صاف اور شفاف ضمنی انتخابت مکمل ہو گئے۔ اپوزیشن کو مناسب
سیٹیں مل گئیں ۔اسی لیے سیاسی جماعتوں کا روائتی شور شرابہ سننے کو نہیں
ملا۔یہ ملک میں سیاسی طور پر خوش آئند ہے۔ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی
۱۱؍ سیٹوں میں سے۴؍ سیٹیں تحریک انصاف کو ملیں اور ۴؍ ہی سیٹیں نون لیگ کو
ملیں۔تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ق مسلم لیگ کو ۲ ؍سیٹیں ملیں۔ نون لیگ کی
اتحادی جماعت ایم ایم اے کو ایک سیٹ ملی۔ اتحادی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے
تو تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت کی ۶؍ سیٹیں بنتیں ہیں۔ نون لیگی
اتحاد کی۵؍ سیٹیں بنتی ہیں۔ ایسے تو تحریک انصاف اتحاد کو نون لیگ اتحاد پر
۱؍ سیٹ کی برتری ہے۔قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن یہ بن گئی۔ تحریک انصاف
کی قومی اسمبلی میں ۱۵۵،نون لیگ کی۸۵، پیپلز پارٹی کی ۵۴، ایم ایم اے کی۱۶،
اور ق مسلم لیگ ۵؍ سیٹیں ہو گئیں۔جہاں تک پنجاب صوبائی اسمبلی کا تعلق ہے
تو پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہے۔ تحریک انصاف۱۸۱، نون لیگ۱۶۸، ق لیگ ۱۰،
پیپلز پارٹی ۷،راہ حق پارٹی ۱؍ اور آزاد ۴؍ ہیں۔ مجموعی طور پرتحریک انصاف
نے۱۵؍ سیٹیں حاصل کیں جبکہ نون لیگ نے۱۱؍ سیٹیں حاصل کی۔مجموعی طور پر بھی
تحریک انصاف کو نون لیگ پر ۴؍ سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔
معمولی سی جیت پر نون لیگ والوں نے شور مچایا ہوا ہے کہ،بھاگ گئے تحریک
انصاف والے، جانے نہیں دیں گے ان کو۔ نون لیگ کے پروپیگنڈا سیل نے کہنا
شروع کیا ہوا ہے کہ تحریک انصاف کو شکست دے دی ہے۔ ہمیشہ کی طرح نون لیگ کے
پروپیگنڈا سیل نے پاکستانی عوام کو مس گائیڈ کرنے کا پرانا وطیرہ اپنائے
رکھا۔جیسے سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے جس میں دو ججوں نے نواز شریف کو ہمیشہ
کے لیے نا اہل قرار دیا اور تین ججوں نے کہا کہ مذید انکواری کر لی جائے۔
اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ تھا کہ پانچ کے پانچ ججوں نے نواز شریف کو بے
قصور قرار نہیں دیا تھا۔ صرف اتنی بات تھی کہ دو ججوں نے نااہل قرار دیا
اور تین ججوں نے کچھ وقت مذید دے دیا تھا۔ اب نون لیگ کے میڈیا سیل نے کہا
کہ نواز شریف کی جیت ہے کہ پانچ میں تین ججوں نے نواز شریف کو چھ ماہ کا
مذید وقت دے دیا۔ پورے ملک میں مٹھائیں تقسیم کی گئیں تھی۔ واہ سے
پروپیگنڈا سیل والے اور واہ نون لیگ کے لیڈرو!پھر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے
مطابق جے آئی ٹی بنی اور اس نے تحقیق کی۔ تحقیق کی روشنی میں نیب عدالت نے
نواز شریف کو منی ٹرائیل نہ پیش کرے یعنی پیسا کس ذریعہ طرح پاکستان سے
باہرگیا اور فلیٹ کیسے خریدے گئے۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صٖدر
کوسزائے قید سنائی۔ ٖ کاروائی کے دوران نیب عدالت میں کسی وقت یہ بات
ریمارکس میں آئی کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ نون لیگ میڈیا نے اس بات کو خوب
پھیلایا کہ کرپشن تو ثابت نہیں ہوئی۔جناب ملزم کو سزا ہوگئی۔ وہ قید میں
بندتھے اور میڈیا کہہ رہاتھا کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔چلو یہ بات مان لیتے
ہیں کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ وہ بھی نیب قانون کے مطابق نیب جس کے بھی
آثاثے اس کی آمدنی سے زیادہ ہوں یہ اس شخص کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اس نے
یہ مال کس طرح کمایا۔ ثابت کرنا نیب کا کام نہیں بلکہ یہ اس شخص کا کام ہے
جس کو نیب نے تحقیق کر کے انصاف کے کہٹرے میں کھڑا کیا، کہ جناب آپ ثابت
