نئے پاکستان کی تعمیرکے نعرے پرمنتخب ہونے والی حکومت کے
27دنوں بعدوزیرخارجہ شاہ محمودقریشی ایک اعلیٰ سطحی وفدکے ہمراہ پڑوسی
برادرملک افغانستان کا چندگھنٹوں کاپہلااہم دورہ ٔ کرنے کامقصدجہاں اہم
ہمسایہ ملک اوردنیاکوپاکستان کی امن کی خواہش کاپیغام دینامقصودتھا وہاں
امریکی وزیرخارجہ پومپیوکے ساتھ چندگھنٹوں کی ملاقات کی روشنی میں اپنی نئی
حکومت کی نئی پالیسیوں کی یقین دہانیاں کروانابھی ایجنڈے میں شامل تھا۔
دراصل پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ پومپیوکوایک امریکی فوجی اعلیٰ
عہدیدارکے ہمراہ بطورخاص بھجوایاگیاتھاتاکہ نئے حالات میں اورپاکستان کی
نئی حکومت کے ساتھ دوٹوک اندازمیں خطے میں امریکی مفادات کیلئے بات کر
سکیں۔اگریہ کہاجائے کہ امریکی وزیرخارجہ کادورۂ پاکستان اس مرتبہ
روایتی''پریشر میزائل''پر سوارہوکراسلام آبادآئے توغلط نہ ہوگاکہ اس دورے
کی آمدسے محض چاردن قبل امریکانے بلاجواز طورپرپاکستان کے کولیشن سپورٹ
فنڈکے 300ملین ڈالراورپاکستانی فوج کے تربیتی پروگرام منسوخ کرنے کااعلان
کردیاتھاتاکہ پاکستان کواپنی ڈومور سٹرٹیجی کے تابع کرنے کیلئے اس حربے
کوبھی اختیار کر سکے ۔ سیاسی اوردفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق شاہ
محمودقریشی کادورۂ افغانستان امریکی وزیرخارجہ پومپیو کے دورۂ کے جواب
میں کیاگیاہے۔
دلچسپ امریہ ہے کہ امریکااوراس کی ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی نومنتخب
حکومت کے ساتھ پہلے باضابطہ رابطے اورڈائیلاگ سے پہلے دباؤ آزمانہ ضروری
محسوس کیاتاکہ مائیک پومپیو اوران کی ہمراہی میں ہونے والے ایک امریکی
جرنیل کادورۂ امریکا کے حق میں نتیجہ خیزہو سکے،نیزبھارت میں شروع ہونے
والے پہلے دوروزہ دوجمع دومذاکرات کوایک اچھا پوسٹ مل سکے۔واضح رہے
امریکاایک جانب امریکاپاکستان کوبدترین حالت میں لانے کیلئے انتہائی
اقدامات کی حکمت عملی پرعمل پیراہے،دوسری جانب بھارت کیلئے بہترین
اورمفیدترین حکمت عملی کی تیاری ہے۔اسی لیے ایک تیرسے دوشکارکے نکتہ نظرسے
پاکستان کوکولیشن سپورٹ فنڈکے وہ واجبات بھی اداکرنے کوتیارنہیںہے
جوپاکستان نے اپنی گرہ سے امریکی خواہش اورضروریات کے تابع جاری
رکھی۔دہشتگردی کے خلاف اپنی مہم مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔بعدازاں جاری
اخراجات بھی امریکااس کے اخراجات میں اپنے حصے کی رقم اداکرنے کوتیارنہیں
بلکہ باربار روٹھ جانے کی دہمکیاں دیتارہتاہے۔
یہ محض ایک علامتی ناراضگی کااظہارنہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکادہشتگردی
کے خلاف پاکستان کی طرف سے لڑی جانے والی جنگ کوناکام کرکے خطے میں بدامنی
اوردہشتگردی کو کمزورنہیں ہونے دیناچاہتا۔ یقینا سی پیک منصوبے کے تناظرمیں
