فیضانِ رضا اور کرامت مفتی اعظم ہیں حضور شیر بہارؒ

گردش ایام سے افق کائنات پرکچھ ایسی مایہ نازاوریکتائے روزگارشخصیتیں جلوہ بارہوئی ہیں جن کے علمی وفکری اورعملی کارنامے تاریخ انسانیت کے لئے اصول ورہنمااورآنے والی ذاتوں کے لئے لائق فخراورقابل تقلیدثابت ہوئے ہیں۔جن کی فقاہت وذہانت ،حق گوئی،بے باکی،بالغ نظری،اصابت فکری اورمحققانہ صلاحیت جیسی تمام خصوصیات ایک عالم کودرخشاں وتابندہ کئے رہتی ہے،ایسی ہی ہستیوں میں شہسوارمیدانِ علم وفضل،کشورفقہ وحدیث کے نیرتاباں،معقولات ومنقولات کے بحرذخارونابغۂ روزگار،وحیدالعصر،خلیفۂ حضورمفتی اعظم ہندؒ،محبوب قطب مدینہ،سلطان الاساتذہ،بقیۃ السلف،مفتی اعظم بہار،مقتدائے دین وملت،مناظراہلسنت،پیرطریقت،شہربہار حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمداسلم رضوی علیہ الرحمۃ والرضوان (بانی جامعہ قادریہ مقصورپور،اورائی،مظفرپور)کی ذات بابرکات ہے۔
نام ونسب: آپ کااسم مبارک محمداسلم رضوی ہے،آپ کاشجرۂ نسب اس طرح ہے۔شیخ کرامت بن محمدقاسم بن دلجان بن عبدالرحمٰن بن محمداسحٰق بن محمداقبال بن محمدیٰسین بن محمداسمٰعیل بن مفتی محمداسلم رضویؒ۔جبکہ آگے چل کرسلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل ہونے کے بعدلفظ رضوی ہمیشہ کے لئے آپ کے نام کاایک جزبن گیا۔لفظ رضوی کے تعلق سے خودآپ کابیان ہے کہ درحقیقت میرے پیرومرشدقطب عالم سرکارمفتی اعظم ہندقدس سرہ کے دربارفیض بخش کی عطاہے۔واقعہ یہ کہ ایک بارمیں نے اپنے کسی مضمون کے ساتھ اپنانام محمداسلم نوری لکھاتھاسرکارنے جب اسے ملاحظہ فرمایاتوانہوں نے لفظ’’نوری‘‘کوہالہ کی شکل دے کراس کے قریب ہی لفظ ’’رضوی‘‘تحریرکردیا۔
جائے پیدائش: حضرتشیربہارؒکاآبائی گاؤں مہوارہ ہے جو’’اترار‘‘پنچایت قدیم بلاک ’’کٹرہ‘‘ اورموجودہ بلاک اورائی ضلع مظفرپور(بہار)میں واقع ہے۔یہ گاؤں اورائی بلاک سے 3؍کیلومیٹرکے فاصلے پرسمت جنوب میں مغربی کنارے آبادہے۔مہوارہ کی آبادی بشمول اطراف واکناف ہمیشہ سے بربادی کی شکاررہی ہے۔کیونکہ اس کامحل وقوع باگمتی ندی سے متصل ہے۔عرصہ دراز سے سیلاب کی شدت قہرکاپوری دلیری کے ساتھ مقابلہ کرنے والایہ تاریخی گاؤں اب پوری طرح سرکاری اسکیم کے تحت باندھے گئے ندی کے دوطرفی باندھ کے نشانے پرآچکاہے۔اس باندھ نے تمام ساحلی بستیوں کی طرح ’’مہوارہ ‘‘کوبھی باگمتی کے اضافی دائرہ حدودمیں شامل کردیاہے۔حضرت شیربہارؒکی پیدائش آپ ؒ کے اسی آبائی گاؤں میں ہوئی تاریخ پیدائش کے تعلق سے خودفرماتے ہیں کہ:’’میری والدہ ماجدہ کے بقول میری پیدائش غالباًماہ رمضان المبارک۱۳۵۳؁ھ مطابق ۱۹۳۴؁ء میں ہوئی۔مرحومہ اکثرفرمایاکرتی تھیں کہ ۱۹۳۴؁ء کے مشہورزمانہ زلزلہ کے وقت اسلم کچھ ہی ماہ کاشیرخواربچہ تھا اسی بنیادپربچپن میں بہت سے لوگ مجھ کو’’زلزلیا‘‘(زلزلہ کے سال پیداہونے والا)کہ کرپکارتے تھے‘‘۔
