چین اور پاکستان کے ایک دوسرے سے جڑے مفادات ہی ہیں جن کے
باعث دونوں ممالک کی دوستی ہمالیہ کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ گہرے پانی بھی
اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور زمین پر بھی پاک چین راہداری کی شکل میں موجود
ہیں۔
جدید چین پاکستان سے بہت پیچھے تھا ۔ مگر اس نے تیز ترین ترقی کر کے خود کو
ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ عمران خان صاحب لوگوں کو بتاتے ہیں ْ پاکستان
چائنا کی طرح اوپر جائے گا ْ وہ پاکستان کو چین کے رستے پر ڈالنے کا ارادہ
رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وسط میں ان کی یہ اواز ہنر مندوں اور چھوٹے تاجروں کو
بہت بھلی لگتی ہے۔ وہ مڈل کلاس طبقہ بھی اس بیان کو پسند کرتا ہے جن کے چین
کے ساتھ تاجرانہ روابط ہیں۔چین کے سخت اور بے رحم نظام انصاف کو وہ کرپشن
ختم کرنے کا آسان حل بتاتے ہیں۔کرپشن کی بے رحم چکی میں پستا طبقہ ان کی
آواز کو اپنے دکھوں کا مدادا سمجھتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان صاحب کا یہ
بیانیہ بہت سے لوگوں کو پسند آتا ہے۔
برٹش کونسل کے مطابق پاکستان میں انگریزی سیکھنے اور اس کے استعمال میں
خاطر خواہ اضافہ ہو ہے، انگریزی میڈیا اور ادب پہلے سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔
یہ بات امریکی فلموں بارے بھی سچ ہے۔پاکستانی طالب علموں کو تعلیمی وظائف
زیادہ ترمغرب سے ہی آتے ہیں ۔ پاکستانی معاشرہ کا علمی، معاشی اور مقتدر
طبقوں کا سماجی قبلہ مغرب ہی ہے۔
اسد عمر صاحب نے ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ْ خان صاحب پورے
انگریز ہیں ْ وہ ۱۷ سال کی عمر میں لندن جا بسے تھے زندگی کا بڑا حصہ لندن
اور مغرب میں گزارا، ان کا رہن سہن انگریزی ہے۔ انھوں نے اینگلو فرنچ
خاندان کی جمائما خان سے شادی کی تھی۔ دو بار شہزادی ڈیانا کو لاہور
لائے۔دو برطانوی بیٹوں کے باپ ہیں۔کتوں سے ان کی محبت کا عالم یہ ہے کہ ان
کے دوست انھیں کتا بطور تحفہ دیتے ہیں۔وہ مغرب میں قانون کی حکمرانی سے اس
قدر متاثر ہیں کہ اپنے جلسوں میں اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ برطانوی پارلیمان
کو جمہوریت کی ماں بتاتے ہیں۔پارلیمان کیسے کام کرتی ہے سب ان کو ازبر ہے ۔
جلسوں میں برطانوی جیوری سسٹم کی تعریف کرتے ہیں۔ان کے یہ الفاظ ملک کے
متوسط طبقے کو ان کے عزائم دکھائی دیتے ہیں۔انھیں یقین ہے کہ خان صاحب
برطانیہ اور سکینڈینیوین ممالک جیسا فلاحی معاشرہ پاکستان میں قائم کر کے
پاکستان کو جمہوری اور فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیں گے ۔
پاکستان میں ایک بڑے بڑی تعداد میں لوگوں کے عزیزو اقارب دوبئی اور ریاض
میں ہیں یہ لوگ دبئی اور ریاض کی روشن اور بلند عمارات، سامان سے لبریز
دوکانوں ، نئے ماڈل کی چمکتی شفاف شاہراہوں پر دوڑتی گاڑیوں اور وہاں پر
درہم و ریال کی فراوانی سے مرعوب ہیں ۔ ان لوگوں کو یقین دلایا گیا ہے
عمران خان پاکستان کو دوبئی کی طرح ایسا ملک بنائیں گے جہاں مغرب سے لوگ
ملازمت کرنے پاکستان آیا کریں گے۔
امیر لوگ دوبئی اور سنگاپور سے متاثر ہیں۔ کھلی مارکیٹ کی بات ان کے ہاں
توجہ پاتی ہے۔ سنگا پور کے سابقہ رہنماء
Lee Kuan Yewکا ذکر خان صاحب اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اکثر کرتے ہیں
۔عمران خان صاحب اس طبقے کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو دوبئی اور
