ن لیگ نے دو سیٹیں جیت کر آسمان سر پر اٹھالیا ہے ۔ یہ
سیٹیں تو وہی تھیں جوعمران خان نے ن لیگ سے چھین لی تھیں اور پھر ان پر
تھوڑے بہت مارجن سے اگر ن لیگ نے ان سیٹوں کو واپس لے لیا تو کیسی خوشی
جبکہ ن لیگ کی صوبائی و قومی حکومت تحریک انصاف کے پاس ہے ۔ ان دو سیٹوں کے
جیتنے پر ن لیگ کی دیدنی خوشی کے تیوڑ بتاتے ہیں کہ صورتحال بدل چکی ہے ۔
خان صاحب کی عوامی حیثیت کو انہوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے اورتحریک انصاف سے
سیٹیں واپس لینا یادوبارہ پہلی سی سیاسی پوزیشن میں آنا کوئی آسان معاملہ
نہیں رہاہے ۔
جے یو آئی نے اپنی صوبائی وزارت کے دوران بنوں میں جس قدرکام کروائے ہیں
بنوں والی سیٹ کو ان کی گھر کی سیٹ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا ، جس طرح
لاہور میں ن لیگ کی کچھ سیٹیں اور خیبر پختونخوا یا میانوالی میں تحریک
انصاف کی کچھ سیٹیں یا دیگر جماعتوں کی مختلف علاقوں میں کچھ سیٹیں ان کی
گھر کی شمار ہوتی ہیں ۔ ایسی سیٹ پر ضمنی انتخاب تک بات پہنچنا ہی کسی
جماعت کی ناکامی شمارہوتی ہے ۔ایسی سیٹ پر ایک مرتبہ ہارنے کے بعد ضمنی
انتخاب میں جیتنے پر اس قدر خوشی اور چہک کیسی ؟بنوں کی اس سیٹ پر کامیاب
ہونے کے بعد جے یو آئی بحیثیت جماعت کے حوالے سے تو میں نہیں جانتا لیکن
کارکنوں کی اکثریت کا انداز انتہائی غیر جمہوری تھا ۔ پی ٹی آئی ، عمران
خان یا دیگر لوگوں کے حوالے سے یہ لوگ جو کہتے ہیں سو کہتے ہیں انہوں نے
اپنے ہی طبقے کے ایک آدمی کو اپنے خلاف الیکشن لڑنے پر انتہائی تند و تیز
تیروں کا نشانہ بنایا اور گھناؤنے و شرمناک الزام لگائے، الیکشن جیتنے کے
بعد یہ کمپین مزید تیز ہوگئی اور اس میں ایک بڑی بات یہ سننے کو ملی شجر سے
پیوستہ نہ رہنے یا اکابرین سے کٹنے اور نظریہ بدلنے کا نقصان یہ ہوتاہے ۔
جے یو آئی اگر ایک سیاسی شجر ہے تو اس کی عمرکے مقابلے میں پی ٹی آئی کے
ننھے منے پودے نے جو تنا آور درخت کی صورت اختیار کی ہے اس سے جمعیۃ کا
درخت بہار سے کوسوں دور خزاں کے گم گشتوں میں غائب ہوتا نظر آتاہے ۔ اگر
شجر سے کٹنے کی وجہ سے ہار ہوئی ہے تو اس شجر کے باغبان ومالی کو کس شجر سے
کٹنے کی وجہ سے گھر کی سیٹ ملا کر دوسیٹوں سے شکست ہوئی ؟ بہرحال اس موقع
پرجمعیۃ کے کارکنوں کےسیاسی طور پر تربیت یافتہ ہونے اور جمہوری رویوں کے
مالک ہونے کے دعووں کی حقیقت بھی طشت از بام ہوگئی ۔
اپوزیشن جماعتیں ضمنی انتخابات کے نتائج کواپنی فتح کے ساتھ سابقہ الیکشن
میں دھاندلی کے ثبوت کے طور پر بھی پیش کر رہی ہیں ۔ پارٹی رہنما کے خود
الیکشن میں کھڑا ہونے اور کارکن کے کھڑا ہونے میں ظاہری بات ہے فرق ہوتا ہے
۔ عمران خان ، نواز شریف یا دیگر جماعتوں کے رہنماؤں اور قائدین کی جو
حیثیت ہے وہ ایک کارکن کی نہیں ہوسکتی ہے ۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا یہ
دعویٰ بالکل بے بنیاد بھی نہیں ہے ۔ سابقہ انتخابات میں دھاندلی کے دیگر
شواہد کے ساتھ اگر اس کو ملاکر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ
سابقہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔ تاہم ن لیگ ، جمعیۃ یااپوزیشن کی
دیگرجماعتیں جو تحریک انصاف کو بالکل ہلکا لیتی ہیں ان کو اس خام خیالی سے
نکل آنا چاہیے اور زمینی حقائق کو مانتے ہوئے تحریک انصاف کی عوامی حیثیت
کو تسلیم کرلینا چاہیے اور جمہوریت کی بقاء کے لئے موجودہ حکومت کے ساتھ
ممکن تعاون کرنا چاہیے ۔
یہاں ایک اہم سوال تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے ہے کہ کیا یہ مستقبل
میں اپنی عوامی حیثیت کو باقی رکھ پائے گی ؟ ضمنی الیکشن اور اب تک کی
مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس کا جواب ہاں میں دینا بہت مشکل ہے ۔
دومہینے پہلے کی صورتحال اور موجودہ تناظر میں دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ
تحریک انصاف نے وعدوں ، نعروں اور جذباتی بر انگیختی پر مبنی جس سیاست کو
متعارف کرواکر اقتدار حاصل کیا عملی دنیا میں ان کو پورا کرنے میں وہ ناکام
رہی ہے ۔ایسے معلوم ہوتاہے کہ تحریک انصاف کے پاس کوئی واضح ایجنڈا اور
کامیاب ٹیم نہیں ہے ۔ الیکٹیبلز اور جذباتی ابال کے ذریعے تحریک انصاف
اقتدار تک تو پہنچ گئی لیکن اس کے بعد کرنا کیا ہے اس کو کچھ سمجھ نہیں
آرہی ہے ۔ اب تک کی کارکردگی میں سب سے بڑاکام تجاوزات ہٹانے کا ہواہے ۔ اس
میں سیاسی مخالفین کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہوا سو ہوا لیکن ہزاروں نہیں
لاکھوں غریبوں کی روٹی روزی پر لات ماری گئی ۔ کسی بھی بازار میں آپ چلے
جائیں ریڑھی بان ، چھابری والے ، کھوکھے والے بازار کی رونق ہوتے ہیں ۔
دوکانوں کے آگے سامان لگانے والے لوگ جہاں بازار کی آباد ی کا سبب ہوتے ہیں
وہیں کم قو ت خرید والے لوگوں کے لئے سہولت میسر کرتے ہیں ۔ریڑھیوں ،
چھابریوں ، کھوکھوں اور پھڑیوں کو ختم کرکے بازاروں کو سنسان اور ویران
کردیاگیا ۔ دوکانوں اور مارکیٹوں کوملیامیٹ کرکے معیشت کو برباد کرنے میں
رہی سہی کسر بھی نکال دی گئی ۔لاکھوں لوگوں کو یک لخت بے روزگار کردیاگیا ۔
خان صاحب جن لوگوں کی عمر بھر کی پونجی ایک دوکان یا مکا ن تھا ان کو آپ نے
ابھی تک کچھ دیا نہیں اور اس کی عمر بھر کا سرمایہ اس سے چھین لیا۔ آپ نے
پچاس لاکھ لوگوں کو گھر دینے تھے لیکن دینے سے پہلے جن لاکھوں لوگوں سے
چھین رہے ہیں ان کا والی وارث کون ہوگا ؟بازاروں اور مارکیٹوں میں ہونے
والی یہ تبدیلی معیشت پر کس حد تک اثرا نداز ہوسکتی ہے اس کاخان صاحب کی
افلاطونی ٹیم کو اندازہ نہیں ہے ۔ یہ ہے وہ ایک واحد کارنامہ اور اس کے
نتائج جس پر خان صاحب کی ٹیم "کرپشن فری پاکستان ، تجاوزات ہٹاؤ ، ملک بچاؤ
" جیسے خوشنما لیبل لگا کر وقت گزاری کررہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور
کارنامہ بھی ہے جس میں اداروں سے وابستہ لوگوں کی برسر عام تذلیل کی جارہی
ہے ۔ جس میں سرمایہ دار کو ڈرا دھمکا کر ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا
جارہاہے ۔ جس میں بیورو کریسی کو انجانے خوف میں مبتلاکرکے کام سے دورکیا
جارہاہے ۔
خان صاحب اگر آپ اسی ڈگر پر رہے تو آپ کی تبدیلی کی خواہش اور بلند عزائم
بیچ راہ ہی رہ جائیں گے ۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے وزراء مایوسی کی اس
حد ہیں کہ ملک کو ڈ یفالٹر قرار دے رہے ہیں ۔ اگر حالات ایسے رہے تو سیاسی
نظام یا حکومت کی بساط الٹنے میں اپوزیشن جماعتوں کو الزام دینا بھی درست
نہیں ہوگا ۔
خان صاحب اگر آپ واقعتا کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ملک کو دنیا بھر کی ریاستوں
کی طرز پر سرمایہ دارانہ ریاست بنائیں ، سرمایے کو حفاظت دیں جس سے مارکیٹ
سسٹم متحریک ہوگا ، صنعت حرکت میں آئے گی ، تعلیم اور صحت کے مسائل ہوں گے
۔ تحقیق ، ریسرچ اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہوگی ۔ اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں
تو عوام کو انسانی حقوق کا شعور دیں ۔اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بجائے
سیاسی مخالفتوں کو انجام تک پہنچانے کی بجائے فلاحی منصوبوں کو پوراکرنے
میں اپنی تمام تر طاقت صرف کریں ۔ایسے میں عوام آپ کے ساتھ ہوگی ورنہ آپ
بھی زرداری طرز پر چند سیٹیں لے لیا کریں گے اور اس نظام و ملک سے اپنا حصہ
وصول کرتے رہاکریں گے ۔
|