تعلیم وتربیت: آپؒ نے جیسے ہی ہوش سنبھالاتعلیم وتربیت کے لئے گاؤں کے مکتب میں آپ کی حاضری شروع ہوگئی مولوی نثارالدین اتراروی اس دورمیں مہوارہ مکتب کے معلم تھے انہوں نے آپ کی خدادادذہانت وفطانت کے سہارے بہت جلدقاعدہ بغدادی ختم کرادیا۔آپ جب بھی ددری گئے تعلیم سے کبھی غافل نہ ہوئے ۔ددری سے ملحق مغرب کی طرف موضع بہورَارمیں ایک مکتب کچھ عرصہ سے قائم تھاجہاں آپ روزانہ اپنے ننھیال کے بچوں کے ساتھ ایک کیلومیٹرکافاصلہ طے کرکے وہاں کے معلمین سے پورے ذوق وشوق کے ساتھ درس لیتے رہے۔آپ کوچھوٹی عمرمیں ہی تعلیم سے عشق ہوگیاتھاآپ کے عم زادمولوی عبدالسلام مرحوم کوآپ کاشوق فراواں دیکھ کربہت خوشی حاصل تھی۔وہ آپ کے بہنوئی بھی تھے اورمدرسہ چشمۂ رحمت غازیپور(یوپی)میں منشی کاکام انجام دیاکرتے تھے۔منشی صاحب آپ کولے کرغازیپورآگئے اورآپ کویہاں کے معلمین کے سپردکردیااس وقت آپ کی عمرشریف فقط آٹھ ،نوبرس کی تھی۔اس طرح چشمۂ رحمت سے سیراب ہونے کاآپ کوسنہراموقع ہاتھ آیا۔فارسی کی جملہ متداول کتب بحسن خوبی آپ نے غازیپورمیں مکمل پڑھ ڈالیں۔چشمہ ٔرحمت کے اساتذہ آپ پربے حدمہربان تھے۔انہوں نے تعلیمی اوقات کے علاوہ بھی آپ کوپڑھانے اورپروان چڑھانے میں پوری دلچسپی دکھائی حضرت شیربہارؒکے ساتھ درجے کی کوئی پابندی نہ تھی بلکہ آپ اپنے مشفق اساتذہ سے ایک کے بعدایک کتابیں پڑھتے اورآگے بڑھتے چلے جاتے تھے۔ابتدائی کتب مثلاًنحومیر،پنج گنج،غازیپورمیں پڑھنے کی سعادت پائی۔پھردارالعلوم مؤ(یوپی)میں ہدایۃ النحو اورشرح جامی اوردارالعلوم رڑکی ضلع سہارنپورمیں ہدایہ اولین،دیوان متنبی وغیرہ اورقرأت وتجویدکی تعلیم حاصل کی ،پھرمدرسہ اشرفیہ مصباح العلومبارکپور(یوپی)میں حضورحافظ ملتؒ،علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمیؒاورعلامہ غلام جیلانی اعظمیؒ سے مشکوٰۃ شریف،مُلّاحسن،دیوان حماسہ وغیرہ کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔بعدبقرعیدجب اعظمی صاحبؒ نے مبارکپورکوخیرآبادکہ کراحمدآبادمیں منصب تدریس کوزینت بخشی توان کے ساتھ آپ بھی وہیں منتقل ہوکرہمہ تن مشغول تعلیم ہوگئے۔لیکن اس موقع پرآپ زیادہ نہ ٹک سکے کیونکہ ایک دن اچانک ایک ایسی غیبی آوازمحسوس ہوئی جس نے آپ کوفوراًگھرلوٹنے پرمجبورکردیا۔آپ ابھی احمدآبادہی میں مغرب کی نمازمیں مشغول تھے جیسے ہی سجدے میں گئے کہ کسی نے آپ کی پیٹھ پرہاتھ رکھ دیااوربولاکہ تمہارے والدمحترم کاانتقال کی ہوگیاہے۔