ہی نہیں علاقائی سطح پرابھرنے والے تعاون کے ماحول بھی امریکاکیلئے قابل
قبول نہیں ہے۔ان حالات میں خطے میں اپنے نئے نئے بننے والے اسٹرٹیجک
پارٹنربھارت کوبھی رام کرنے کیلئے فکرمندہے کہ خطے میں امریکا کوبظاہراب
صرف بھارت کاہی سہارامل سکتاہے۔اسی لئے امریکی وزیرخارجہ کے انتہائی مختصر
دورۂ پاکستان سے قبل ہی دباؤ کاایک مرتبہ پھرحربہ بروئے کارلاناضروری
سمجھا۔دراصل امریکا نے نئی حکومت کے شروعات سے بھی یہ اندازہ کرلیاہے کہ یہ
میموگیٹ اورڈان لیکس طرزکا ماحول امریکااورروس کی آشاؤں کیلئے پیداکرنہیں
سکے گی بلکہ مشرف کے دور کے آخری حصے سے امریکاکوڈاج کرنے والی پالیسی
کوجاری رکھنے کیلئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اورفوج کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
امریکانے اسی سوچ کی بنیادپرنئی حکومت کے صرف دوہفتے بعدہی 300ملین ڈالرروک
کراپنے اگلے ارادوں کی خبر یاواضح دہمکی دے دی۔
امریکاسے نئے وزیراعظم عمران خان کایہ مطالبہ سامنے آناکہ پاکستان کے ساتھ
عزت سے پیش آیا جائے ،عزت سے بات کی جائے۔پھریہ کہناکہ پاکستان اب امریکاکے
ساتھ جنگ کااتحادی نہیں بلکہ قیام امن کیلئے اتحادی بنے گا۔اہم ذرائع کے
مطابق اس پس منظرمیں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمرباجوہ کاایک عرصے سے اس
ڈاکٹرائن کوپروموٹ کرناکہ ''ڈوموراب پاکستان کونہیں بلکہ کسی
اورکوکرناہے''۔یہ سب اقدام امریکاکیلئے ایک واضح پیغام کی صورت میںپاکستان
کی طرف سے امریکاکوپہنچ رہی تھیں،اس لیے امریکا نے بھی ''پریشر میزائل
''پراپنے وزیر خارجہ کے ساتھ ایک اعلیٰ امریکی جنرل کوانتہائی مختصردورۂ
پرپاکستان میں بھیجالیکن اہم بات یہ رہی ہے کہ پاکستان نے دفترخارجہ کی سطح
سے لیکروزیراعظم عمران خان اورآرمی چیف جنرل قمرباجوہ تک امریکا کوایک ہی
جواب دیاگیاکہ اب ''ڈومور''کاوقت لدچکابلکہ اب ''نومور''کابڑااورنمایاں
بورڈ آویزاں کر دیاگیاہے۔
پاکستان نے امریکی ضرورتوں کیلئے امریکی اتحادی کے طورپرجوکچھ کردیا وہ بہت
زیادہ ہے جبکہ اس کے بدلے میں پاکستان کوبھارت کے دہشتگردانہ اہداف کے آگے
ڈال دیاگیا اورنائن الیون سے اب تک امریکاکے ساتھ کھڑارہنے والے پاکستان
کوامریکانے ہرشعبے میں نہ صرف نظر اندازکیابلکہ پاکستاان کے ازلی دشمن
بھارت کواپناحلیف بنالیا۔اس لیے پاکستان عالمی سطح پرآنے والی تبدیلیوں کے
ماحول میں پرانی جکڑبندیوں اورمجبوریوں کااسیرنہیں رہ سکتا۔
امریکی وزیرخارجہ پومپیوکے علاوہ ان کے ساتھ آنے والے امریکی اعلیٰ سطحی
کمیٹی کے سامنے پاکستان کی عسکری قیادت نے پاک فوج کی دہشتگردی کے خلاف
خدمات اورقربانیوں کابھی جائزہ پیش کیاکہ اس کے باوجودامریکانے پاکستان
پربھارت کونہ صرف ترجیح دینے کی حکمت عملی اختیارکررکھی ہے بلکہ پاکستان کی
مغربی سرحدپربھی بھارت بالواسطہ ہی سہی، مسلط کرنے کی راہ ہموارکی ہے