کریں کہ آپ کی آمدنی سے زیادہ پیسا کہاں سے آیا۔ایسے نہیں چلے گا کہ جیسے
آپ نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا کہ جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرایع اور اس
کا ہمارے پاس ریکارڈ ہے۔ ہم نے پہلے دبئی میں مل لگائی ۔ اس کو فروخت کر کے
یوای میں پراپرٹی میں پیسا لگایا۔ پھر جدہ میں مل لگائی اسے فروخت کر ہم نے
فلیٹ خریدے ۔ جب عدالت نے پوچھا کہ ملک سے پیسا کس طریقے سے کیا تو اس کا
ثبوت پیش نہ کر سکے۔ بس ایک محمل سا خط قطری شہزادے سے حاصل کر کے عدالت
میں پیش کیا۔ قطری شہزادہ نے عدالت میں پیش ہو کر اس خط کی صدیق بھی نہیں
کی۔ خیر یہ باتیں ہم نے اس لیے بیان کی ہیں کہ اب پھر کہا جارہا ہے کہ نون
لیگ نے تحریک انصاف کو شکست دے دی ہے۔ جبکہ اوپر درج گئے ضمنی انتخابات میں
تحریک انصاف کا پلڑا پھر بھی بھاری ہے۔گو کہ پیپلز پارٹی،ایم ایم اے اور
ساری پوزیشن نے مل کر نمائندے کھڑے کیے تھے۔ زیادہ پروپیگنڈا عمران خان کی
خالی سیٹوں پر جیتنے پر ہو رہا ہے۔ اس پر اگر آزادانہ تجزیہ کیا جائے تو
تحریک انصاف نے اس پر بھی انصاف کیا ہے۔ وزیر اعظم کی سیٹوں پر اپنے
امیدواروں کو جیتوانے کے لیے حکومتی وزیروں نے کہیں بھی جا کر ترقیاتی
پروگراموں کا اعلان نہیں کیا۔ نہ ہی حکومتی اداروں نے مداخلت کی۔ویسے بھی
سارے اداروں میں تیس سال حکومت کرنے والی نون لیگ کے لوگ اب بھی موجود
ہیں۔جو عمران خان حکومت میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ کیا اس سے پہلے ضمنی
انتخابات میں اقتدار میں رہ کر نون لیگ نے ضمنی انتخابات جیتنے کے لیے
حلقوں میں ترقیاتی پروگراموں کا اعلان نہیں کیا تھا۔ نوکریاں دینے کے وعدے
نہیں کیے تھے۔ حکومت کی ساری مشینری حکومتی پارٹی کو جیتانے کے ناجائز
طریقے اختیار نہیں کرتے رہے۔ اب کہ ضمنی اتخابات میں نے تحریک انصاف نے یہ
سارے کام نہیں کیے۔ہاں صرف حلقوں میں صحیح نمائندے کھڑے نہیں کیے۔ لاہور
میں جس امیدوار کو کھڑا کیا گیا اس نے جرنل انتخابات میں نون لیگ سے ٹکٹ
مانگا تھا۔ نہ ملنے پر پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گیا۔ اس کے
لیے تحریک انصاف کے کارکنوں نے بہتر طریقے سے انتخابی مہم نہیں چلائی۔ اسی
طرح بنوں کی سیٹ بھی تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل گئی۔اسلام آباد اور کراچی
کی سیٹ پر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے ہی امیدوار کامیاب ہوئے۔ اگر
عمران خان کی خالی کی گئی سیٹوں کی بات کی جائے تو معاملہ برابر کا رہا۔ دو
سیٹیں ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزشن نے ضمنی انتخابات میں مل کر
امیدوار کھڑے کیے۔
صاحبو! اس بات میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف
نے انصاف کیا۔ مداخلت نہیں کی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اچھا شگون
ہے۔ ویسے بھی اگر سیاست دان ملک میں ای ووٹنگ کا طریقہ رائج کر دیں تو
انتخابی جھگڑوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس طرح جیتنے والی پارٹی کو کھل کر
کام کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ عوام کی بھلائی کی طرف حکومت کو دھیان دینے کا
وقت مل جاتا ہے۔ جیسے پہلے دو حکومتوں کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا پورا
پورا موقعہ ملا اسی طرح پی ٹی آئی حکومت کو پانچ سال حکومت کرنے کا موقع
ملنا چاہیے تاکہ وہ عوام کہ بھلائی کے کام کر سکے۔اس طرح عوام کو معلوم ہو
جائے گا کہ پہلی دو حکومتوں نے ان کی صحیح خدمت کی یا نئی آنی والی حکومت
کی کارکردگی صحیح ہے۔ اﷲ ہمارے ملک کو سیاسی جھگڑوں سے پاک رکھے ۔آمین۔
|