بینکنگ کے شعبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر
اور برانچ مینیجر کے عہدے پر منسلک ہونے کی وجہ سے خصوصی طور پر میرا رابطہ
مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والوں کے ساتھ رہتا ہے۔ پچھلے سال
جولائی سے شروع کروں تو مجھے یاد ہے کچھ کسٹمرز سے ملاقات ہوتی اور ہم ان
سے کہتے آپ اپنی انڈسٹری کا مستقبل کیا دیکھ رہے تو ملنے والے جواب ہوتے، "مشکل
وقت آنے والا ہے۔ ڈالر نے ایک سو چالیس سے ایک سو پچاس تک جانا ہے۔ ہمارے
ریزرو ختم ہو رہے ہیں اور پاکستان ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ یاد رہے یہ میں
جولائی 2017 کی بات کر رہا ہوں۔
کچھ کسٹمرز کو ہم نے کال کرنا کہ سر آپ لوگ ہماری برانچ میں کوئی ڈپازٹ دیں
یا کوئی ہم سے بزنس کریں تو انہوں نے بولنا کہاں سے کریں بھائی مارکیٹ میں
پیسہ کوئی نہیں کسٹمر کے پاس بھی کچھ نہیں۔کسٹمر چھوڑیں ملک کے پاس پیسہ
نہیں آپ دعا کریں کہ کچھ ملکی حالات بہتر ہوں کسٹمر کے پاس پیسہ آئے اور
ہمارے پاس بھی آئے تو پھر ہم نے آپ کو ہی دینا ہے اور ہم نے کیا کرنا ہے ۔یا
پھر کہتے کہ سر کاروبارکے حالات دیکھیں اور اپنی ڈیمانڈ دیکھیں کاروبار آج
کل مشکل حالات سے گزر رہے۔ میں کہتا اتنی گاہک ہیں آپ کی دکان پر تو وہ
جواب دیتے گاہک اب مارکیٹ آتا ضرور ہے لیکن اب اس کی خرید ویسی نہیں رہی۔
بس ہر وقت رونا روتے رہتے ۔لیکن اب میں دو مہینوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ
اپنی وہ کہانی جو پورے دو سال پہلے سناتے تھے اس کا ذمہ دار موجودہ گورنمنٹ
کو قرار دے رہے ہیں یہ باتیں آپ کے لیئے عجیب ہونگی، میرے لیئے نہیں۔ مسلسل
دیکھ رہا ہوں کہ دو ماہ کی حکومت کو کوس رہے کہ سب کچھ مہنگا کر دیا۔
ہماری گیس ڈسٹریبیوشن کی دو کمپنیز ہیں۔ سوئی نادرن اور سوئی سدرن۔ گیس کی
قیمتیں پچھلے پانچ سالہا رکھی گئی۔ جبکہ جو گیس ادارہ خرید رہا تھا اس کی
قیمت بڑھ رہی تھی۔ سرکاری ادارے بریک آیون پر تو چل سکتے ہیں، نقصان پر
نہیں۔ پانچ سال نقصان اکٹھا ہوا۔ اب ادارے بیٹھ گئے۔ اضافہ ناگزیر تھا۔
بطور layman آپ کو اگر معیشت کا اصول نہیں بھی معلوم تو بھی یہ بتائیے کہ
آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ کے ساتھ کہاں تک آپ چل سکتے ہیں۔
بجلی کے قیمت میں نندی پور اور نیلم جہلم کا سرچارج ہم بھگت رہے۔ نیلم جہلم
کا سرچارج ہمارے بل میں آتا مندی پور کو ہماری نسلوں نے بھگتنا۔ نندی پور