۔پھرایسے ماحول میں جب امریکاخودکوقطرمیں طالبان سے مذاکرات بھی کرنے میں
کئی سال سے مصروف ہے لیکن اس کے باوجودسارادباؤ پاکستان پر ڈالتا ہے
حالانکہ سب کچھ پاکستان کے ہاتھ میں ہے اورنہ ہوسکتاہے۔
امریکی وزیرخارجہ کے دودن کیلئے اگلے ہی روزسے شروع ہونے والے بھارت دورے
اوراس موقع پران کے ساتھ امریکی وزیردفاع جیمزمیٹس کاہونابھی پاکستاان
اوراس کی عسکری و قومی قیادت کیلئے قطعاًنظراندازکیے جانے کے لائق نہ
تھا۔یہ پہلاموقع ہے کہ امریکااوربھارت کے درمیان ٹرمپ مودی ملاقات میں ہونے
والے فیصلوں کی روشنی میں دوجمع دو(ٹوپلس ٹو)مذاکرات ہورہے ہیں۔یہ مذاکرات
عملاً پچھلے سال کے اواخرسے پائپ لائن میں تھے۔مقصدیہ ہے کہ خطے میں
امریکااوربھارت مل کرفوجی اورسفارتی اہداف کیلئے حکمت عملی اپنائیں،تعاون
کے نئے راستے کھولیں اورایک دوسرے کی سہولت کاری کیلئے ہرممکن دستیاب
رہیں۔واقعہ یہ ہے کہ بھارت اورامریکامیں اس وقت انتہاء پسندانہ سوچ کی حامل
قیادت اقتدارکے سنگھاسنوں پربراجمان ہیں۔مودی سکہ بندانتہاء پسندکے
طورپربھارت اوربرصغیرمیں ہی نہیں دنیابھرمیں مشہورہے، خود امریکاکی پہلے
والی حکومتوں نے مودی کیلئے امریکی دروازے بندرکھنے کی حکمت عملی اپنا رکھی
تھی لیکن اب نہ صرف مودی کیلئے امریکامیں بہت والہانہ پن پایاجاتاہے بلکہ
خودامریکانے بھی ایک ایساصدرٹرمپ کی صورت میں منتخب کررکھاہے جنہیں یورپی
دنیابھی امریکی مودی کے درجے پرسمجھتی ہے۔خودامریکی عوام میں بھی کافی
تعداایسی ہے جوٹرمپ انتظامیہ کے اندازکوانتہاء پسندانہ اورغیرمفاہمانہ
رحجانات کاحامل محسوس کرتی ہے۔ انہی دونوں رہنماؤں نے امریکااوربھارت کے
درمیان فوجی وسفارتی تعاون کوغیرمعمولی بڑھاوادینے اورپاکستان کے گرد وپیش
میں مشترکہ عزائم آگے بڑھانے کیلئے دوجمع دووالی اپروچ اپنائی۔
پچھلے سال کے اواخرسے متوقع یہ تزویراتی اہمیت کے مذاکرات پہلے ماہ اپریل
میں توواشنگٹن میں منعقدکرنے کافیصلہ کیاتھابعدازاں ماہ جولائی تک ان
دوطرفہ تزویراتی مذاکرات کو مؤخر کر دیاگیا۔پھرکئی اورضرورتوں کے باعث
ستمبرکے پہلے ہفتے میں ان کاانعقادطے کیاگیا۔اہم ذرائع کادعویٰ ہے کہ
امریکا اوربھارت کے درمیان ان تزویراتی مذاکرات کے حوالے سے باربار التواکی
دیگروجوہات کے علاوہ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات بھی رہے۔امریکی حکومت
کے سامنے یہ بھی اہمیت کے لائق بات تھی کہ پاکستان میں سیاسی سطح پرہونے
والی اتھل پتھل یاتبدیلیوں کو بھی اپنی حتمی پالیسی کے ساتھ منسلک
کرے۔اپریل میں جب ان دوجمع دومذاکرات کالتواضروری سمجھاگیاتواس وقت پاکستان
میں عام انتخابات کے انعقادکیلئے نگران حکومت کے قیام کی تجاویز
زیرغورتھیں۔پھرچھ جولائی کی تاریخ طے ہوئی تویہ بھی ضروری خیال کیاگیاکہ
پاکستان میں انتخابی نتائج 25جولائی کو سامنے آئیں گے اس لئے بہتر ہوکہ