اتناسننے کے بعدآپ کی کیفیت بدل گئی اورسجدہ بہت طویل ہوگیا۔پھراعظمی صاحب نے خودہی آپ کوسجدے سے اٹھایااورطویل سجدے کی وجہ پوچھی توآپ نے روتے ہوئے کہاکہ میرے والدصاحب انتقال کرگئے لہٰذامیں گھرجاناچاہتاہوں اورپھرساراماجراکہ سنایا،انہوں نے قدرے تأمل کے بعداجازت مرحمت فرمادی۔آپ وہاں سے کھوئے کھوئے گھرتشریف لائے اوروالدۂ ماجدہ سے لپٹ کربے اختیاررُونے لگے،آپ کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ انتقال کے چوتھے دن آپ کی آمدہوئی جب کہ یہاں والدمرحوم کے ایصال ثواب کی تقریب کاسلسلہ جاری تھا۔
والد کاانتقال عجیب سانحہ تھاجس نے آپ کوجھنجھوڑکررکھ دیاتھا۔بعض ضروری امورکوانجام دینے والاآپ کے گھرمیں اب آپ کے بعدکوئی نہ تھا۔یہ وہ نازک گھڑی تھی کہ آپ اپنی تعلیم کاخیال کرکے گھنٹوں تفکرات میں گم ہوکررہ جاتے کچھ عرصہ بعدجب آپ کی زندگی معمول پرآئی تویکے بعددیگرے برہمپورمظفرپوراوردربھنگہ کے تعلیمی سفرپرروانہ ہوئے مگروہاں کے ناموافق حالات کی بنیادپردونوں جگہیں آپ کوناپسندہوئیں پھرآپ نے دوبارہ بعدرمضان احمدآبادکارخ کیااورذی الحجہ تک وہاں آپ کاتعلیمی شغل رہا۔ادھرکچھ دنوں پہلے حضورمفتی اعظم ہندعلیہ الرحمہ کی خدمت میں جوآپ نے داخلہ کی درخواست ارسال کی تھی وہ بریلی شریف میں موصول ہوچکی تھی اوروہاں منظوری نامہ آپ کے نام روانہ ہوچکاتھا۔پھرجیسے ہی آپ کویہ منظوری نامہ دستیاب ہوافوراًبریلی شریف کے لئے پابہ رکاب ہوگئے اورموجودہ اساتذۂ کرام کی دعاؤں کے ساتھ احمدآبادسے چل کرمظہراسلام بریلی شریف میں داخل ہوئے۔حضورمفتی اعظم ہندؒکی نگاہ کیمیااثرنے پہلی ہی دفعہ میں پہچان لیااورفرمایاکہ:’’یہ نوعمرلڑکااپنے وقت کاعظیم محقق ومدقق ہوگا اس کے فیضان نظرسے ہزاروں گم گشتہ گان راہ،جادہ حق سے ہمکنارہوں گے‘‘۔
انہوں نے حکم دیاکہ’’تمہاری رہائش کاانتظام فی الحال مفتی افضل حسین صاحب مونگیری ؒکے ساتھ مرکزی دارالافتاء میں رہے گا‘‘۔پھرکچھ عرصہ بعدصوفی مسجدمیں آپ کی جاگیرلگوادی گئی اورآپ اس مسجدکے امام وخطیب مقررہوگئے۔مشاہرہ کے بارے میں آپ بتاتے ہیں کہ ۳؍روپے سے شروع ہوکر۱۵؍روپے ماہانہ مجھے وصول ہوتارہا۔حضورشیربہارؒکامعمول تھاکہ مسجدومدرسہ کے ضروری اوقات کے علاوہ آپ کے اکثرلمحات سرکارمفتی اعظم ہندؒکی خدمت میں بسرہوتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :سرکارمفتی اعظم ہندؒفتاویٰ نویسی جیسے اہم کاموں میں دیررات تک مشغول رہاکرتے تھے۔میں اس وقت تک ان کی بارگاہ میں حاضررہاکرتاتھاجب تک ان کونیندنہ آاجاتی ۔اس دوران مجھ کو’’قدوری‘‘کاخصوصی درس بھی دیاکرتے تھے۔