ملک کی تعمیر کے موضوع پر مولانا رابع حسنی ندوی ، مولانا
جلال الدین عمری ، مولانا کلب صادق یا مولانا ارشد مدنی جو کہتے، اتفاق سے
وہی بات آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری بھیا جی جوشی نے ممبئی کے ساورکر
سمارک ہال میں منعقدہ بھارت وکاس پریشد کی ایک تقریب میں کہہ دیں۔ ان افکار
و خیالات سے اختلاف کی گنجائش بہت کم ہے۔ بھیا جی نے بڑی درمندی سے استفسار
کیا کہ ’’ انتخاب جیتنے کے بعد خدمت کا جذبہ کہاں غائب ہوجاتا ہے؟ ‘‘ ویسے
تو یہ سوال تمام ہی سیاسی جماعتوں سے کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ فی الحال
مرکز اور صوبے میں سنگھ پریوار کی بی جے پی کا اقتدار ہے اس لیے اس کا براہِ
راست اطلاق ہوتا ہے۔ بھیا جی سے توقع تھی کہ وہ اس کا جواب بھی دیں گے لیکن
انہوں نے ایک اور سوال کردیا جس میں جواب پوشیدہ ہے۔ آپ نے فرمایا ’’ کیا
اقتدار کا حصول ہی واحد مقصد تھا؟ ‘‘ دراصل یہ سوال نہیں بلکہ جواب ہے۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ عصرِ حاضر میں سیاستدانوں کا مقصد حیات صرف اور صرف
اقتدار کا حصول ہوتا ہے ۔ ان کو عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں
ہوتی۔
بھیا جی جس وقت ممبئی میں نصیحت فرما رہے تھے اس وقت پونہ شہر میں بی جے پی
رکن اسمبلی یوگیشور تلیکر اور ان کے بھائی چیتن کے خلاف فائبر آپٹکس سروس
مہیا کرنے والے ٹھیکدار کی جانب سے ۵۰ لاکھ رنگداری وصول کرنے کی شکایت درج
ہورہی تھی ۔ آر ٹی آئی کارکن رویندر برہاٹے کے مطابق یہ وصولی اگست سے
جاری ہے۔ رشوت دینے سے انکار پرتین مرتبہ وائر کاٹ دیئے گئے جس سے ای ویژن
نامی ادارے کو ۳ لاکھ کا نقصان ہوا۔ اس کے بعد جب رکن اسمبلی کے بھائی نے
فون کرکے دھمکی دینے والے کامٹھے کے ساتھ معاملات سلجھانے کا مشورہ دیا تھا
وہ فون ریکارڈ کرلیا گیا اور اسے ایف آئی آر کے ساتھ پولس کے حوالے کیا
گیا ۔ تلیکر نے ان الزامات کا انکار کیا کیونکہ جب ایم جے اکبر اپنا قصور
نہیں مان رہا تو یوگیشور کس کھیت کی مولی ہے؟ تلیکر جیسے سیاستدانوں کی اس
رشوت خوری بتاتی ہے کہ اقتدار کے حصول کا اصل مقصد کیا ہے؟ اب ایسے لوگوں
پر بھیا جی کی نصیحت کہ ’’سیاستدانوں کا خود سب کچھ مان لینا قابل تشویش ہے‘‘
کیا اثر کرسکتی ہے۔ یہ لوگ تو بھیا جی اور بھاگوت جی کو بھی کچھ نہیں
سمجھتے ۔
بھیا جی نے اپنی تقریر میں خبردار کیا کہ’’ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا
کی تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار کے ذریعہ سماجی تبدیلی نہیں آتی ۔ سماج میں
تبدیلی سماجی نظام سے ہی آتی ہے‘‘ ۔ سنگھ کو پہلے یہ خوش فہمی تھی کہ
اقتدار میں آجانے کے بعد وہ اپنی تہذیب و ثقافت ملک کے سارے لوگوں پر تھوپ
دیں گے لیکن مودی سرکار کے بعد یہ خیال بدل گیا ۔ انہوں نے صاف گوئی سے کام
لیتے ہوئے حکمراں کے لیے راجہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ’’ہر کوئی
جانتا ہے بادشاہ کون ہے۔ جمہوریت میں اقتدار کا حامل سربراہ راجہ ہوتا ہے‘‘۔
مودی جی نے اپنے طریقۂ کار یہ ثابت کردیا ہے کہ انتخاب کے ذریعہ اقتدار
میں آنے کے باوجود وہ ملک کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ عام آدمی تو کجا وہ مارگ
درشک منڈل تک کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ متعلقہ شعبے کے وزیر سے مشورہ کیے
بغیر اپنے دفتر سے من مانے احکامات جاری فرما دیتے ہیں۔
بھیاجی راجہ کی ذمہ داریاں ان الفاظ میں بیان کیں کہ’’بادشاہ کا کام عوام