انتخابی نتائج اوربعدازاں قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں کسی نتیجے
پرپہنچنے کے بعدہی یہ انتہائی مذاکرات کیے جائیں،یوں 25جولائی کے انتخابات
کے غیرمتوقع نتائج اورماہ اگست میں نئی حکومت کے قیام اوراس کے رحجانات
کاجائزہ لینے کے بعدامریکابھارت تزویراتی مذاکرات کے پہلے سیشن کوضروری اور
مفید خیال کیاگیا۔یہ مذاکرات ٦ستمبرکوشروع کیے گئے،اس سے پہلے 300ملین
ڈالرکی رقم روکنے کافیصلہ عملاًاپنی تزویراتی مذاکرات کادیباچہ
بنایاگیاجبکہ تزویراتی مذاکرات میں پاکستان کے خلاف عالمی سطح پراقتصادی
پابندیوں کی امریکی آپشن پر بھی غورکیاگیا۔
ادھرپاکستان میں بھی ان مذاکرات سے پہلے صورتحال کابغورجائزہ لیاگیا۔
وزیراعظم عمران خان نے آٹھ گھنٹے پرپھیلی طویل عسکری بریفنگ میں شرکت کی
جہاں دوطرفہ سوال وجواب ہوئے، اشکالات دورہوئے۔پاکستان کے دفترخارجہ نے بھی
اپنارخ تبدیل ہونے کااشارہ دیاجبکہ خود وزیر اعظم نے بھی امریکاپاک تعلقات
کے روایتی طور طریقوں کی بجائے اس امرپرزور دیاکہ پاکستان کے ساتھ
امریکاعزت اوربرابری کی سطح پر بات کرناشروع کرے،گویا''فرینڈزناٹ ماسٹر''کی
صدابلندکی گئی۔اسی طرح امریکی وزیرخارجہ کی فون کال سے پاکستان اور
امریکاکے درمیان پیدا ہونے والی بحثابحثی میں بھی پاکستان کی سول قیادت
اوردفترخارجہ نے اپنے مؤقف سے دستبردار نہ ہونے کا مضبوط اشارہ دیئے
رکھالیکن یہ الگ بات ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کی طرف سے فون کال
کاباقاعدہ متن جاری کردیاگیاجس کے جواب میں وزارتِ خارجہ کومکمل خاموشی کا
حکم دے دیاگیا ۔ جس کے بعدامریکاکی طرف سے سی ایس ایف کی رقم روکے جانے کے
تازہ اعلان کے بعدآرمی چیف قمرباجوہ کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ایک
اورملاقات ہوئی اس اہم ملاقات میں بھی پاک امریکاتعلقات اورآئندہ دنوں میں
ممکنہ طورپرپیداہونے والی صورتحال پرغور کیاگیا۔
ملاقات اس تناظرمیں خوش آئندرہی کہ سول اورعسکری قیادت کوپوری طرح سے ایک
ہی صفحے پرنظرآئی۔بعدازاں امریکی وزیرخارجہ کی آمدسے قبل ہی عسکری قیادت نے
پاک فوج کے کور کمانڈرزکااہم اجلاس طلب کرلیاگیاتھاجس میں پوری تفصیل کے
ساتھ ملکی سلامتی اورعلاقائی صورتحال کے اہم امورپرغور کیاگیاتھا۔نیزامریکی
حکام کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے عسکری سطح پربھی ایک واضح لائن آف ایکشن
تیارکرلی گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ جب امریکی وزیرخارجہ ایک اعلیٰ سطحی وفدکے
ساتھ یہاں پہنچے تویقینا ان کووہ مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جس کیلئے
امریکانے دباؤکے حربوں کے ساتھ لیس کرکے اپنے اس وفدکوبھیجاتھاالبتہ اس میں