جب تمام علوم ظاہری اورباطنی سے فارغ ہوگئے توپھرمظہراسلام بریلی شریف کے سالانہ اجلاس میں علماء کرام کے مقدس ہاتھوں سے دستارفضیلت سے نوازاگیا۔بعدفراغت وامتحان جب آپ اپنے گاؤں واپس آئے توہرطرف خوشیوں کی برسات ہونے لگی۔آپ کی والدہ نے ایک عظیم الشان محفل عیدمیلادالنبی ﷺ کااہتمام کرایا۔مولانانعیم الدین نعمت ؒ،مولانازبیراحمداترارویؒاوردیگرعلمائے کرام کی تقریریں ہوئیں۔مہمانوں کی ضیافت میں ۳؍بکرے ذبح ہوئے آپ کی ہمشیرہ کابیان ہے کہـ'' گاؤں میں یہ اپنی نوعیت کاواحدپروگرام تھا'' ۔
درس وتدریس اورجامعہ قادریہ کاسنگ بنیاد: حضرت شیربہارؒنے ۱۹۵۵؁ء مطابق ۱۳۷۵؁ھ میں دارالعلوم مظہراسلام میں سرکارمفتی اعظم ہندؒکے حکم پر درس وتدریس کاآغازفرمایااورکئی سال تک لگاتارمظہراسلام میں طلبہ کوبادہ علم وعرفاں سے شادکام کیا۔حضرت شیربہارؒاپنے زمانۂ تدریس میں جہاں کہیں بھی رہے اپنے اساتذۂ کرام سے کبھی رابطہ وتعلق نہ توڑا،بلکہ حسب ضرورت اُن سے علمی استفادہ فرماتے رہے۔آپؒکوتفسیرقرآن کریم،حدیث مبارکہ،فقہ،اصول فقہ،نحو،صرف،منطق اورعربی ادب میں یکساں طورپر مہارت تامہ حاصل تھی لیکن علم فقہ سے آپؒ کو خصوصی شغف تھا،فتاویٰ نویسی کافن آپ نے براہ راست سرکارمفتی اعظم ہندؒسے سیکھااورسیدافضل حسین مونگیریؒکے زیرتربیت بہت جلدفقہی کمال حاصل کرلیا،مرکزی دارلافتاء بریلی شرف نے آپ کونکھارنے میں بہت فراخ دلی سے کام لیا۔۱۹۶۷؁ء ۱۳۸۷؁ھ میں حضورمفتی اعظم ہندؒاوردوسرے مقدس علماء کرام کے مبارک ہاتھوں سے حضرت شیربہارؒنے مقصودپور،ضلع مظفرپورکی سرزمین پرجامعہ قادریہ کے نام سے ایک عظیم الشان ادارہ کی سنگ بنیادڈالی جوکم عرصے ہی میں اپنے ٹھوس نظام تعلیم وتربیت کے سبب ریاستی سطح پرشہرت پالیااورجوق درجوق تشنگان علوم نبویہ کاہجوم جامعہ قادریہ میں حضرت شیربہارؒکے فیض سے مستفیض ہونے کے لئے آنے لگے ۔آج اس جامعہ سے ہزاروں کی تعدادمیں علماء اورحفاظ فارغ التحصیل ہوکرخدمت دین میں لگے ہوئے ہیں۔
تصنیف وتالیف: تصنیف وتالیف سے حضرت شیربہارکاگہراتعلق رہاہے اورآپ نے اس میدان میں عظیم کارنامے انجام دیئے ہیں۔ابتداء میں جوکتابیں آپؒ کے نوک قلم سے وجودمیں آئیں وہ منظرعام پرآنے سے پہلے ہی نایاب ہوگئیں،آپ کی تصنیفات یہ ہیں:(۱)اسلم الحواشی شرح اصول الشاشی،یہ آپ کے اولین زمانۂ تدریس کی یادگارتھی پہلے آپ نے متن کااردوترجمہ لکھااورشرح لکھنے میں یہ التزام رکھاکہ ہرمسئلہ پراعلیٰ حضرت کی تحقیقات کوان کی کتابوں سے ڈھونڈکرپیش فرمایا۔(۲)بوئے سخن شرح ملّاحسن،یہ کتاب بھی آپ کے بریلی شریف میں قیام کے دَورکی نشانی تھی منطق کی اعلیٰ کتابوں میں درج مختلف آرانقل کرکے آپ ان پراپنی رائے گرامی قلمبندکرتے چلے جاتے تھے،۔