کل یونیورسٹی میں ایک دوست کی ناساز طبعیت کے باعث مجھے
اس کے ساتھ ایک سرکاری اسپتال جانا پڑا۔ سرکاری اسپتالوں کی ناگزیر صورتحال
ک باعث میں نےکافی عرصے سے وہاں جانا ترک کر رکھا تھامگر کل اتفاق سے وہاں
جانے کا موقع ملا۔اسپتال کے ایک کلو میٹر پہلے ہی کچھ لوگ جو دکھنے میں
کافی خستہ حال نظر آرہے تھے سفری بیگ کے ساتھ فٹ پاتھ پر قیام پزیر تھے۔
پوچھنے پر معلوم ہوا یہ لوگ اندرونِ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں طبیّ
امداد کی قلّت کے باعث ان کو امنا علاج کروانے کراچی آنا پڑتا ہےمگر رہائش
کا بندوبست نہ ہونے کی صورت میں سڑک کنارے قیام کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کو
دیکھ کر مجھے دِلی افسوس ہوا کہ وہ لوگ ایک تو اپنی بیماری سے پریشان اور
روسرا یوں بھکاریوں کی طرح سڑک کنارے بیٹھنا کسی دردناک اذیت سے کم نہ تھا۔
میں تمام راستہ ان لوگوں کے بارے میں سوچتی رہی جب تک اسپتال کے اندر داخل
نہ ہوگئ کیونکہ اندر داخل ہوتے ہی ایک الگ اور عجیب و غریب دنیا نظر آئ جس
نے مجھے فوری طور پر اسپتال کے باہر والے مناظر بھولنے پر مجبور کردیا اندر
کے مناظر کچھ الگ ہی نظر آرہے تھے ۔ تپتی دھوپ میں شدید علیل مریض وارڈ کے
باہر کھڑے ہو کر یا تو اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے یا ڈاکٹر کی آمد کا
۔ یہ حال دیکھ کر شدید افسوس ہوا اور اس قانون ، ریاستی اداروں وغیرہ کو
خوب ملامت کیا جن کا کوئ بھی لائحہ عمل ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے کام
نہ کرسکا ۔ خیر ہم آگے بڑھے تو دیکھا کہ دو لوگ ایک مریض کو اٹھا کر ایکسرے
روم کی طرف لے جا رہے تھے اسپتال میں اسٹیچر کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو
یوں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے ۔ تو جناب یہ ہیں ہمارے اسپتال
جہاں مریض کو اس کے مرض سے ذیادہ ہوں تکلیف پہنچائ جاتی ہے جیسے تیسے کر کے
ہم اس وارڈ تک پہنچ گئے جہاں میری دوست کو اپنے ڈاکٹر سے ملاقات کرنی تھی
اس وارڈ میں داخل ہو کر جب ہم ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچے تو مناظر ہی بدل گئے
یہ معلوم ہی نہیں پڑتا تھا کہ باہر کی دنیا اور ڈاکٹر کا ملاقاتی کمرہ ایک
ہی جگہ واقع ہیں ۔ ڈاکٹر کے کمرے میں اے سی کی ٹھنڈی ہواپھیلی ہوئ تھی جس
نے ماحول کو خوش گوار بنایا ہوی تھا ٹھنڈا اور صاف ستھرا پانی ان کی میزوں
پر پڑا ہوا تھا اور دیوار پر ایل ای ڈی نصب تھا ۔ یہ سب دیکھ کر میری سوچ
کو شدید صدمہ پہنچا کہ جو مریض باہر تڑپ رہے ہیں ان کو کس گناہ کی سزا دی
جا رہی ہے مانا کہ وہ غریب ہیں اور نجیّ اسپتالوں کا آرام و سکون افورڈ
نہیں کر سکتے اس لئے سرکاری اسپتالوں کی جانب رخ کرتے ہیں تو کیا ان کو
آرام کا حق حاصل نہیں ہے ان کو یوں باہر تڑپتا چھوڑ کر ڈاکٹر خود ٹھنڈے
کمروں میں برجمان ہیں اور چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں کیا اس لیے کہ ڈاکٹر
چار کتابیں پڑھ کر ڈگریاں لے کر اسپتال آیا ہے اس لیے اس کو عیش و آرام
مہیا کیا جائے گا اور مریض کی غلطی یہ یے کہ وہ بیمار ہی کیوں ہوا اس لیے
اس کو اور تڑپایا جائے گا ۔ تو جناب یہ یے ہمارا معاشرہ جہاں تعلیم ذہنوں
میں اتنا فرق ڈال دیتی ہے کہ انسانیت دم توڑنے لگتی ہے ۔ اب یہاں سوال یہ
اٹھتا ہے کہ ذمّہ دار کون؟ کیا کوئ ہے ان اسپتالوں پر توجہ دینے والا ؟
نجّی اسپتالوں میں کیوں مریض کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا جاتا ہے ۔ مریض
کو دی گئ چھوٹی سی گولی سے لے کر اس کی خوراک سب ڈاکٹر کی نگرانی میں ہوتی
ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض ان سب خدمات کی ادائیگی کر رہا ہے اس لئے ڈاکٹر
جوابدہ ہوتا ہے مریض کو بھی اور اسپتال انتضامیہ کو بھی اور اسپتال
انتضامیہ بھی چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھتی ہے اور اس امر کو یقینی
بناتی ہی کہ مریض کو مکمل آرام و سکون حاصل ہو تاکہ کسی بھی قسم کی پیچیدگی
سے بچا جا سکے ۔ لیکن ہمارے سرکاری اسپتال ان تمام فکروں سے آزاد ہیں نہ تو
ان کو پوچھ گچھکا ڈر ہے نہ مریض کے آرام کا کوئی خیال ۔ فرق صرف پیسے کا ہے
نجّی اسپتال کا رخ کرنے والوں کے پاس پیسہ ہے اور سرکاری اسپتال جانے والوں
کے پاس نہیں لیکن انسانی جان کی کیا قیمت ہے اس سے وہ نا واقف ہیں ۔
انتخابات سے پہلے ایک ہی نعرہ گونجتا ہے کہ ہمیں ووٹ دو تبدیلی ہم لا ئیں
گے مگر جو عوام ان کو ووٹ دے کر اقتدار میں لاتی ہے وہ یونہی دھکے کھاتی ہے
اور اپنے حقوق سے محروم ہوجاتی ہے ۔ خدارا اپنے حقوق کو سمجھیں اور آواز
اٹھا کر دوسروں کو بھی سمجھائیں۔
|