سائنس کی تحقیقات ، کرشمات اور ہمارے خیالات

امریکی سپیش شپ کی خلا میں پلوٹو سیارے کے گرد موجودگی سائینس کی ایک اہم پیش رفت ہے اور بین الاقوامی دنیا میں اس پر بحث مباحثہ جاری ہے ساری دنیا میں میڈیا پر آپکو لوگ اس اہم پیش رفت پر بولتے اور پروگرامز کرتے نظر آئیں گے۔ اور اس سائینسی کامیابی کو انسانی فکر انسانی شعور کی کامیابی قرار دے رہیں ہیں۔ہم لوگوں نے خلائی سائینس کی اس اہم پیش رفت پر وہی کیا جو ہم برسوں سے کرتے آ رہے ہیں کچھ دیر کو میڈیا پر خبر چلی اور اس کے بعد پھر اپنی اپنی دنیا میں مست۔ذرا غور کیجیے کہ ہم لوگوں کا رویہ سائینس کے بارے میں کیا ہے اور ہم کتنی ریسرچ اور پیسہ سائینس پر خرچ کرتے ہیں ۔جدید دور میں سائینس میں ترقی کیے بغیر آپ ترقی کا تصور بھی نھیں کر سکتے ۔یہ سائنس ہی ہے جس نے ٹیکنالوجی سے لیکر ایجادات اور صحت سے لیکر تعلیم غرض زندگی کے ہر شعبے میں ایک انقلاب برپا کر دیا ۔اور آنے والے ہر لمحہ میں ہم پر اسی کی بدولت کائنات کے راز اور نت نئی ایجادات اور تحقیقات آشکار ہوتی رہتی ہیں ۔لیکن ہم لوگ آج بھی اس سے منہ موڑے بیٹھے ہیں کوئی نئی تحقیق یا ایجاد کے لیے کاوشیں کرنا تو دور کی بات ہم لوگ تو ہونے والی ایجادات اور ریسرچ کو بھی جھٹلانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔آپکو یاد ہو گا کہ لاؤڈ سپیکر اور ٹی وی جب آئے تھے تو انھیں ہم میں سے ہی موجود لوگوں نے حرام قرار دیا تھا اور آج انھیں حرام قرار دینے والے انھی ایجادات سے بھرپور مستفید ہو رہے ہیں کچھ یہی خیالات کیمرہ اور کمپیوٹر کے بارے میں بھی پائے جاتے تھے ۔ اسے منافقت نھیں تو اور کیا کہیں کہ استفادہ بھی جن چیزوں سے ہے وہ سائینس کی مرہون منت اور پھر سائینس کو نہ ماننا بھی۔اب جس ملک میں فزکس اور کیمسٹری پڑھانے والے اعلیٰ یونیورسٹیوں کے پروفیسرز حالات حاضرہ اور سیاست پر ماہر بنے ٹاک شوز میں نظر آتے ہوں وہاں جدید ساینسی علوم پر تحقیق ایک خواب ہی ہو سکتی ہے۔جہاں ہر وقت بحث و مباحث اس بات پر ہوں کہ کون کافر اور کون مسلمان ہے کون جنت میں جاے گا اور کون دوزخ میں وھاں جدید سائینس میں عدم دلچسپی ایک معمولی بات لگتی ہے۔اور جہاں سارا ذور روپیہ اور وقت دوسروں کی تحقیق کو اپنے فکری یا گزشتہ ادوار و افکار سے منسوب کرنے میں خرچ ہوتا ہو وہاں کے طالبعلم ملکی وے گلیکسی یا سٹیم سیل ریسرچ کے بارے میں کیا اور کتنا جانیں گے۔مشتاق احمد یوسفی نے بہت خوب کہا تھا کہ جتنا وقت اور پیسہ ہم اپنے بچوں کو دوسروں کی سائینس ایجادات اپنے نام کروانے اور اپنے گزشتہ سائینسدانوں کے نام رٹوانے میں لگواتے ہیں اگر اس سے تھوڑی سی محنت اور پیسہ جدید سائینس پڑھوانے پر لگائیں تو ترقی کر سکتے ہیں ۔ آپ خود سوچیے سوئی سے لیکر جدید ٹیکنالوجی ہم دوسروں کی بنائی ہوئی استعمال کرتے ہیں لیکن ان تمام ایجادات کو اپنا بنانے پر مصر نظر آتے ہیں ۔پولیو ویکسین کو حرام اور پاپولیشن کنٹرول کے یا جدید افزایش نسل کے طریقوں کو بھی حرام قرار دیتے نظر آتے ہیں اور پھر نتیجتا دنیا میں پولیو پھیلانے والا سب سے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں آبادی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے وساہل میں کمی کا سامنا کرتے ہیں دوران زچگی بچوں کی اموات کی شرح میں روز بروز اضافہ دیکھتے ہیں اور پھر اسے خدا کی رضا کھہ کر آرام سے مباشرت اور حوروں کے مساہل پر لاحاصل گفنگو میں کھو جاتے ہیں ۔حالانکہ خدا خود فرماتا ہے کہ علم حاصل کرو لیکن نہ جانے کیوں ہمیں علم کی تمام شاخوں اور بالخصوص ساہینس سے اتنی غیر دلچسپی کیوں ہے جس اسلحہ کو لے کر ہم دنیا کو مٹانے کی بات کرتے ہیں وی اسلحہ تک دوسروں کا بنایا ہوا ہوتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ ہم اس ڈینایل سے نکلنے کے لیے شعوری طور پر بالکل تیار نھیں کہ جدید علوم میں ساینس کی وہی اہمیت ہے جو انسانی جسم میں دماغ کی ہوتی ہے اور ساہینس کو اہمیت دیکر ہی ہم موجودہ دور میں آگے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی تک اس پر آمادہ ہی نھیں دکھای دیتے ہم تین عیدیں تو کر لیتے ہیں لیکن جدید آلات اور ناسا سے چاند کے بارے میں آگاہی لینے کو توہین سمجھتے ہیں پوری دنیا اس وقت کلوننگ کے زریعے وافر مقدار میں اجناس کی مختلف فصلیں تیار کرتی ہے لیکن ہم اسے کفر قرار دیتے ہیں البتہ خوشی خوشی باہر سے در آمد شدہ کلوننگ اجناس ہضم کر لیتے ہیں ۔سپیس یا خلای ساہینس تو دور کی بات ہم روز مرہ کی ایوری ڈے ساہینس کو اپنے بچوں تک منتقل بھی نھیں کر پاتے۔اعضا کی پیوند کاری میڈیکل ساہینس کا ایک کرشمہ ہے آج دل جگر گردوں اور آنکھوں سے لیکر دنیا میں تقریبا تمام اعضا کی پیوند کاری کی جاتی ہے اور قیمتی انسانی زندگیاں بچای اور سنواری جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا کرنا کفر خیال ہوتا ہے اگر کوی موت کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنا بھی چاہیے تو ہم اسے اپنے رویوں سے ایسا کرنا نھیں دیتے۔ ایسا کب تک چل سکتا ہے ہمیں اپنی سوچوں اور اپروچ میں بنیادی تبدیل کی اشد ضرورت ہے ۔ملک میں تجربہ گاہوں جدید ساہینسی ریسرچ سینڑرز کا بڑی تعداد میں قیام ناگزیر ہے ۔تعلیمی درسگاہوں میں جدید ساہینس کی تعلیم اور قابل اساتذہ وقت کی اشد ضرورت ہیں ۔

Muhammad Usman
About the Author: Muhammad Usman Read More Articles by Muhammad Usman: 3 Articles with 4148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.