ضمنی الیکشن کے نتائج نے تحریک انصاف کے لیے سوچنے اور
پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات پیدا کردیئے ہیں ۔ خلاف
توقع عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی مقبولیت کاگراف دو ماہ ہی گرتا
نظر آرہا ہے ۔ تحریک انصاف کے این اے 131 کے امیدوار ہمایوں اخترخاں نے
ٹھیک کہا کہ میری شکست کی وجہ بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کا
حد سے زیادہ بڑھتا ہوا طوفان ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پانچ سو ووٹوں سے
ہارنے والے خواجہ سعد رفیق نے دس ہزار ووٹوں کی لیڈ سے تحریک انصاف کے
امیدوار کو ہرادیا ۔تحریک انصاف کے ایک اور رہنما علی نواز اعوان کہتے ہیں
تجاوزات مخالف مہم کا اثر ضمنی الیکشن پڑا ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ تین
سو کنال اراضی پر مشتمل بنی بنگلہ سپریم کورٹ سے بھی غیر قانونی قرار پاچکا
۔ تحریک انصاف کی حکومت دوسروں کے غیر قانونی گھر دھڑا دھڑ گرا رہی ہیں
لیکن عمران خان کے عالیشان بنگلے کی جانب دیکھنے کی کسی کو جرات نہیں۔
ریاست مدینہ قائم کرنے والوں کا دوغلا پن عوامی نفرت میں اضافے کا باعث بن
رہا ہے۔ جہاں تک مہنگائی کا معاملہ ہے تو ہر شخص پہلے ہی ناک ناک تنگ تھا
اس پر عمرانی حکومت نے بوجھ کم کرنے کی بجائے مزید ڈبل بوجھ ڈال دیا
ہے۔عمران خان فرماتے ہیں کہ بس پانچ چھ مہینوں کی بات ہے پھر سب کچھ ٹھیک
ہوجائے گا ۔"کون جیتا ہی تیری زلف کے سر ہونے تک"۔ عوام نے انہیں اس لیے
ووٹ دیئے تھے کہ شاید ہمار ے کندھوں پر بوجھ کم ہوجائے گا۔ لیکن ہوا اس کے
برعکس ۔بہرکیف یہ پاکستان ہے اور پاکستان میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ۔بادشاہ
فقیر اور فقیر بادشاہ بن جاتے ہیں ۔ سینٹ میں مولانا عطا الرحمان کو کسی نے
ضمنی الیکشن میں کامیابی کی مبارک باد دی تو انہوں نے فرمایا۔ ایسٹیبلشمنٹ
سے ناراضگی ختم ہوچکی ہے‘ اب نتائج ایسے ہی مثبت نظر آئیں گے ۔ رانا مشہود
بھی چند ہفتے پہلے اشارہ کر چکے کہ جن مقتدر حلقوں نے تحریک انصاف کو گھوڑا
سمجھ کر منصب اقتدار پر بٹھایا تھاانہوں نے دو مہینوں میں ہی مایوس ہوکر
مسلم لیگ ن کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے ۔انہوں نے جسے گھوڑا سمجھا تھا وہ
خچرنکلا ۔ چنانچہ جلد ہی پنجاب میں ہماری حکومت آنے والی ہے ۔ ایسی باتیں
پاکستانی سیاست میں زیادہ اہمیت تو نہیں رکھتیں لیکن ہواؤں کے رخ کاتعین
ضرور کردیتی ہیں ۔ ویسے بھی عمران خان نے پنجاب کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک
نہیں کیا ۔ موجودہ وزیر اعلی نیک شریف اور تحمل مزاج شخص ہیں لیکن پنجاب کو
سنبھالناانکے بس کی بات دکھائی نہیں دیتی ۔ ان کے بارے میں کئی خبریں
صحافتی حلقوں میں گردش کرتی سنائی دیتی ہیں کہ وزیر اعلی کو فائل پڑھنا اور
اس پر اپنے خیالات لکھنے کا طریقہ بھی نہیں آتا ۔ سوالوں کاجواب دیتے ہوئے
وہ نروس دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے عمران خان مہینے میں ایک دو بار
لاہور تشریف لاتے ہیں اور پنجاب کے وزراء کو نئی گائیڈ لائن دے کر واپس چلے
جاتے ہیں ۔کمزور وزیر اعلی کا احساس شاید اس لیے بھی ہوتاہے کہ شہباز شریف
کی کام کرنے کی رفتار اور ویژن پوری دنیامیں مشہور تھا ‘انہوں نے اپنے دس
سالہ دور میں ایسے مشکل ترین میگا پروجیکٹس کواپنی بہترین حکمت عملی اور
ذاتی نگہداشت میں مکمل کرکے دکھایا جس پر ان کے مخالف بھی تعریف کیے بغیر
نہ رہ سکے ۔جو میٹرو بس سسٹم پشاورمیں اربوں روپے خرچ کرکے بھی مکمل نہ
ہوسکا اس جیسے تین میگا پروجیکٹ شہباز شریف نے لاہور ‘ راولپنڈی اور ملتان
میں نہ صرف مکمل کرکے دکھائے بلکہ عوام ان سے بھرپور استفادہ بھی کررہی ہے۔
چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی ۔جس کی عبارت کچھ یوں تھیں "-میں
نہر کے ساتھ ساتھ پچیس کلومیٹر کا سفر صرف 13 منٹ میں طے کیا شہباز شریف تم
مجھے بہت یاد آئے "۔شاید یہی وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے آزاد امیدوار نواز
شریف کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک ٹی وی
پر سلائیڈ چل رہی تھی کہ 18 آزاد ایم پی اے مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کے
لیے اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں ۔ائمپائر کی انگلی اٹھتے ہی پنجاب
حکومت تبدیل ہوجائے گی ۔کیونکہ پنجاب میں بلاشبہ مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت
حاصل ہے ‘ مصنوعی اور بیساکھیوں پر چلنے والی حکومت زیادہ دیر اپنا وجود
برقرار نہیں رکھ سکتی ۔یہ وہی ائمپائر ہے جس کی انگلی اٹھنے کا اشارہ عمران
خان کیاکرتے تھے ۔ |