صفر المظفراسلام کی نظر میں

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ:
صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے اسلام کے آنے سے پہلے بھی اس مہینے کا نام صفر ہی تھا۔ اسلام نے اس کے نام کو برقرار رکھا۔ (اسلامی مہینوں کے احکام)
صفر کی وجہ تسمیہ:
لغت میں اس نام کی مختلف وجوہات ملتی ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) صفر یرقان کی بیماری کو کہتے ہیں۔
(۲) صفر کسی چیز کے ’’خالی‘‘ ہونے کو کہتے ہیں۔
(۳) صفر ایک سے دوسرے کو لگنے والی (متعدی) بیماری کو بھی کہتے ہیں۔(تکملہ فتح الملم، مرقات شرح مشکوٰۃ)

زمانہ جاہلیت اور صفر کا مہینہ:
اسلام سے پہلے اس مہینے کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں، مثلاً
(۱) لوگوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اس مہینے میں سفر وغیرہ نہیں کرتے تھے۔ (مومن کے ماہ وسال)
(۲) وہ اس مہینے کو جنگ وجدال کا مہینہ شمار کرتے تھے۔ اور جوں ہی محرم کا مہینہ ختم ہوجاتا تھا، آپس میں جنگ شروع کردیتے تھے۔
(تفسیر ابن کثیر )
(۳) جب انہیں محرم کے مہینے میں، جس میں جنگ حرام تھی، جنگ کرنا ہوتی تو وہ اس مہینے کا نام بدل کر صفر رکھ لیتے تھے اور ایک مہینے کی جگہ دوسرا مہینہ قرار دینے کا اختیار انہوں نے اپنے سرداروں کے سپرد کررکھا تھا،جو اعلان کردیتے تھے کہ اس مرتبہ محرم کا مہینہ بعد میں آئے گا،اس کی جگہ صفر کا مہینہ پہلے آگیا ہے (وغیرہ) اس طرح کے تصورات کو ’’نسیئی‘‘ کہتے ہیں، قرآن نے اس کی مذمت فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: انماالنسیئی زیادۃ فی الکفر الخ (سورۃ التوبہ آیت نمبر ۷۳)
ترجمہ: بلاشبہ حرمت والے مہینوں کو بدل دنیا تو کفر میں اضافہ کرلینا ہے۔

صفر میں ہونے والے تاریخی واقعات
اس مہینے میں کئی اہم واقعات پیش آئے، جن کی وجہ سے اس مہینے کو تاریخ اسلام میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں سے چند واقعات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) اسلام کا پہلا جہاد، جس میں حضور ﷺ نے بنفس نفیس شرکت کی، صفر کے مہینے میں پیش آیا۔
(۲) حضور اکرم ؓ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کی قیادت میں لشکر 27 صفر المظفر کو ترتیب دیا، یہ آپ ﷺ کا ترتیب دیا ہوا آخری لشکر تھا۔
(۳) حضور ﷺکے مرض الوفات کا آغاز صفر کے آخری ہفتے میں ہوا۔
(۴) سب سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد کا حکم صفر المظفر کے مہینے میں نازل ہوا۔
(۵) حضور اکرم ؓ نے حضرت صفیہ نبت حییّ رضی اﷲ عنہا سے اسی ماہ میں نکاح فرمایا۔
(۶) حضرت عمرو بن العاص، حضرت خالدبن مغیرہ، حضرت جمرہ بن نعمان اور حضرت ثمامہ بن اثال رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین اسی مہینے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
(۷)قرارداد پاکستان صفر۰۵۳۱ھ میں منظور کی گئی۔
(۸) امام احمد بن حنبل کو کوڑے صفر۰۲۲ھ میں لگائے گئے۔
(۹) حضرت عبدالرحمن بن عوف (م32ھ)، حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ (م 30ھ)، حضرت امام نسائی (م 303ھ)، علامہ نووی (م 276ھ)، حضرت مجد دالف ثانی (م 1034ھ) شیخ الہند حضرت مولانا محمود(۱) ماہ صفرحسن دیوبندی (م 1339ھ) اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی (م1369)
صفر المظفر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو انتہائی منحوس تصور کیا جاتا ہے اور ان دنوں میں نہ صرف یہ کہ شادی، بیاہ اور سفر وغیرہ سے گریز کیا جاتا ہے بلکہ بعض مقامات پر تیرہ تاریخ کو چنے ابال کر اور بعض جگہوں پر چوری بنا کر تقسیم کی جاتی ہے۔ اب تو رفتہ رفتہ پورے صفر کے مہینے کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا گیا ہے اور پورے مہینے کو منحوس سمجھ کر اس میں کسی بھی نئے کام کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بظاہر وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان تیرہ دنوں میں حضور اکرم ؓ کے مرض الوفات میں شدت آگئی تھی، لہٰذا صفر کے ابتدائی تیرہ دن اور ان کی وجہ سے پورا مہینہ منحوس اور ہر قسم کی خیر و برکت سے خالی ہے۔ حالانکہ اس بات کی کوئی اصل نہیں۔ بلکہ آپ ا کے مرض میں شدت صفر کے آخری ایام میں پیدا ہوئی تھی، جس کا ذکر آگے آتا ہے۔

