴۰ سے زیادہ پولنگ کے مراکز کے دورے کے دوران کسی ایک پولنگ کے مرکز پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزد پریذاڈنگ افسر کومرکز کا انچارچ نہیں پایا ۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے چیرمین کے سامنے ایک سنجیدہ سوال رکھا ہے۔ یہ سوال پاکستان کے عوام کے دل کی آواز ہے۔ البتہ توجہ ان کے بردبار لہجے اور الفاظ کے چناؤ کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے۔

یہ ثاثر دیا جاتا ہے کہ نون لیگ مزاحمت کی سیاست کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی اس کا جواب بھی لاہور کے حلقہ این اے ۱۳۱ کے ووٹروں نے دے دیا ہے کہ جب خواجہ سعد رفیق نے اپنے پولنگ ایجنٹوں کے ذریعے نتائج حاصل کر لینے کے بعد اپنی جیت کا اعلان کر دیا تو ریٹرنگ آفیسر نے ان کے نتائج روک لیے اور خواجہ سعد رفیق کے بیان کو بتنگڑ بنانا چاہا تو ووٹر آر او کے دفتر پہنچ گئے اور نتیجہ لے کر ہی ٹلے اور ٹی وی کے سٹوڈیوز میں براجمان نام نہاد اینکروں کی قینچی کی طرح چلتی زبانیں بند ہو گئیں۔

حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی اپنی آپ بیتی کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ وہ سیاسی مخالف کی ٹانگ پکڑ کر اس کا گھٹنا نہیں توڑیں گے۔ اس مثبت تبدیلی کا مظاہرہ اس دن دیکھنے میں آیا جس دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک اندھی گولی نے جمہوریت کی اس شمع کو بجھا دیاتو جیالوں نے میاں نواز شریف کے کندھے سر رکھ کر گریہ کر کے اپنادکھ ہلکا کیا تھا۔اسی سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف صاحبان کے دور میں کسی سیاسی مخالف پر مقدمہ نہیں بنا۔

میاں نواز شریف صاحب کی حکومت بننے کے ایک سال کے اندر ہی لندن پلان پر عمل کر کے اسلام آباد کا معاصرہ کر لیا گیا۔ریاست کی اہم عمارات اور تنصیبات پر قبضہ کر کے قبریں بھی کھود لی گئیں جن میں وزیر اعظم سمیت سیاسی مخالفین کو دفنانا مقصود تھا۔ ریاست کی طاقت کی مظہر پولیس کے ایک لائق اور با کردار نوجوان افسر کو دارلحکومت کی شاہراہ دستور پر پھینٹا لگا دیا گیا۔ مگر میاں نواز شریف صاحب نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ خود ان کی ذات پر ایسی دھول اڑاہی گئی کی ناظرین کے مناظر دھندلا گئے۔ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے لوگوں کو سمجھانے کی مخلصانہ کوشش کی کہ ستر سالہ عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار یہی شخص ہے۔

شدید دباؤ کے باوجو دمیاں صاحب نے تحمل اور بردباری سے پارٹی اور کارکنوں کو سمجھایا کہ ملک اور عوام کی خوشحالی بہتر معیشت میں پوشیدہ ہے۔اور ہمارا جارحانہ رویہ معاشی ترقی کی راہ کو مسدود کر دے گا۔جس حکمت عملی کو اپنا کر ہم نے ملک میں انفرا سٹرکچر کا جال بچھایا ہے اور پاکستان کے لیے جو دن رات کام کیا ہے وہ خواب بکھر جائے گا۔ان کو یقین ہے بے بنیاد، جھوٹے اور گھٹیا الزام اپنی موت آپ مر جائیں گے۔پاکستان کے عوام اپنے برے اور بھلے کی بہتر تمیز کر سکتے ہیں۔دوسری طرف ان کے مخالفین نے اس سوچ کو نون لیگ کی کمزوری جان کر اقتدار کی کرسی چھین لی۔

نئی حکومت کو آئے دو ماہ ہو رہے ہیں،سو دن کا ابتدائی عرصہ پالیسیوں کے بناو سنگھار اور افسران کی تعیناتی ہی مین گذر جاتا ہے مگرتاثر تو یہ دیا گیا تھا کہ ۲۰۰ قابل افراد جیب میں ہیں، توقع یہ تھی بیرون ملک مقیم پاکستانی اس حکومت کے آتے ہی ڈالر روانہ کر دیں گے،بتایا جاتا تھا ہر تعیناتی قابلیت کے بل بوتے پر ہو گی۔توقع یہ تھی کہ کفائت شعاری اپنائی جائے گی۔سنجیدہ دوست کہتے تھے ۲۲ سال کی تیاری ملک کی قسمت بدل کر رکھ دے گی۔بلند بانگ دعووں ۔ زبانی لن ترانیوں اور بے سرو پا اقدامات کے سوا مگر دو مہینوں میں عوام کو کچھ نظر نہیں آیا۔ترقی کا عمل رک چکا ہے۔بقول وزیر خزانہ ان کو ۱۷ ارب ڈالر خزانے میں ملے تھے اس کے باوجود ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملکوں ملکوں مفلسی کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا۔پی ٹی آئی کا ورکر ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چکا ہے۔ اس کو ادراک ہو گیا ہے کہ یہ صرف گرجنے والے بادل ہیں۔اس کا اندازہ ضمنی انتخاب کے نتائج کی صورت میں ہو چکا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ریوڑیاں بٹ رہی ہیں، سیاسی مخالفین پر تبرہ اونچی اواز میں بھیجا جاتا ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں سے ماہرین کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وہ لوگ جو ذاتی سرمائے کے بل بوتے پر ان شعبوں مین کچھ کر رہے تھے ان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔پہلے سو دن سورج نکلنے سے پہلے سحر کی طرح ہوتے ہیں مگر لوگ اس سحر کو صادق ماننے پر تیا ر نہیں کہ سحر صادق کے آثار ایسے نہیں ہوتے۔

لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام ہو گئے ہیں مگر خان صاحب کے مخلصین بتاتے ہیں ناکام نہیں ہوے وہ نا اہل ٹولے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کیا وزیر اعظم کو اس کا ادراک نہیں ہے؟

ہمیں یاد ہے ایسے سوال محترمہ شہید اور میاں صاحب کے بارے میں بھی پوچھے جاتے تھے۔ مگر ان کے مابین مفاہمت کی دستاویز ان کے ادراک کا اظہار تھا ۔ ہماری دلی خواہش ہے خان صاحب کامیاب ہوں۔ اپوزیشن نے اسمبلیوں میں حلف اٹھا کر اپنے اخلاص کر اظہار کر دیا ہے۔عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے ۔ سیاسی پارٹیاں ملک کا ہاتھ ہوتی ہیں ، ہاتھ کو دھونا یا کاٹنا ہمیشہ حکومتی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایک عاقل نے لکھا ہے ْ سچ تین مرحلوں سے گذرتا ہے ، پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں اس سچائی کو یوں تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی ْ ًمیاں نواز شریف ان تینوں مرحلوں سے گذر چکے البتہ عوام عمران خان صاحب کے سچ کے پہلے مرحلے کے بارے میں ہی تذبذب کا شکار ہیں
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149517 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.