سنگاپور بنانا چاہتے ہیں۔آزاد معیشت اور کھلی منڈی کے دلدادہ افراد کو خان
صاحب کا یہ وژن اپنی طرف راغب کرتاہے۔
پاکستان میں جرنیل، جج ، اداروں کے سربراہاں اور خفیہ اداروں کے کرتا دھرتا
کو ملا کر اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ مرحوم حمیدگل صاحب سے مثاثر ہونے
کا وہ خود اعتراف کرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا ْ فوج کے
ساتھ کوئی ٹکراو نہیں ہے۔ وہ کرپٹ سیاستدانوں سے چھٹکارا چاہتی ہے اور ان
سے دور ہونا چاہتی ہے ، کیا یہ غلط ہے کہ میں ان کی حمائت نہ کروں ْ
اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ اور حاضر افراد کے ساتھ ان کے روابط کو وہ چھپانے کی
کوشش نہیں کرتے ۔ یہ سوچ اور عمل پاکستان کی مقتدر طاقتوں اور ان کے ہم
نواوں کو خان صاحب کا گرویدہ بناتی ہے۔
خان صاحب پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نکالنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ دہشت
گردی کے خلاف جنگ کو وہ امریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں ۔ امریکی امداد اور غیر
ملکی شرائظ بھرے قرضوں اور گرانٹوں کو وہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے
۔وہ ڈرون حملوں کے مخالف ہیں۔ان کا شمار طالبان کے ہمدردوں میں ہوتا ہے۔ ان
کے نزدیک طالبان گمراہ لوگ ہیں ان کو پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ
طالبان کو یہ بات سمجھانے مدرسہ حقانیہ جاتے ہیں۔ ان کی بات کے وزن کو
محسوس کیا جاتا ہے۔طالبان کو ان کا بیانیہ پسند ہے-
خان صاحب کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست ہے، وہ نماز ادا کرتے ہیں، ان کی پارٹی
میں علماء اور مفتیان کرام موجود ہیں، اپنی جوانی مغرب میں گذارنے اور
آزادانہ معاشرے کے ثمرات سمیٹنے کے بعد اسلام سے اس قدر مثاثر ہیں کہ شرعی
پردہ ان کے گھر کے اندر موجود ہے۔ وہ درگاہوں اور آاستانوں پر سر خم کرتے
ہیں۔ کے پی کے میں انھوں نے مساجد کے پیش اماموں کی مالی مشکلات کو کم کرنے
کی سعی کی۔ایک جلسے میں انھوں نے کہا تھا ْ محمد ﷺ ایک سیاستدان تھے ْ ان
کا یہ طرز کلام و حیات پاکستان میں دینی طبقات کو ان کا مداح اور پیرو کار
بناتا ہے۔
وہ ہر موضوع پر بولنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ ان کے پاس دلیلوں کے انبار ہیں۔
ان کی شخصیت میں سحر اور زبان میں جادو ہے ۔ان کے پاس متاثر کن الفاظ کا نہ
ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ وہ لوگوں کو نہیں ان کے جذبات کو مخاطب کرتے ہیں۔
وہ پاکستان کے عوام کی کمزوریوں، خواہشات، اور آگے بڑہنے کی شدید تڑپ سے
آگاہ ہیں ۔ وہ اپنی کرشماتی شخصیت سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ وقت
کے مشہور ترین شخص ہیں۔ بی بی سی کو ایک انٹر ویومیں انھوں نے کہا تھا ان
کے پاس سٹریٹ پاور ہے اور وہ ملک کو بند کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں-
پاکستان کے عوام اور خود عمران خان کی پارٹی کے لوگوں میں خان صاحب کا
سیاسی وژن، معاشی سمت اور تزویراتی راہ واضح نہیں ہے ۔اور اس کا سبب خود
خان صاحب کا ذہن واضح نہ ہونا ہے
عمران خان صاحب کے بہت قریب اور باخبر وزیر نے ایک غیر ملکی کو انٹر ویو
دیتے ہوئے اپنے لیڈر کے بارے میں کہا :
He is selling pakistanis, a dream but he is not a con man. Khan, to me,
is not an ideoligist or a popupist ,but a genius at PR. |