ملک بھر میں خسرہ سے بچاؤ کی خصوصی مہم جاری ہے محکمہ صحت
کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق بتایا جاتاہے کہ والدین اپنے 9 ماہ سے 5
سال تک کے بچوں کو حفاظتی ٹیکے جات کے مراکز میں لا کر خسرہ سے بچاؤ کا
ٹیکہ ضرور لگوائیں،ہمیں اپنی آنے والی نسل کو صحت مند رکھنے کے لئے اس کی
پرورش اور صحت پر بھر پور توجہ دینی چاہئے انسداد خسرہ مہم کا مقصد نئی نسل
کو صحت مندماحول فراہم کرنا ہے اس ضمن میں کسی بھی جانب سے کہی جانے والی
منفی باتوں پر بالکل بھی توجہ نہیں دینی چاہئے کیونکہ یہ تمام تر حفاظتی
ٹیکے اور ویکسین کے کورس بچوں کی صحت کے لئے بے حد ضروری ہیں۔کیونکہ خسرہ
ترقی یافتہ ممالک میں شاذونادر ہی کسی بچے کی موت کی وجہ بنتا ہے لیکن ترقی
پذیر ممالک میں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر
ممالک میں خسرہ بہت سے بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بیماری کے عالمی اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2015 ء میں67ہزار 524 بچے اس بیماری سے متاثر
ہوئے، سن2016 ء میں یہ تعداد کم ہوکر16ہزار 846 سالانہ رہ گئی۔ اس حوالے سے
پاکستان کے اعداد و شمار کافی پریشان کن ہیں۔ پاکستان میں2011 ء میں 4386
بچے متاثر ہوئے،2012 ء میں یہ تعداد بدقسمتی سے کم ہونے کی بجائے بڑھ کر
14687 ہو گئی جبکہ 2012 ء میں 310 بچے اپنی جان سے گئے۔ 2013 ء میں حالات
مزید بْرے رہے اور25ہزار401 بچے بیماری سے متاثر ہوئے جبکہ321 بچے لقمہ اجل
بنے۔ یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ جہاں باقی دنیا میں اس بیماری کے
مریض کم ہو رہے ہیں وہاں پاکستان میں اس کے برعکس مریض بڑھے ہیں۔پچھلے سال
بحیرہ عرب کے 22 ممالک میں پاکستان6494 مریضوں کے ساتھ خسرے کے مریضوں میں
پہلے نمبر پر رہا، افغانستان 1511 مریضوں کے ساتھ دوسرے اور شام 513 مریضوں
کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ حقیقی اعدادوشمار اس
سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
ڈاکٹرز حضرات کا کہنا ہے کہ خسرہ ایک نہایت متعدی مرض ہے جو
پیرامائکسووائرس فیملی کے ایک وائرس کے ذریعہ لاحق ہوتا ہے۔ خسرہ کو
"rubeola" بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے روبیلا کے ساتھ یا نام نہاد جرمن خسرہ
کے مترادف نہیں سمجھنا چاہیے۔خسرہ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی موت
کی ایک بڑی وجہ ہے۔ 2014 میں، دنیا بھر میں خسرہ کی وجہ سے 114,900 موتیں
ہوئیں، جو کہ ہر گھنٹہ 13 موت کے برابر اور ہر دن 314 موت کے برابر ہے۔ان
کا مزید کہنا ہے کہ خسرہ کے علامات میں شامل ہیں بخار اور کھانسی اور اس کے
بدنام سرخ باد، جو عام طور پر چہرے سے شروع ہوتے ہیں۔ خاص طور سے، بخار
خسرہ کے سرخ باد سے پہلے آتا ہے؛ تاہم جب سرخ باد غائب ہو جائے تو بخار 104
فارنہائٹ (40 ڈگری سیلسیس) یا اس سے اوپر کے درجہ حرارت تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ علامات عام طور پر خسرہ وائرس کے ساتھ انفیکشن کے بعد ایک سے دو ہفتوں
میں شروع ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ دو سے تین ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ خسرہ کی وجہ سے مختلف شدت کی پیچیدگیاں لاحق
ہو سکتی ہیں، ڈائریا سے لیکر انسیپفلائٹس (دماغ کی سوجن) تک، بالغ مریضوں
کو خاص طور سے زیادہ پیچیدگیاں لاحق ہوتی ہیں۔ اگرچہ ایشیا اور افریقہ کے
ترقی یافتہ ممالک میں بیماری شاذ و نادر طور پر مہلک ہوتی ہے، لیکن شرح
اموات کم آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے
کہ پاکستانی قوم وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو محفوظ
بنانے کے لیے حفاظتی ٹیکے لگوائیں۔ اس سے نہ صرف ہماری نئی نسل اس متعدی
مرض سے محفوظ ہوگی اور بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچیں گی بلکہ اس
بیماری سے متاثر مریضوں پر خرچ ہونے والے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوگی۔
لہذا حفاظتی ٹیکے محفوظ، صحت مند، خوشحال اور معاشی طور پر مضبوط پاکستان
کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں بچے کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ اور
مستقبل ہوتے ہیں۔ پرہیز ہمیشہ سے علاج سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ خسرہ سے بچاؤ
کا ٹیکہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور پورے ملک میں بالکل مفت دستیاب ہے۔
|