بھلا ہو استادمحترم پروفیسر ناصر علی سید صاحب کا جو مجھ
جیسی ناچیز کوہر اس فورم میں شریک ہونے کابھرپو ر موقع فراہم کرتے ہیں جہاں
سے ہمیں زیادہ نہ سہی تھوڑی بہت معلومات حاصل ہوجاتی ہیں اور دوسرے الفاظ
میں لکھنے کے لئے ہمیں کچھ نیا مل جاتاہے۔یوں تو آج کل مسائل ان گنت کی
صورت اختیار کرچکے ہیں تاہم معاشرتی مسائل پر لکھنا یعنی قلم کا حق ادا
کرنے کے مترادف ہے،جیسے آپس کے لڑائی جھگڑے،حقوق وفرائض وغیرہ مسائل پر اگر
صحیح معنوں میں لکھا جائے تو کوئی شک باقی نہ رہ جائے گا کہ ہم اس مسائل کو
حل کرنے میں اپنا مثبت کردار اداکرسکیں۔بہرکیف استاد محترم کی جانب سے
گزشتہ رات ایک برقی پیغام ملا جس میں انہوں نے محکمہ صحت کی جانب شروع ہونے
والی ’’خسرہ‘‘بیماری کے بارے میں پریس بریفنگ میں شرکت کی دعوت دی
تھی۔پروگرام پشاور شہر میں واقع ایک ہوٹل میں منعقدتھاجہاں شہر پشاور سے
تعلق رکھنے والے قلم قبیلہ کے لوگ پہلے سے موجود تھے جن میں پروفیسر ناصر
علی سید،عزیز اعجاز،بشریٰ فرخ،رفعت علی سید،ڈاکٹر شاہدہ سردار،رانی
بانو،شاہین عمر،روشن خٹک،ڈاکٹر دوست محمد،نثار مہمند،جمشید خٹک وغیرہ قابل
ذکرہیں۔پروگرام شروع ہوا جس میں ڈائریکٹر ہیلتھ نے خسرہ مہم پر تفصیلی بات
چیت کی۔خسرہ بیماری ’’خسرہ‘‘ وائرس نامی ایک وائرس سے پیدا ہوتا ہے۔ خسرہ
ایک عام بچپن میں ہونے والا انفیکشن ہے۔ متاثرہ افراد میں، شروع میں بخار،
کھانسی، ناک بہنا، آنکھیں سرخ ہونا اور منہ کے اندر سفید دھبے نمودار ہوں
گے۔ اس کے 3 سے 7 دن بعد سرخ دھبے دار جلد کی چھپاکی ہو جاتی ہے، جو عام
طور پر چہرے سے جسم کے باقی حصوں تک پھیل جاتی ہے۔ چھپاکی عام طور پر 4 - 7
دن تک رہتی ہے، لیکن بھوری رنگت اور بعض اوقات ملائم جلدی جھلی چھوڑتے ہوئے
3 ہفتوں تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔ شدید حالتوں میں، پھیپھڑے، انتڑیاں اور
دماغ بھی لپیٹ میں آ سکتا ہے اور سنگین نتائج یا موت کا سبب بھی بن سکتا
ہے۔یہ رطوبت کے چھینٹوں کے پھیلا ؤسے ہوا کے ذریعے یا متاثرہ افراد کے ناک
یا گلے سے خارج ہونے والی رطوبتوں کو براہ راست چھونے سے، اور بہت کم عام،
ناک یا گلے کی رطوبتوں سے گندی ہوئی اشیا کے ذریعے منتقل ہو سکتا ہے۔ خسرہ
سب سے زیادہ قابل منتقلی متعدی امراض میں سے ایک ہے۔ مریض چھپاکی کے ظاہر
ہونے سے 4 دن پہلے سے 4 دن بعد تک مرض کو دوسرے افراد میں منتقل کر سکتا
ہے۔اس کی حد عام طور پر 7 سے 18 دن تک ہوتی ہے، لیکن 21 دن بھی ہو سکتی
ہے۔متاثرہ افراد کو غیر قوت مدافعتی افراد، بالخصوص کمزور قوت مدافعت کے
حامل، حاملہ خواتین اور شیر خوار بچوں کے ساتھ رابطے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
اگرچہ کوئی مخصوص علاج نہیں ہے، البتہ علامات کو کم کرنے کے لئے ادویات
تجویز کی جا سکتی ہیں اور بیکٹیریائی پیچیدگیوں کے علاج کے لئے اینٹی
بائیوٹکس استعمال کی جا سکتی ہیں۔پروگرام کا مقصد 15اکتوبر سے محکمہ صحت کی
شروع ہونے والی خسرہ سے بچاؤ کے اضافی ٹیکے مہم مقصد تھا جوکہ27اکتوبر تک
چلے گی۔اس دوران تمام شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ ان بچوں کو خسرہ سے بچاؤ
کے ٹیکے ضرور بالضرور لگوائیں ،ڈاکٹر ز کے مطابق چاہے آپ اپنے بچوں کا
ٹیکوں کا کورس مکمل کرچکے ہوں پھر بھی آپ محکمہ کی جانب سے شروع اس مہم میں
اپنا حصہ ڈالیں تاکہ مستقبل میں خسرہ سے بروقت بچا جاسکے۔گوکہ خسرہ زندگی
میں صرف ایک ہی بار ہوتاہے تاہم اس کی پچیدگیوں سے بچنے کی غرض سے اضافی
ٹیکہ لگانا نہایت ضروری ہے۔اس لئے آپ سب سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ محکمہ
صحت کی شروع کردہ اس 12روزہ مہم میں اپنے اپنے بچوں کو خسرہ سے بچاؤ کے
ٹیکے ضرور لگائیں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اس موذی مرض سے بروقت بچ سکیں۔ |