ماہ صفر المظفر اور دورِ حاضر کی خرافات
اسلامی مہینوں میں ماہ صفر المظفر ماہ ثانی ہے احادیث و تاریخ کی رو سے اس ماہ کی کوئی خاص فضیلت نہیں ملتی اور غالباً اسی وجہ سے عوام عامہ میں اس ماہ کو نزولِ بلاؤں، منحوس اور غیر برکت تصور کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت اس ماہ کو منحوس سمجھنا اس میں کوئی بھی خوشی نہیں کرنا، یہ جہالت ہے زمانہ قدیم جہل کی پیروی ہے کیونکہ قرآ ن و احادیث اس کے بر عکس بیان کرتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا، سمجھنا خوشی نہ کرنا، شادیاں نہ کرنا سب غلط ہے اور فرسودہ ہے ماہ صفر کو غیر محفوظ تصور کرنا بلکل غلط ہے۔ ظہور اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں لوگ اس ماہ میں جسمانی بیماری و مالی نقصان و نفع یا کسی اور تکلیف کو بد شگونی، نحوست خیال کرنا ا ور ماہ صفر کو فتنوں اور مصبتوں کا مہینہ کہتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب بے اصل ہیں اور اگر ہم اچھے اور سچے مسلمان ہو کر قرآن کو بغو ر مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کسی شخص یا چیز کو یا فال لینے کو کفار کا طریقہ کہا گیا ہے۔ عرب میں اسلام کو نور پھیلنے سے قبل دور جہالت میں فال وغیرہ کے طریقہ رائج تھے اور مختلف جانوں کی چیزوں کی حرکات سے شگون یعنی کام کرنے نہ کرنے کا فیصلہ لیتے تھے بعض لوگ الو کو منحوس سمجھتے ہیں کسی کام کو کرنے سے پہلے پرندے اڑاتے ہیں اگر وہ دائیں طرف اڑتے تو وہ کام کرتے بائیں طرف اڑتے تو نہ کرتے اور اس کام کو کرنا منحوس اور بے برکت سمجھتے۔ یہ سب غیرمسلموں اور جاہلوں کا طریقہ ہے دور جاہلیت کا رواج ہے نہ کہ ظہور اسلام کے بعد اور یہ بات احادیث کریمہ ثابت کرتی ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اﷲ والہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ عزوجل فرماتا ہے"ابن آدم زمانے کو گالی دے کر مجھے اذیت دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں ہر کام ہے میں رات اور دن کو الٹ پلٹ کرتا ہوں( بخاری شریف)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دن رات ہفتوں کو یا مہینوں کو برا کہنا بھی غلط ہے اور خواتین اس معاملے میں زیادہ احتیاط کریں کیونکہ حالات کی خرابی کی بنا پر یا عادتاً کہتی ہیں کہ کیا برا عذاب آگیا۔ کونسی بری گھڑی تھی۔ یہ منحوس دن دیکھنا بھی نصیب میں تھا ان معاملات میں احتیاط کرنا چاہیے اور کلمہ شکر ادا کرنا چاہیے، فی کل حال

اسی طرح قرآن پاک سے ثبوت ملتا ہے کہ
اسلامی ( قمری) کلینڈر چاند کی بدلتی ہوئی حالتوں کی وجہ سے معرض ِ وجود میں آتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، لوگ آپ سے چاند کے ( گھٹنے بڑھنے) کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لیے۔( سورۃ البقرہ189)
ماہ صفر کی شرعی حیثیت۔

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد جس طرح جہالت و ظلمت، کفر و شرک کی بیخ کنی کی اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اسی طرح مختلف من گھڑت رسومات و خرافات اور خود ساختہ توہمات کا بھی خاتمہ کیا۔ صفر وہ مہینہ ہے جس میں اگر چہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے معمول کی عبادات کے علاؤہ کوئی خاص عبادت نہ کی اور نہ ہمیں کرنے کا حکم دیا، مگر کسی خاص بلا یا مصیبت و پریشانی سے بچنے یا اس کے لیے کسی تدبیر کا بھی حکم نہیں دیا، حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ماہ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا، )مسلم شریف (۔

انسان کی نحوست کا تعلق اس کے اعمال کے ساتھ ہے جب کہ وہ سمجھتا ہے کہ نحوست باہر سے آتی ہیں، جس کی وجہ سے کبھی کسی انسان، کبھی کسی جانور، کبھی کسی دن اور رات کبھی کسی مہینہ اور سال کو منحوس قرار دیتا ہے۔ نحوست اور بدبختی انسان کی بدفالی اور بدشگونیوں سے ہوتی ہے جیسے اس آیت مبارکہ میں ذکر ہے، ترجمہ- اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک کتاب اس کے لیے نکال لیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا، پڑھ اپنا اعمال نامہ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے، )سورہ بنی اسرائیل (۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی نحوست اور بدبختی کا تعلق اس کے اعمال اور اس کے بدفالی اور بدشگونی سے ہوتا ہے نہ کہ کسی دن یا مہینہ یا سال سے، بدشگونی اور بدفالی تو سراسر شرک ہے جیسے سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو بدشگونی کسی کام سے روک دے تو یقیناً اس نے شرک کیا۔


 

Ibn e Yousuf
About the Author: Ibn e Yousuf Read More Articles by Ibn e Yousuf: 10 Articles with 8645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.