میڈیا مالکان کو ہراساں اور بلیک میل۔۔۔!!

شوشل میڈیا میں آج کل ایک پوسٹ لگائی جارہی ہے کہ مختلف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا سے ملازمین کو بے دخل کیا جارہا ہے، پوسٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پمجان یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے عنقریب میڈیا مالکان کے گھروں اور دفاتر کا محاسرہ کیا جائیگا،اس پوسٹ میں گویا میڈیا مالکان کو تنبیہ آمیز الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں۔۔۔ معزز قارئین۔۔!!میں نے میڈیا پر کئی کالم تحریر کیئے ہیں گزشتہ روزبھی ایک کالم تحریر کیا تھا لیکن شوشل میڈیا میں جاری اس پوسٹ کا جواب دینا ناگزیر ہوگیا اسی بابت یہ کالم تحریر کررہا ہوں۔معزز قارئین ۔۔!! کئی رپورٹرزنے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں میں نہ تو شرم ہے اور نہ ہی حیا ، یہ لوگ صحافت کو اپنی ذات کیلئے ڈھال بناکر مکمل مفادات حاصل کرتے ہیں اور جب ان کی بات نہ سنی جائے تو یہ لوگ اپنے ہی مالکان کو حراساں اور بلیک میل کرنے پر تل جاتے ہیں ، ان رپورٹرز نے یہ بھی کہا ہے ہم ہی میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے پروموشن حاصل کرکے اپنی ہی قلیقوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ کھڑے کیئے، یہ بھول جاتے ہیں جب رپورٹرز سے ترقی پاکر کوئی بیورو چیف ،تو کوئی نیوز کنٹرولر اور کوئی ڈائریکٹر نیوز کے منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس وقت انہیں عدل و انصاف کیوں نہیں یاد رہتا، یہی لوگ جب ایسوسی ایشن میں بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تب کیوں نہیں انصاف کرتے؟؟ کیوں اقربہ پروری کو فروغ دیتے ہیں ؟؟ کیوں اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرتے ہیں ؟؟ کیوں مالکان کی بے جا چاپلوسی اور کمزوروں پر اپنے ناجائز احکامات جاری کرتے ہیں ؟؟ تب کیوں نہیں انہیں خدا یاد رہتا ہے ؟؟ مالکان کے علم میں لانے ہی نہیں دیتے کہ ان کے ماتحت کس قدر ان کی وجہ سے پریشان ہیں ، رپورٹرز دوستوں نے یہ بات بھی کہی کہ جب ان کے من مانیاں نہیں ہوتیں تو یہ مالکان کو حراساں اور بلیک میلنگ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں ، ان رپورٹرز کے مطابق ایسے لوگ مفاد پرست، خودغرض،منافق کی انتہا پر ہوتے ہیں ،یہ اپنے محسن مالکان کے سامنے ایسے آتے ہیں کہ جیسے مالکان نے ان سے ادھار لیا ہو!! ایک رپورٹر نے کہا کہ ان افسران کی بےجا خواہشات کی تکمیل نہ کرنا خود کو آگ میں جلانے کے مترادف ہوتی ہےاسی کیلئے خاص کر او ایس آر کے رپورٹرز صحافتی پروفیشنل ازم سے دور ہوجاتے ہیں جبکہ بڑے شہروں کے رپورٹرز اعلیٰ افسران کی خواشہات کی تکمیل کیلئے اپنے پروفیشل ازم سے غداری کر بیٹھتے ہیں کیونکہ حق و سچ سے آنکھ چرانا ہی صحافت کا قتل ہے ، یقین جانئے روز کتنی بار ہم رپورٹرز اپنے پروفیشنل سے غداری کرتے ہیں اگر ایسا نہ کریں تو یہی افسران ہماری جاب کھا جائیں گویا اب صحافت نہیں ضیافت کا دور ہے، یہ کہنا کہ ہم صحافتی اقدار میں رہ کر کام کررہے ہیں شائد ہی ایک سے دو فیصد صحافی ہونگے جو اب بھی پروفیشنل ازم پر قائم ہیں مگر ان کی معاشی حالت ابتر ضرور ہوتی ہے اور ایسے پروفیشنل صحافی حضرات سادہ زندگی گزار رہے ہیں ، انہیں نہ دکھ ہے نہ خوف کیونکہ یہی لوگ دراصل صحافت کی خدمت پیش کررہے ہیں اور ایسے صحافیوں کی عزت ہر ادارے میں قائم ہے۔۔۔!!پروفیشنل صحافی صرف صحافتی اقدار میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں انہیں کسی افسرکی خواہش کی تکمیل کی پرواہ نہیں ہوتی یہ تو کام اور صرف کام پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور اپنے ادارے کے خلوص میں حق و سچ لکھنا ، بولنا اور سننا چاہتےہیں، ان میڈیا پرسن سے کرپٹ لوگ گھبراتے ہیں جبکہ مالکان کی نظر میں یہ لوگ اچھی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں کیونکہ ادارے کا مالک اپنے مخلص لوگوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے گالیکن یہی شور مچانے والے افسران، تنظیموں کے ٹھیکیدارہی دراصل ان حالات کے براہ راست ذمہ دار ہیں ، رپورٹرنے کہا کہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹریز میں غیرپیشہ ورانہ رویہ جب تک ختم نہیں ہوگا اُس وقت تک عام میڈیا پرسن میں خوف و دہشت کی لہر جاری رہے گی ،ان کے مطابق پاکستان میں میڈیا انڈسٹریز میں کام کرنے والے کارکن اپنے افسران اور تنظیمی عہدیداران کے خوف میں رہ کر کام کرتے ہیں اسی سبب اپنے منصب پر کام کے دوران بار بار غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ ماحول ہی ایسا پیدا کردیا جاتا ہے اگر آزادانہ ماحول بخشا جائے تو یقیناً میڈیا کے امور کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا جاسکتا ہے ، رپورٹر نے یہاں ایک بات اور یاد دلائی کہ بیورو چیف سے لیکر نیو ز ڈائریکٹر کے منفی رویوں پر کوئی مالکان کی جانب سے جواب طلبی حاصل نہیں کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مالکان کی اس غلطی کی بنا پر افسران بھی نا جائز احکامات کر جاتے ہیں ان میں حق تلفیوں سمیت مختلف جائز ضروریات کو رد کرنا بھی شامل ہے۔ شوشل میڈیا پر جاری پوسٹ کے بارے میں ان تمام دوست رپورٹروں نے مجھ سے کہا کہ میڈیا میں کالی بھیڑوں کو بے دخل کرنا بھی صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں ، کارکنوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے بڑے عہدوں پر فائز افسران کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافی لوگوں کے حقوق کوغیر صحافیوں میں تحفظ دیںممکن ہے کہ پہلے یہ اپنا خود احتساب کریں ،خود کو پہلے درست کریں، خود کو قابل بنائیں پھر کہیں جاکر وہ میڈیا مالکان سے شکوہ و شکایت کرسکتے ہیں بصورت دیگراپنا احتساب کیئے بغیر جبراً مطالبات بلیک میلنگ اور حراساں کے مترادف ہونگے، اللہ ہمارے پیشے میں ایماندار، سچے، مخلص، حق نواز،نڈر اور با صلاحیت رہنما عطا فرما تاکہ میڈیا انڈسٹریز پھلے پھولے ۔۔۔۔ آمین ثما آمین۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!!

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 244840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.