تیسری منزل

ہم کر گذرنے والے لوگ ہیں ہم کر گزرتے ہیں بشرطیکہ معاوضہ ہمارے شایان شان ہو

اپنے سکول کے زمانے میں ہم چند دوست ایک ادارے کی لائبریری میں جایا کرتے تھے ۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ غیر ملکی اخبارات و رسائل بھی ہوا کرتے تھے۔ وہاں اس وقت کے سویت یونین کے سفارت خانے کا ْ طلوع ْ نام کا ایک مجلہ رکھا ہوتاتھا جس کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا ْ سچ کی طرح سادہ ْ ہم دوستوں نے کئی مرتبہ اس جملے کی حقانیت پر بحثیں کی مگر اس پر سب متفق ہوجاتے تھے کہ سادہ ترین چیز سچ ہی ہے مگر اس کے اندر لکھے گئے مضامین اور اعداد و شمار بار بار ہمیں بحث کرنے کر مجبور کر دیتے تھے مگر اس جملے کو غلط ثابت نہ کر پاتے تھے۔

پاکستان میں سچ سے بھی اوپر کی ایک قسم ہم نے دریافت کر کے اس کا نام ْ کھرا سچ ْ رکھا ہے ۔ یعنی سچ سے بھی اوپر کی منزل موجود ہے ۔ مگر ہم بحث کرنے والے اپنے دوستوں کو عملی زندگی کی بھول بلیوں میں کھو چکے اور نئے دوست بحث کو اختلاف اور اختلاف کو دشمنی گردانتے ہیں۔کیا دن تھے جب اختلاف رائے ادراک کے نئے در کھولا کرتے تھے۔

اب دوسری منزل پر بیٹھ کر ْ کڑا ْ ہی جا سکتا ہے ویسے دوستوں کی محفل ہو تو ہر روز منفرد موضوع ۔ اس منزل پر بیٹھ کر ْ طلوع ْ دور بہت دور نیچے گہرائی میں نظر آتا ہے جیسے یہ دوسری منزل کسی عمودی پہاڑی کی چوٹی پر ہو۔

دنیا میں علم کی نئی نئی جہتیں دریافت ہو رہی ہیں ہم نے مگر سچ کی تیسری منزل دریافت کر لی ہے اس کا نام تو سامنے نہیں آیا مگر بابا بھلے شاہ کے ْ علموں پئے رولے ہور ْ کے مصداق اس نے رولے بہت ڈال دیے ہیں ، سنا ہے یہ ففتھ جنریشن وار کا ایک ہتھیار ہے حالانکہ کتابیں پڑھ کر ہمیں یقین تھا ہتھیار دشمنوں کے لیے ہوتے ہیں مگرجدید حکمت عملیوں کی اس صدی میں ہدف بھی نئے ہو گئے ہیں۔ پہلے وقتوں میں علاقے فتح کیے جاتے تھے اب تسخیر اذہان پر زور ہے۔اس کا عملی مظاہرہ ہم پاکستانی دیکھ چکے تھے البتہ افغانیوں کو تجربہ حال ہی میں ہوا ہے۔پاکستان اور اس کے ادارے ہمیشہ فرنٹ پر کھیل کر داد سمیٹنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔ ہمیں قوی امید ہے اس میدان میں بھی ہم ہی سر خرو ہوں گے۔ہم نے کچھ عرصہ عربوں میں گزارا ہے عربی زبان ہماری سرائیکی سے بھی میٹھی ہے ۔ ایک لطیفہ سنا کرتے تھے جس کا ترجمہ تو نہ کر پائیں گے مگر مفہوم آپ کو بتا دیتے ہیں ْ جو کام جو کر رہا ہے اسے کرنے دیں اگر نہیں کر پا رہا ہے تو یا حبیبی میں کیسے کر پاوں گا ْ ہم مگر کر گذرنے والے لوگ ہیں ہم کر گزرتے ہیں بشرطیکہ معاوضہ ہمارے شایان شان ہو اور ڈالروں میں ہو

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.