میں ہمارے ساتھ کتنا بڑا دھوکا ہوا ہے، اگر کوسنے سے فرصت ملے تو نیٹ
کھنگالیئے۔ دو گھنٹے بعد ہی آپ کے خیالات بدل جائیں گے۔
اب آپ کو اعتراض ہے کہ کاروبار پر ٹیکس کیوں لگ رہے۔ دنیا میں کون سی حکومت
ایسی ہے جو ٹیکس کے بغیر چلتی؟ آپ امریکہ برطانیہ کو ائیڈیالائز کرتے ہیں۔
ذرا جا کے دیکھیئے وہاں ٹیکس کا کیا حال ہے۔
آپ کی لاہور میٹرو پہلے دن سے خسارے میں ہے۔ حکومت اسے سبسڈی دے رہی۔ کیا
یہ سبسڈی فرشتے جنت سے لا کے دیتے؟ یہ سرکاری خزانے سے جاتی تھی۔ آپ نے
کیوں پچھلی حکومتوں میں سفری سہولتوں پر بڑا حصہ صرف کیا۔ یہی پیسے گیس
کمپنی اور بجلی کمپنیز کو کیوں نہیں ادا کیئے؟
مسئلہ یہ ہے یہاں کے لوگ چاہتے ہیں ٹیکس بھی نہ لگے، جرمانے بھی نہ ہوں،
قیمتیں بھی نہ بڑھیں، احتساب بھی نہ ہو۔
شہباز شریف کے دور حکومت کا بنا پل گر جائے تو کسی کو توفیق نہیں ہوتی یہ
سوال کرنے کی کہ یہ کیوں گرا۔ تب وہ ہر کتے بلے کی غلطی ہوتی۔ ماڈل ٹاؤن آج
تک پولیس افسران کی غلطی ہے۔
غریب لوگوں نے رونے ڈالے ہوئے مہنگائی کے۔ سب سے پہلے معذرت۔ بچوں کی لائن
لگاتے ہوئے انہیں نہ اپنا ایک کمرے کا گھر نظر اتا، نہ وسائل کی کمیابی۔ تب
اللہ پر ایمان ہوتا کہ آنے والا اپنا رزق لائے گا۔ بچوں پر پابندی لگاؤ تو
اسلام خطرے میں آ جاتا۔ پھر جب وہ فیملی جو ایک بچہ بمشکل افورڈ کرتی ہے،
دس بچے صرف اس لیئے پیدا کر بیٹھے کہ "شوہر کو منع نہیں کرنا چاہیے" تو پھر
رونا کس بات کا؟ آپ نے پیدا کرتے ہوئے اگر مستقبل کا نہیں سوچا تو پھر
شکایت کیسی؟
یہ غریب پچھلے دور حکومتوں میں بھی بھوکے اور لا علاج مر رہے تھے۔ لیکن کسی
کے کان پر جوں نہیں رینگی تھی۔ کسی کو وہ تصاویر دکھ نہیں دیتی تھی جو
ہسپتالوں کے وارڈ سے جاری ہوتی۔
تجاوزات پر یہاں عجیب ہلڑ بازی شروع ہے۔ تجاوزات غیر آئینی ہیں۔ ڈکٹیٹر کو
آپ معاف نہیں کرتے۔ تجاوزات چونکہ آپ کے مفاد میں ہیں اس لیئے اس کی سرکوبی
آپ کو ناگوار ہے۔ شام لاٹ کی زمینوں پر بیٹھے لوگ گاؤں سے آ کے شیروں میں
بس گئے ہیں۔ نہ رہنے کا انتظام نہ کمائی کا بس قبضہ کیا اور آباد ہو گئے۔
آپ کہتے ہیں امیروں کو کچھ نہیں کہا۔ اسلام آباد کا میکڈونلڈ توڑا گیا۔
وہاں کسی غریب نے سینہ کوبی نہیں کی۔ وہ مفت بنا تھا؟ شہر اپنی گنجائش سے
زیادہ بسا ڈالے گئے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی سوال نہیں۔۔
آپ کی غرض یہ ہے کہ بس کسی طرح یہ حکومت چلی جائے۔ لٹیرے مسلط ہو جائیں اور
آپ کی آنا مطمئن ہو جائے۔
|