جب یہ شرح حضرت مفتی افضل حسین صاحبؒ کی نگاہوں سے گزری تووہ حیران رہ گئے۔ (۳)چالیس احادیث،ا س کتاب میں حضرت نے احادیث کی ترجمانی فرمائی ہے اورمختصرتشریح وتوضیح بھی۔(۴)حسام الحرمین پراعتراضات کے جوابات، یہ آپ کاایک تحقیقی رسالہ ہے،جس میں آپ نے حسام الحرمین کے معرضین کودنداں شکن جواب دے کران کاناطقہ ہمیشہ کے لئے بندکردیاہے۔(۵)فتاویٰ برکات نوری،یہ کتاب آپ کی شاہکارتصنیف ہے جس کوآپ کے فرزندسوم مفتی محمداحسن رضوی نے کئی ضخیم جلدوں میں مرتب کیاہے جوابھی طباعت کے مرحلے میں ہے البتہ اس کی ایک جھلک مختلف ناموں سے دوبارشائع ہوچکی ہے۔کتابوں کے علاوہ آپ کے کئی مقالات بھی شائع ہوچکے ہیں مثلاًسرکارمحبیٰ ؒکے عنوان سے آپ کاایک مضمون ماہنامہ پیرطریقت پوکھریرامیں شائع ہوا۔کچھ ماہنامے خود آپ کی صدارت میں بھی نکل چکے ہیں جن میں ماہنامہ صداقت الٰہ آبادبھی شامل ہے۔بہت سی کتابوں پرتقاریظ وتصدیقات بھی لکھی ہیں جن کی فہرست یہ ہے۔٭خون کے آنسو(قدیم نسخہ)٭صلاحِ دین٭نجات یافتہ فرقہ کون؟٭وقف بورڈ اورتنظیم ائمہ٭عین العروض٭السلام علیک۔
معمولات ووَظائف اوربیعت وخلافت: حضرت شیربہارؒکی پوری زندگی عبادت وریاضت کی حسین مرقع نظرآتی ہے۔جملہ فرائض ونوافل کے شایان شان اہتمام کے ساتھ مستحبات پربھی عمل کاقابل تقلیدجذبہ آپ کاوصف خاص تھا۔عمرکے آخری چندبرسوں میں طبیعت علیل ہونے کی وجہ سے اگرچہ آپ کے معمولات نظام کوقدرے متأثرکیامگرپابندی ٔ نمازاوردیگراہم وظائف کی ادائیگی میں کبھی خلل واقع نہ ہوا۔اوربقول حضرت خواجہ مظفرحسینؒرضوی پورنوی ’’حضرت شیربہارؒزمانۂ طالب علمی ہی سے نمازتہجدکے پابندرہے ہیں‘‘۔ریاضت ومجاہدہ میں ایسی باکمال شخصیت کاوجودواقعی ملت اسلامیہ کے لئے نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں تھایہی وجہ ہے کہ پوری خلقت آپ سے ہراندازمیں فیضیاب ہوئی اورآپ کواس دورکازندہ ولی تصورکیاہے۔حضرت شیربہارؒکوحضورمفتی اعظم ہندؒ،حضورمجاہدملتؒاورحضرت سبطین رضاخان بریلویؒجیسی بزرگ شخصیتوں سے اورادووَظائف کی خصوصی اجازت حاصل تھی۔حضرت شیربہارؒجوں ہی داخل سلسلہ قادریہ ہوئے توآپ کی زندگی میں ایک خاص قسم کاانقلاب آگیاپھرکچھ ہی عرصہ بعدآپ کے اوپرروحانیت کاغلبہ دیکھ کرسرکارمفتی اعظم ہندؒنے سلسلہ قادریہ اورجملہ سلاسل کی خلافت واجازت مرحمت فرمادی۔

وصال پرملال: ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۲؁ء مطابق ۲۰؍محرم الحرام ۱۴۳۳؁ھ جمعہ کی رات کواچانک آپ پرعلالت کانزول ہواجومختصرعرصہ کے بعدجان لیواثابت ہوئی کس کوخبرتھی کہ اپنے وجودکی
