حکومت، قرض، کشکول، خودکشی اور بے بسی ۔ تبدیلی کے پیامبر !

سو دن میں یہ اور وہ کرنے کے دعوے اب حکومت میں آنے کے بعد کیونکر تبدیل ہوگئے۔ اچھے کام کے وعدے کہ یہ کردیں گے وہ کردیں گے اور درحقیقت عوام کی زندگی اجیرن کرنے یعنی قیمتیں بڑھانے کے فوری اقدامات کہ ڈالر ١٠٨ سے ١٣٥، سی این جی ٨١ سے ١٠٤ اور گیس کی قیمتوں میں ١٠ تا ١٤٠ فیصد اضافے۔ کیا یہ اضافے جب سابقہ حکومتیں کرتی تھیں تو سابقہ حکمرانوں کی جیبوں میں پیسے جاتے تھے اور اب ١٠٠ دن کی سرکار نے جو قیمتیں بڑھائی اب کس کی جیب میں پیسے جارہے ہیںِ

کیا قیمتوں میں حالیہ اور متوقع اضافوں کے اثرات صرف خبروں کے طور پر ہوں گے یا ان کے بھیانک اثرات عوام کو اگلے چند ہفتوں، مہینوں میں بھگتنے ہیں۔

آج مورخہ ١٦ اکتوبر ٢٠١٨ کو نظر سے وفاقی وزیر خزانہ جناب اسد عمر صاحب کی بے بسی بھری پالیسی سامنے آئی جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے ڈالر درکار ہوتے ہیں، ڈالر چھاپ نہیں سکتے اسلئے بار بار دنیا کے سامنے کشکول لے کر جانا پڑتا ہے اور میں بھی وہی کررہا ہوں۔

اب سمجھ میں آئی تبدیلی؟ کیا تبدیلی اسی کا نام ہے جو موصوف اور ان کی جماعت کہتی رہی کہ پرانے حکمران کشکول لے کر پھرتے ہیں اور بھیک مانگ مانگ کر ملک چلاتے اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں، اب موصوف کا بھی وہی کرنے کا عزم و استدلال کیا بات ثابت کر رہا ہے کیا یہ ثابت نہیں ہورہا کہ جو پرانے حکمران غلط کرتے تھے اور تبدیلی بریگیڈ ان پرانوں کو لعن طعن کرتے تھے آج فرما رہے ہیں کہ ہم بھی وہی کررہے ہیں ! حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔

یاد رہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان نیازی صاحب جو کھلے عام جلسوں میں فرماتے رہے کہ “آپ کا کپتان وزیراعظم ہو اور وہ قرضوں کے لئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے ! میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس قرضے کے لئے نہیں جائوں گا !!!!

ویسے حکومت میں آنے کی بے چینیاں اور جلد بازیاں بظاہر یہی ثابت کر رہی ہیں کہ تبدیلی بریگیڈ نے حکومت کے تجربے اور وژن نہ ہونے کے سبب جس طرح حکومت حاصل کرنے کے لئے ہر ہر وہ کام کردکھایا کہ جس کو کرنا حکومت میں آنے اور ملک کو مسائل کے صحرا سے نکالنے کے لئے ممکن تو تھا مگر مکمل پلاننگ اور بالکل واضع وژن کے ساتھ، مگر افسوس کے حکومت کے حصول کے لئے جس طرح ہر جائز ناجائز زرائع استعمال کئے گئے (روحانی اور لاٹھی والے زرائع کی بات نہیں کی جارہی)۔

حکومت چلانے اور مسائل کے حل کے لئے جو ضروری اقدامات کئے جانے ضروری ہیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ٥٠-٥٥ دن کے حکومتی دور میں اس کا کوئی شائبہ نظر نہیں آرہا، اور جو نظر آرہا ہے وہ صرف وہی الزامات نظر آرہے ہیں کہ جو ہر آنے والی حکومت پرانی جانے والی حکومت پر لگاتی ہے، اب ہم اس کو تبدیلی مانیں تو ایسا کس طرح ممکن ہے۔ ؟

سابقہ حکومت یعنی ٥-٦ ماہ پہلے ڈالر کے ریٹ قریب ١٠٨ تھے آج ١٣٥ ہیں، سی این جی ٨١ روپے تھا آج ١٠٤ (ایک سو چار) روپے ہے، اسی طرح گیس کے نرخ میں ١٠ سے ١٤٠ فیصد اضافہ ہے کہ جسکے بعد قیمت جلد نظر آئے گی جب گیس کا بڑھا ہوا بل سامنے آئے گا۔

یہ اضافے ہی ہوش ربا ہیں مگر ہوشیار خبردار کہ یہ نرخ ابھی آنے والے دنوں میں اس سے بھی زیادہ بڑھ جائیں گے ایسا نہ ہوا تو میں یقینا شاباش دوں گا موجودہ حکومت کو اور اگر قیمتیں مزید بڑھ گئیں تو یہ کالم ثبوت کے طور پر دکھاسکوں گا کہ ملکی معاشی معاملات میں ماہرین کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں یہ حقیر فقیر بندہ ناچیز جو چیزیں سمجھ اور محسوس کررہا ہے وہ معاشی ماہرین اور جادوگروں کی نگاہوں سے کس طرح دور رہا۔

حالیہ اضافوں کے بعد قیمتوں میں جو ہولناک اور خوفناک تیزی آنے والی ہے اور عام پاکستانی کی زندگی جس طرح مزید ازیت ناک اور تکلیف دہ ہونے جارہی ہے اس کا تصور ہی خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہے، مڈل کلاس اور ہائر مڈل کلاس تو کسی نہ کسی طرح قیمتوں میں سونامی کو سہہ سکتی ہیں مگر لوئر مڈل کلاس اور سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے ٨ کروڑ پاکستانیوں کی متوقع مشکلات اور ناقابل برداشت اذیت کو تصور کرنا ہم جیسے عام پاکستانی کے لئے سوہان روح ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ ماہر معاشیات اور حکومتی عناصر کس طرح غریب عوام کو ایسے عفریتوں کے سامنے ڈالنے جارہے ہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ تبدیلی کے دعوے کرنے اور ملک و قوم کی تقدیر بدلنے والے عوام کے معاشی معاملات اور ان کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنانے کے اقدامات کرنے کے بجائے سابقہ حکومتوں کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں اور یہ رونا گانا بند کردیں کہ ٦٠ سال کی گند ١٠٠ دنوں، یا دو چار سال میں کیسے کم کریں ؟ یہ سب گند موجودہ حکمرانوں کے علم میں تھی اور انہیں بخوبی معلوم تھا کہ ملک کے معاشی اور دیگر معاملات کی کیا حالت ہے اور ان سے کیسے عہدہ براہ ہونا ہے، ناکہ پہلے تو حکومت میں آنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز کوششیں اور اب حکومت میں آنے کے بعد بے بسی اور معصومیت کی تصویر بننا !!!

اللہ ہم سب کو ہدایت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے اور ملک و قوم کو ترقی، خوشحالی اور علم و عمل کے میدان کا غازی بنائے ۔
 

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493738 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.