امریکاکیلئے خودآئندہ یہ بات رہی کہ امریکی وزیرخارجہ پوری شرح صدرکے ساتھ
دہلی روانہ ہوئے کہ پاکستان آئندہ برسوں میں سفارتی اعتبارسے کہاں
کھڑاہوگا۔
بلاشبہ بھارت کیلئے اس میں بظاہربڑے فائدے ہوں گے لیکن بالآخربھارت
کوامریکاکی ساری الجھنوں اورپریشانیوں کواپنے لئے خالص کرناہوگاکہ امریکااس
خطے میں جس طرح کی صورت حال پیداکیے رکھناچاہتاہے اس کے براہِ راست مضمرات
اس اس نے نئے اورجذباتی اتحادی بھارت کوبھگتناہوں گے۔دنیاکے تبدیل ہوتے
منظرنامے کے ساتھ ساتھ خطے کی سیاست میں ہی نہیں معاشی اوراقتصادی زاویے
بھی تبدیل ہورہے ہیں۔اسی میں خطے میں مین اسٹریم سے خودکوالگ رکھناخودبھارت
کے عوام کیلئے سخت گھاٹے کاسودہ ہوگا۔یہ سودا صرف مودی ایساانتہاء پسند ہی
کرسکتاہے جس کاپس منظربھی کسی مدبرکانہیں بلکہ انتہاء پسندکاہے،اس لیے
بھارت امریکی گھاٹے پرسوارہوکرخطے میں سفارتی،سیاسی اور اقتصادی حوالے سے
درپیش ہونے والی کٹھنائیوں کامقابلہ نہیں کرسکے گا۔پاک چین اقتصادی راہداری
سے بھی بھارت کوصرف اسی صورت میں خیرمل سکتی ہے کہ اس کی قیادت خطے میں امن
کی آبیاری کیلئے آگے بڑھے نہ کہ خطے میں دہشتگردی کوقائم ودائم رکھنے کی
حکمت عملی کاحصہ بنے۔بدقسمتی سے ابھی تک بھارت کی یہی پالیسی نظرآرہی
ہے،پھرامریکاکے ساتھ مل کربھارت پاکستان کاگھیراتنگ کرنے بھی آمناوصدقنا
کہہ کرمتفق نظرآتاہے،اس سلسلے میں وہ پاکستان پراقتصادی پابندیوں کی حمایت
سے بھی گریز نہیں کرے گاکیونکہ یہی اس کی دلی خواہش ہے آنجہانی اٹل
بہارواجپائی نے کہاتھاکہ ہمسائے تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔اس مدبربھارتی
لیڈرکے مرنے کے چنددن بعدہی مودی سرکاربھارت کوپڑوس دشمنی کی آگ میں جلانے
کی پالیسی کووسعت دینے چل پڑی ہے۔یقینااس سے بھارت کیلئے ٹھنڈک برآمدنہیں
ہوسکے گی ۔
دراصل امریکاافغانستان جیسے کمبل سے جان چھڑانے کیلئے اپنی شکست ورسوائی
کاسارابوجھ پاکستان پرڈالنے کی کوشش کررہاہے لیکن گزشتہ برس یوم دفاع کے
موقع پرجنرل قمرباجوہ کی طرف سے امریکاومغرب کو'نوڈومور''کے واضح پیغام نے
خطے میں پاکستان کی نئی سمت کاتعین کردیاہے جس کے بعدامریکااب اپناایجنڈہ
مودی کے ذریعے مسلط کرنے پرتلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایک مرتبہ پھرشاہ
محمودقریشی کے دورۂ افغان کاساراتاثرزائل ہوتانظرآرہاہے۔ افغانستان سے
متصل سرحدی ضلع قلعہ عبد اللہ بلوچستان میں پاکستان اور افغانستان کی
سیکورٹی فورسز کے درمیان کشیدگی کے باعث چمن میں دونوں ممالک کے درمیان باب
دوستی کو بند کر دیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے سرحدی فورسز کے درمیان ٹانڈہ
درہ کے علاقے میں پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کے باعث کشیدگی پیدا ہوگئی
تھی ۔ اس علاقے میں سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ کے بعد
