جیسے جیسے دُنیا ترقی کرتی جا رہی ہے ویسے ہی انسان
کے رابطوں کے زرائع بھی جدید ہوتے جا رہے ہیں ۔سماجی رابطوں کے مختلف ویب
سائٹس کا پوری دُنیا پر ایک جال بچا ہوا ہے ۔ نت نئے فیچرز کے تحت لوگ بھی
اس میں مگن رہتے ہیں ،ویسے تو بہت سے سوشل میڈیا کے زرائع ہیں لیکن ہم بات
کریں گے فیس بُک،ٹویٹر،یوٹیوب اور انسٹا گرام کی تو معاشرے کا ہر فرد اس کے
استعمال میں مصروف ہے۔ جیسے جیسے سوشل میڈیا عام ہوتا گیا ویسے ہی اس میں
جعلی اکاؤنس کا رُجحان بھی عام ہوتا گیا ۔سب سے پہلے ہم بات کر تے ہیں
نوجوانوں کی سب سے فیورٹ بُک یعنی فیس بُک کی ۔فیس بُک 2004 میں لانچ ہوا ،
دیکتے ہی دیکتے اس نے مقبولیت کی مثال قائم کردی اور فیس بُک کے بانی مارک
زکربرگ کا شمار دُنیا کے امیر ترین اشخاص میں ہونے لگا ۔ اس وقت دُنیا میں
اسکے اکٹیو صارفین کی تعداد 2.23 بلین ہے، پاکستان میں اس کے استعمال کر نے
والوں کی تعداد پینتیس (35) ملین ہیں ۔گزشتہ دنوں فیس بُک پرصارفین کا ڈیٹا
چوری اور فروخت کرنے کا الزام لگاجس کا اعتراف مارک زکربرگ نے کورٹ میں بھی
کیا، اس کے علاوہ فیس بُک پر لا تعدادجعلی اکاؤنٹس موجود ہیں ، اسی وجہ سے
اب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فیس بُک اب غیر معیاری ہو چکا ہے جعلی اکاؤنٹس
کی تعداد حد سے تجاوز کر گئی ہے، recode کی15 مئی کے رپورٹ کے مطابق پچھلے
سال کے آخری تین مہینے اور اس سال کے شروع کے تین مہینوں میں فیس بُک کی
جانب سے 1.3 بلین فیک اکاؤنٹس کو غیر فعال Disabled))کیاگیا ۔ فیک اکاوئنٹس
زیادہ تر مشہور شخصیات، شوبز کے لوگ ،اسپورٹس پرسنز کے ناموں پر ہوتے ہیں
حالانکہ مشہور شخصیات کے اکاؤٹس ویریفائڈ ہوتے ہیں ۔یہ ایک نیلے رنگ پر
سُفید ٹک مارک ہوتا ہے جو نام کے فورًا بعد ہوتا ہے اس کے علاوہ دوسری جگہ
نہیں ہوتا ۔اس کے لیئے فیس سے رابطہ کر کے ایک خاص پراسس کے بعد یہ نشان
حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسی نام پر اور اکاؤٹس بھی ہوتے ہیں ،
مثلاً اگر ہم علی ظفر کا نام سرچ بار میں لکھیں تو علی ظفر کے ویریفائڈ
اکاؤنٹ سب سے پہلے ہو گا جس پر نیلہ ٹک مارک ہوگا لیکن اس کے علاوہ علی ظفر
کے نام اور تصویر کے ساتھ بیس پچیس اکاؤنٹس اور بھی ملیں گے۔ عام لوگوں کے
نام پر بھی کئی کئی اکاؤنٹس ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک خاص طبقہ اب فیس
بُک پر اعتماد نہیں کرتا ۔ دوسری جانب ہمارے ملک میں بڑی تعداد ہے جو اس کا
استعمال کر رہی ہے، اب ایسا وقت آچکا ہے کہ بچے بچے نے فیس بُک کی آئی ڈی
بنائی ہے یہاں تک کے گاؤں دیہاتوں کے لوگ بھی بکثرت اس کا استعمال کر رہے
ہیں ۔
اب بات کرتے ہیں ٹویٹر کی، ٹویٹر 2006 میں لانچ ہوا ،دُنیا بھر میں ٹویٹر
کیاکٹیو صارفین کی تعداد 335 ملین ہے۔ٹویٹر کی خاص بات یہ ہے کہ دُنیا بھر
کی اعلیـــ شخصیات،سیاستدان،انٹرٹینمنٹ کے سٹارز،اسپورٹس سٹارز اور بزنس
پرسنز بھی ٹویٹر پر موجود ہیں اور باقاعد ہ اکٹیو رہتے ہیں ۔ دُنیا کی
زیادہ تر خبریں ٹویٹر پر تیزی سے پیل جاتی ہیں اور ٹویٹر ٹرنڈز کو باقاعدہ
نیوز چینلز فالو کرتے ہیں ،سیاست دانوں کے ٹویٹس کو بھی اپنی نیوز کا حصہ
بنایا جاتا ہے، جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کو دُنیا میں دیکا جاتا ہے،
پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان ، اور آئی ایس پی آر کے ٹویٹ کو مختلف
چینلز اپنی نیوز میں شامل کرتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کے ٹویٹر پر
جعلی اکاؤنٹس بلکل نہیں ہیں ۔واشنگٹن پوشٹ کی 9جُلائی کی رپورٹ کے مطابق