برکتوں سے فیض کادریابہانے والااب عنقریب ہم سے روپوش ہوجائے گااورایک ایساخلاچھوڑجائے گاجوکبھی پرنہ ہوسکے گا۔۲۱؍دنوں تک I.C.Uمیں زیرعلاج رہے علاج کے دوران اسپتال میں عیادت کے لئے عقیدت مندوں کاروزانہ میلالگارہاآپ کودیکھنے جہاں علماء ومشائخ کاطبقہ آیاوہیں سیاسی وسماجی سطح کے لوگ بھی پہنچے اورپورے ملک میں آپ کی جلدصحت یابی کے لئے دعائیں ہوتی رہیں۔علمی ادبی حلقوں ،دینی درسگاہوں اورخانقاہوں میں منعقددعائیہ نشستوں کی رپوٹیں بھی اردوہندی اخبارات نے تواترکے ساتھ شائع کیں۔لوگوں کی آمدورفت کاسلسلہ دیکھ کراسپتال کاعملہ بھی حیرت زدہ رہ گیاانہوں نے کسی مریض کے تئیں لوگوں کایہ والہانہ اندازپہلی باردیکھاتھا۔علالت کے دوران ایک خاص بات یہ بھی نوٹ کی گئی کہ سخت بے ہوشی کے عالم میں بھی آپ کی بعض انگلیاں متحرک رہیں جیساکہ وظیفہ پڑھتے وقت زندگی بھرآپ کامعمول رہا۔الغرض ڈاکٹروں کی جانب سے مایوس کن جواب پاکر۶؍جنوری ۲۰۱۲؁ء ۱۱؍صفرالمظفر۱۴۳۳؁ھ جمعہ کی شب میں آپ کوواپس لایاگیااورجیسے ہی جامعہ قادریہ میں آپ کے حجرہ شریف میں آپ کولٹایاگیاکہ اسی دم 2.35پرآپ کی روح بارگاہ قدس میں پروازکرگئی۔ (اِناللّٰہ واِناالیہ راجعون)۔غسل وکفن کے بعدآپ کے جسم اطہرکوتابوت میں رکھاگیااورلاکھوں کندھوں سے گزرتے ہوئے آپ کاتابوت ’’اورائی‘‘ہائی اسکول کی فیلڈمیں پہنچا1:25پرنمازجنازہ اداہوئی۔نمازجنازہ آپ کے تیسرے صاحبزادہ مفتی محمداحسن رضوی نے پڑھائی ،نمازجنازہ میں تین لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔جامعہ کے باب مفتی اعظم ہندکے عین متصل مقام پرآپ کونم آنکھوں سے سپردخاک کیاگیا۔اورآج 11 ؍صفرالمظفرکوہرسال بڑے ہی تزکو واحتشام کے ساتھ مقصودپور،اورائی،ضلع مظفرپور(بہار)میں عرس اسلمی کاانعقادہوتاہے سیکڑوں ملک وبیرون ملک کے نامورعلماء،خطباء اورشعراء آپ کی بارگاہ عالی میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے حاضرہوتے ہیں اورلاکھوں کی تعدادمیں لوگ آپ کی بارگاہ میں پہنچ کرآپ کے فیض سے مستفیض ہوتے ہیں۔آخرمیں مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاء گوہوں کہ آپؒ کافیضان ہم تمام مسلمانوں پرتاقیامت جاری وساری فرمااوران نفوس قدسیہ کی سچی الفت و محبت عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین۔

محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ
About the Author: محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ Read More Articles by محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ: 87 Articles with 78166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.