پاکستانی حکام کی جانب سے باب دوستی کو بند کردیاگیا ہے جس کے باعث سرحد کی
دونوں جانب پھنسے ہوئے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پاکستان نے
شدت پسندی اور غیر قانونی نقل و حرکت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے افغانستان
سے متصل اپنی سرحد پر باڑ نصب کرنا شروع کر رکھی ہے۔خیال رہے کہ ڈیورنڈ
لائن کے نام سے منسوب پاک افغان سرحد تقریبا چوبیس سوکلومیٹرپرمشتمل ایک
طویل سرحد ہے۔پاکستانی فوج نے شدت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئےافغانستان
سے متصل اپنی سرحد پرباڑ نصب کرنا شروع کررکھی ہے۔
گزشتہ روزجب پاکستان کی جانب سے تنگہ درہ کے علاقے میں باڑ لگائی جارہی تھی
تو وہاں افغانستان کے سرحدی حکام کی جانب سے مبینہ طورپرمداخلت کی گئی۔جب
پاکستان کی سرحدی فورسزکی جانب سے باڑ لگانے کاکام دوبارہ شروع کیا
گیاتوافغان فورسزکی جانب سے دوبارہ مداخلت کی گئی۔ اس مداخلت کے باعث اس
علاقے میں سرحدی فورسزکے درمیان نہ صرف کشیدگی پیدا ہوئی بلکہ دونوں ممالک
کی سرحدی فورسزکے درمیان فائرنگ کابھی تبادلہ ہوا۔ تاحال یہ معلوم نہیں
ہوسکا ہے اس فائرنگ سے کوئی جانی نقصان ہواہے یانہیں ہے۔اگرچہ پاکستانی
حکام کی جانب سے اس کشیدگی کی وجہ افغان فورسزکی مداخلت کوقراردیاگیا تاہم
باب دوستی بند ہونے کے باعث سرحد کی دونوں جانب سینکڑوں لوگ پھنس گئے ہیں
اوران کومشکلات کاسامنا ہے۔
چمن کوئٹہ شہر سے شمال میں 130کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ پاکستان کی
افغانستان کے دوسرے بڑے شہرقندہاراور دیگرجنوب مغربی علاقوں کے درمیان اہم
گزرگاہ ہے۔چمن نہ صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں بلکہ افغانستان کے جنوب
مغربی علاقوں میں تعینات امریکی اور نیٹو فورسز کے لیے رسد کی بھی اہم
گزرگاہ ہے۔گزشتہ سال کے اوائل میں بھی پاکستان کی جانب کی جانے والی مردم
شماری کے معاملے پر چمن شہر سے متصل سرحدی علاقے میں پاکستان اور افغانستان
کے سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔گزشتہ سال ہونے والی جھڑپ میں
افغان فورسز کی فائرنگ سے ایک درجن سے زائد پاکستانی شہری ہلاک اور 40کے
قریب زخمی ہوئے تھے جبکہ پاکستانی حکام کی جانب سے متعدد افغان فورسز کے
اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیاتھا۔چمن سے روزانہ لوگوں کی ایک بڑی
تعداد کو روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدروی کرنے کیلئے افغانستان کے سرحدی
علاقے میں قائم منڈیوں میں جانا پڑتا ہے۔باب دوستی کی بندش کی وجہ سے ان
افراد کو بھی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ادھردوسری طرف متعصب مودی جوان دنوں فرانس کے ساتھ رافیل جہازوں کے ایک بڑے