کو خوش رکھنا ہے۔ان کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جب بھی کوئی کشمکش یا تنازع
ہوتو اس کو حل کرنے کے لیےعدالتی نظام کا اہتمام کرنا ہے۔ یہ راجہ کی ذمہ
داری ہے کہ وہ دیکھے کس طرح ہمسایہ ممالک سے تعلقات استوار کی جائیں۔
بادشاہ کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ حکمت عملی وضع کرے‘‘ ۔ مودی جی کو تو
انتخابات سے فرصت ہی نہیں ملتی جو ان ذمہ داریوں کو ادا کریں ۔ درمیان میں
تھوڑا بہت وقفہ ملتا ہے تو غیر ملکی دورے پر جاکر آرام فرما لیتے ہیں۔
بھیا جی نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ ’’ ہزاروں سال کی تاریخ میں
بادشاہوں نے تبدیلی میں دخل اندازی نہیں کی اور (سماجی) نظام نے راجہ کے
کام میں مداخلت نہیں کی بلکہ باہمی اعتماد نے زندگی کو خوشگوار رکھا‘‘ ۔ اس
بیان کے ذریعہ بھیا جی نے مسلم حکمرانوں نے ہندووں پر مظالم کی تردید کردی
۔ مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ بھی مسلمانوں کے نجی معاملات میں دخل اندازی
سے گریز کرتے ہوئے راج دھرم کی پیروی کرے۔ فسطائی عناصر مسلمانوں کو بدنام
کرنے کے لیے بلاوجہ بابر اوراورنگ زیب پر من گھڑت الزامات لگانے سے باز
آجائیں ۔
مذہبی معاملات میں عدالت کی بڑھتی ہوئی دراندازی پر بھیا جی نے فکرمندی
جتاتے ہوئے کہا کہ ’’ مذہب کے معاملات کا عدالت میں جانا بدبختی ہے۔ مذہبی
معاملات جب عدالت میں جاتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے۔ مذہبی شعبے میں سادھو سنتوں
، سنیاسیوں کو سماج کی رہنمائی کرنی چاہیے‘‘۔ یہ بات اصولاً درست ہے لیکن
جب ساکشی مہاراج اور یوگی ادیتیہ ناتھ پاکھنڈی دھرم کا چولہ اوڑھ کر سیاست
کرنے لگیں تو کیامذہبی تقدس پامال نہیں ہوتا؟ بھیاجی نے مذہبی لوگوں کی
حالت زار پرافسوس کا اظہار کیا کہ ’’ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہے کہ جنہیں
عدل کرناچاہیے وہی انصاف کی گہار لگا رہے ہیں ‘‘۔سپریم کورٹ نے جب تین طلاق
کا فیصلہ کیا تو فسطائی عناصر بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد لوطیت کے فیصلے کو
بادلِ ناخواستہ برداشت کرلیا۔ غیر ازدواجی جنسی تعلقات پر مخالفت سے اپنے
آپ کو روک نہیں سکے مگر سبری مالا کے معاملے میں تودیپک مشرا کے فیصلے نے
سنگھ کی چولیں ہلا دی ہیں ۔
آریس ایس ایک طرف تو وہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ آئین اور عدلیہ کے
فیصلوں کااحترام کرنے والی مہذب تنظیم ہے لیکن دوسری جانب مغرب زدہ عدالتیں
ایسے فیصلے کررہی ہیں کہ انہیں قبول کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔
بھیاجی کی اس تقریر کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سنگھ کی عقل ٹھکانے
آرہی ہے۔انہوں نے بتایا ’’ راجہ بھی تبھی ٹھیک ہوتا جب سماج بیدا ر ہو تا
ہے ۔ جمہوریت میں تو اس کی لازمی ضرورت ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اب عوام کو
بیدار کرکے مہاراجہ مودی کو ٹھیک کرنے کے لیے سنگھ کیا کرے گا؟ کیا وہ ملک
کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کرے گا یا پھر ایک بار سیاسی عدم تحفظ یا
جماعتی عصبیت کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ انتخاب کا بگل بجتے ہی کیا پھر سےآر
ایس ایس کے کارکنان ہر ہر مودی گھر گھر مودی کا نعرہ لگا کر میدان عمل میں
کود پڑیں گے؟ یہ ساری نصیحتیں نوشتۂ دیوار بنی رہیں گی یا ان پر عملدرآمد
بھی ہوگا؟ |