ٹویٹر کی جانب سے 70ملین فیک اکاؤنٹس بند کیئے گئے۔جس سے ظاہر ہو تا ہے کہ
ٹویٹر پر بھی فیک اکاؤنٹس کا رجحان ہے۔
اگر انسٹا گرام کی بات کریں تو انسٹا گرام نے بھی کم وقت میں زیادہ مقبولیت
حاصل کی ہے، انسٹا گرام در اصل فیس بُک اور ٹویٹر کی طرح ہے، یہ ایک خاص
طرح کا فوٹو اور ویڈیو شیرنگ ایپ ہے ، جس میں فو ٹوز کو مختلف ڈیزائن اور
فلٹرز کی مدد سے خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ شوبز کے لوگ اور تفریحی مزاج کے
لوگ انسٹاگرام پر زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں ۔پاکستان میں اس کے صارفین کی
تعداد 5.2ملین ہیں۔ اگر انسٹا گرام کے صارفین کی بات کی جائے تو یہ ایک خاص
طبقہ یا پڑھا لکھا طبقہ کہہ لیں وہ اس کا استعمال کرتے ہیں ۔
اب آتے ہیں یوٹیوب پر ، یوٹیوب کا تمام تر دارومدار ویڈیوز پر ہے۔ اس میں
ہر طرح کی ویڈیو اپلوڈ ، شیئر اور دیکی جا سکتی ہے، یوٹیوب کا اکاؤنٹ دراصل
چینل کہلاتا ہے، یہ آپکا چینل ہو تا ہے جو کہ جی میل آئی ڈی سے منسلک ہوتا
ہے ۔چینل کی مدد سے ویڈیوز کو اپلوڈ کیا جاتا ہے اُسے نام دیا جاتا ہے اسکے
بعد تمام صارفین اس ویڈیو کو دیک سکتے ہیں ، اس پر کمنٹس کر سکتے
ہیں۔یوٹیوب کے زریعے پیسے کمائے جاتے ہیں ،باقاعدہ لوگ پرافیشن کے طور پر
یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں اور اچھی خاصی انکم حاصل ہو جاتی ہے۔ انکم کا
دارومدار ویوز (views)پر ہوتا ہے مطلب آپ کی ویڈیو کتنے لوگوں نے دیکھی ،جتنے
زیادہ ویوز ہونگے انکم بھی زیادہ ہوگی، اسکے علاوہ ویڈیوز پر اشتہار بھی
لگتے ہیں ، اشتہار کی مدد سے بھی انکم ہوتی ہے۔ اس وقت دُنیا میں یوٹیوب کے
صارفین کی تعداد 1.8بلین ہیں ، لیکن اسکی خاص بات یہ ہے کہ یوٹیوب کی ویڈیو
سوشل میڈیا کے کسی بھی پلٹ فارم پر شیئر کی جا سکتی ہے ،جس کی وجہ سے ویوز
میں اضافہ ہوتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ،کیا یوٹیوب میں فیک یا جعلی
لفظ کا عنصر پایا جاتا ہے؟جی ہاں ، پہلے اس میں دراصل لوگ ایک دوسرے کی
ویڈیوز چوری کر کے اُسے اپنے چینل پر ڈال دیتے تھے،لیکن اب جعل سازوں کے
لیئے یوٹیوب نے مشکلات پیدا کردی ہیں ۔اب اگر کوئی بھی کسی دوسرے کی ویڈیو
چُرا کر اپنے چینل پر اپلوڈ کریگا تو اُسے یوٹیوب کی جانب سے کاپی رائٹ
کلیم (copyright claim) موصول ہوگا ، یوٹیوب کا یہ سسٹم انتہائی مربوط ہے
جو نہ صرف ویڈیوز کی جانچ پڑتال کرتا ہے بلکہ کسی دوسرے چینل کی تصاویر،
میوزک یا ساؤنڈ کی بھی نشاندہی کر لیتا ہے ۔ کاپی رائٹ کے بعد ویڈیو انکم
حاصل نہیں کر سکتی۔
سوشل میڈیا میں فیک اکاؤنٹس اور جعل سازی عام ہو چکی ہے ،اس کے کئے مقاصد
ہو سکتے ہیں ، اگر یوٹیوب میں جعل سازی کی بات کی جائے تو یہاں مقصد کسی
دوسرے کی ویڈیو چُرا کر پیسہ کمانا ہے، فیس بُک کے فیک اکاؤنٹس کی بات کریں
تو سب سے پہلے ہیکرز یہ کام کرتے ہیں ،وہ جعلی اکاؤنٹ بنا کر فرنڈ رکوسٹ
بیجھتے ہیں اور ڈیٹا حاصل کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی شناخت ظا ہر کرنا نہیں
چاہتے ، کچھ لوگ دوسروں کو بدنام کرنے کی غرض سے یہ کرتے ہیں ، جیسے پچلے
دنوں پشاور کی ایک اداکارہ نے اپنی رشتہ دار کے نام سے اکاؤنٹ بناکر اُس کی
تصاویر شیئر کی تھی، جس کے بعد وہ گرفتار ہو گئی۔
سوشل میڈیا جو دراصل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہوتی ہیں ، یہ انسانی سہولت
کے لئے ہوتی ہے،اسکا صحیح استعمال ہماری زندگی میں آسانیاں اور سہولتیں
پیدا کرتی ہیں ۔ہر شے کا صحیح اور غلط استعمال ہوتا ہے، اب یہ ہم پر منحصر
ہے کہ ہم اس کا استعمال کس طرح کرتے ہیں ۔ |