سودے میں چھ ہزار کروڑ روپے کی کرپشن میں اپوزیشن کے تیروں کی زدمیں ہے
اورسیاسی تجزیہ نگاروں اوربھارتی میڈیاکے مطابق بھارتی عوام میں اپنی
مقبولیت کے سب سے کم ترین گراف پر پہنچ گیاہے۔اپنی اس ساری بدنامی کارخ
بدلنے اور ہرروزنت نئے اسکینڈل سے بچنے کیلئے بھارتی عوام کی توجہ پاکستان
دشمنی کی طرف مبذول کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔حال ہی میں دارالحکومت
دہلی سے دو گھنٹے کی مسافت پرمیواتی مسلمانوں کی ایک پسماندہ بستی میں قائم
ایک زیرتعمیر مسجد شہ سرخیوں میں ہے۔15اکتوبرکودرجنوں میڈیا والے
موجودتھے۔ان کی توجہ کا مرکزیہی مسجد تھی جوباہرسے اگرچہ نامکمل
اورزیرتعمیرتھی لیکن اندرسے وہ بہت کشادہ اور خوبصورت تھی۔خلفائے راشدین
نامی مسجد اتنی بڑی اورکشادہ ہے کہ مضافات کے مختلف گاؤں کے 15ہزارمسلمان
ایک ساتھ اندرنمازاداکرسکتے ہیں لیکن جب وہاں میڈیاوالے پہنچے تومسجد بالکل
خالی تھی اور چند چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول تھے۔
انڈیا کے تفتیشی ادارے این آئی اے نے الزام لگاتے ہوئے مسجد کے امام مسجد
محمد سلمان کوگذشتہ ماہ کو اس الزام میں گرفتارکرلیاکہ اس نے پاکستان کے
حافظ سعید(جماعتہ الدعوہ کے سربراہ)کے ادارے سے پیسے لےکرمسجد کی تعمیر کی
ہے۔امام مسجد محمد سلمان کے ساتھ دو دوسرے افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
لیکن گاؤں کے زیادہ تر لوگ امام سلمان پر عائد الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
میڈیا والوں کے مطابق مسجد کی تعمیر1998ءمیں شروع ہوئی تھی اور2010ءمیں اس
کاافتتاح کیا گیاتھا۔اس پراب تک دوکروڑروپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔اس کی
تعمیرسے منسلک آس محمد نامی ایک معمر شخص نے میڈیاوالوں کوبتایا:سلمان کے
والدایک بڑے مذہبی رہنما تھے اوردنیابھرمیں ان کے جاننے والے موجودہیں۔ان
میں سے بعض انہیں مسجدکی تعمیرکیلئے پیسے بھیجتے تھے لیکن مسجد کی
تعمیربنیادی طورپرمقامی چندے سے ہوئی ہے۔انہیں یہ علم نہیں تھا کہ کس ملک
سے کون انھیں کتنے پیسے بھیجا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ موجود لوگوں نے یہ
سمجھانے کی کوشش کی مدرسوں اور مسجدوں کے لیے مسلم ممالک میں چندہ عام بات
ہے۔ گزشتہ ہفتے مسجد کا دورہ کرنے والی این آئی اے کی ٹیم کومحمد ارشاد نام
کے ایک نوجوان نے واضح اندازمیں بتایا کہ انہیں پاکستان یاکسی پاکستانی
ادارے سے چندہ نہیں آتاہے۔پڑوس کے ایک گاؤں کے سرپنچ لکھو نے بتایا
کہ''حافظ سعید توبین الاقوامی شدت پسند ہے اس سے کون پیسے لینا چاہے
گا؟''اس نے بتایا کہ مقامی ہندووں نے بھی اس مسجد کوعطیہ دیاہے جبکہ کئی
ہندوؤں نے اس کی تعمیرمیں بلڈنگ میٹریئل دے کر اس کی مدد کی ہے ۔سرپنچ لکھو
نے مسجد کے باہرکھڑے ہوکراس کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اگر پاکستان یاکسی
دوسرے ملک سے پیسے آتے تومسجد کی تعمیراب تک پوری نہیں ہو جاتی؟' مسجد کا
بیرونی حصہ ابھی کئی جگہ نامکمل ہے۔
درجنوں صحافیوں کی موجودگی میں وہاں کے مسلمانوں کے چہروں پرسوالات تھے۔ ان
میں سے بعض باربار یہ پوچھ رہے تھے کہ آج ہی آپ لوگ کیوں آئے ہیں؟وہاں کے
مقامی لوگوں کے مطابق امام سلمان کی گرفتاری توگزشتہ ماہ کی گئی تھی۔وہاں
موجودسارے مقامی امام سلمان کے حق میں بات کررہے تھے۔ مجمع میں موجود
نصرونامی ایک معمر شخص نے امام سلمان کی فروخت شدہ زمین کے کاغذات ہوامیں
لہراتے ہوئے کہاکہ اس نے مسجد کی تعمیرکیلئےپیسے کم پڑ جانے کے بعد اپنی
زمین بیچ دی اورمسجد کی تعمیرمیں لگا دی،اس دستاویزکودیکھیں۔ وہاں موجود
تمام لوگ متفقہ طورپرکہہ رہے تھے مسجد ایک اسلامی مرکزبھی ہے جسے قرب
وجوارکے 84 گاؤں کی امداد سے بنایا گیا ہے۔ اس کی تحویل میں مکمل زمین دس
ایکڑہے جسے پنچایت نے عطیہ کیا تھا۔ لیکن تقریباً 100 خاندانوں اور
دکانداروں نے زمین کے ایک بڑے حصے پرقبضہ کررکھا ہے۔ ان کی قیمت کروڑوں میں
ہے۔ ہم انھیں یہاں سے ہٹاناچاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہم پرمقدمہ کردیاہے اور
ہمیں بدنام کرنے کے لیے امام سلمان اورمسجد کے خلاف بیان دیاہے۔مسجد کے
باہردہلی جانے والی سڑک پر تسلسل کے ساتھ کئی دکانیں ہیں جن مالکان نے
اعتراف کیاکہ انہوں نے سلمان اوران کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ ضرورکیاہے
لیکن ''این آئی اے'' سے رابطہ کے بارے میں خاموش رہے اورجواب دینے سے
اجتناب کیا۔
دراصل امریکااقتصادی اعتبارسے ہی نہیں سیاسی اورسفارتی حوالے سے بھی اب
ماضی کے حوالے میں ڈھلنے کی راہ پرہے۔خودیورپی ممالک امریکاکاساتھ دینے میں
مشکل محسوس کر رہے ہیں ۔ایسے میں بھارت کی مودی سرکارنے اپنے عوام
کوامریکاکی بھینٹ چڑھانے کی جوسوچ اپنائی ہے یہ خودبھارتی عوام کی سمجھ سے
بالاترہے۔دنیاجنگی حربوں اوردہشتگردی کے کلچر سے امن کی شاہراہ کی طرف آرہی
ہے۔اس لئے ان حالات میں پاکستان کی طرح بھارت کوبھی امن کااتحادی بننے کی
کوشش کرناچاہئے۔پاکستان اورامریکاپرانے اتحادی ہیں ،پاکستان نے حالیہ دورے
کے موقع پربھی پوری شدومدسے یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ پاکستان اب بھی
امریکاسے دوری نہیں چاہتامگراس کیلئے امریکاکوپاکستان کے ساتھ عزت
کابرتاؤکرنے کے راستے پرآناہو گا۔ پاکستان ڈوموڈومورکی گردان سن سن کرتنگ
آچکاہے،اب نوموراس کی مجبوری ہے لیکن اگر امریکاپاکستان سے دوراوربھارت کے
ساتھ فرنٹ کوترجیح دے گا توایسے میں پاک امریکاتعلقات میں پیداہوجانے والی
خلیج دورہونااب مشکل ہے،اس لئے امریکاکاپریشرمیزائل اپنے نشانے پرلگنے کی
بجائے واپس لانچنگ پیڈ کی طرف تیزی سے لوٹ رہاہے۔
|