صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا ہے کہ رواں
مالی سال کے اصلاحی بجٹ کا ٹوٹل حجم 2026 ارب 51 کروڑ روپے ہو گا۔ بجٹ میں
سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لئے 238 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ما لی
سال 2018-19 میں جاریہ اخراجات کا کل تخمینہ 1264 ارب روپے ہے۔ جس میں
تنخواہوں کی مد میں 313 ارب روپے، پنشن کی مد میں 207 ارب روپے، مقامی
حکومتوں کے لئے 438 ارب روپے اور سروس ڈیلوری اخراجات کے لئے 305 ارب روپے
کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے انتہائی ذمہ داری
سے کام لیتے ہوئے 148 ارب روپے کی خطیر رقم بجٹ Surplus کے طور پر مختص کی
ہے تاکہ ملک کو درپیش سنگین معاشی بحران پر کنٹرول کے لیے وفاقی حکومت کا
بھر پور ساتھ دیا جا سکے۔ تعلیم کا مجموعی بجٹ 373 ارب روپے کی رقم مختص
کیا گیا ہے۔ جو گزشتہ مالی سال سے 28 ارب روپے زیادہ ہے۔ گزشتہ مالی سال
میں صوبائی ترقیاتی پروگرام کا 8فیصد صحت کے لیے مختص کیا گیا تھا جبکہ اس
سال ترقیاتی پروگرام کا 14فیصد صحت کے لیے مختص کیا جا رہا ہے۔صاف پانی کی
فراہمی اور نکاسء آب کے لئےADP میں مجموعی طور پر 20 ارب 50 کروڑ روپے کی
رقم مختص کی جا رہی ہے۔ جس میں سے 12 ارب روپے نئی سکیموں پر خرچ کئے جائیں
گے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتی ہے۔ اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال 2018-19 کے بجٹ میں
پروڈکشن سیکٹر کے لئے مجموعی طور پر 93 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ
گزشتہ سال یہ رقم 81 ارب 30 کروڑ روپے تھی۔ حکومت نے کسان بھائیوں کی
خوشحالی کے لئے 2 لاکھ 50 ہزار بلاسود قرضوں کی فراہمی کے لئے 15 ارب روپے
مختص کئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے رواں مالی سال 2018-19 کے لئے مالیاتی بل میں
مختلف سرکاری دستاویزات پر سٹیمپ ڈیوٹی میں 10روپے سے لیکر 10ہزار روپے تک
اضافہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ موٹر وہیکل ٹیکسیشن ایکٹ میں تبدیلی کرتے ہوئے
ایک ہزار سی سی گاڑی کی لائف ٹائم ٹوکن فیس 10ہزار روپے سے بڑھا کر15ہزار
روپے کرنے جبکہ موٹر سائیکل کی لائف ٹائم ٹوکن فیس 1200سے بڑھا کر 1500روپے
کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ مالیاتی بل میں درآمد شدہ موٹر گاڑیاں جن میں
1300سے 1500سی سی تک گاڑی پر لگڑری ٹیکس کی شرح 70ہزار روپے سے کم کر کے
15ہزار روپے، 1500سے لے کر 2000سی سی تک گاڑی پر لگڑری ٹیکس سوا لاکھ روپے
سے کم کر کے 25ہزار روپے، 2000سے لے کر 2500سی سی تک درآمد شدہ گاڑیوں پر
عائد لگڑری ٹیکس کا ریٹ دو لاکھ روپے سے کم کر کے ایک لاکھ روپے جبکہ
2500سی سی سے اوپر گاڑیوں پر لگڑری ٹیکس ریٹ 3لاکھ روپے بر قرا ر رکھنے کی
تجویز دی گئی ہے۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی کے دائرہ کار میں ایک نئی سروس
پارکنگ سروس پر جی ایس ٹی 16فیصد شرح سے عائد کرنے کی تجویز ہے جبکہ
انشورنس کے شعبے میں ہیلتھ انشورنس، لائف انشورنس اور میرین سروس کو دی
جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ہے اور ان پر ٹیکس کی شرح 16فیصد مقرر
کرنے کی تجویز ہے تاہم ایکسپورٹ کے لئے میرین انشورنس اورکراپ انشورنس پر
ٹیکس استثنیٰ بر قرار رکھنے کی تجویز ہے۔ مالیاتی بل میں لوڈنگ کیلئے
استعمال ہونے والے ایک گاڑی کے مالک پر بھی جی ایس ٹی عائد کر دیا گیا ہے
جو کہ اس سے قبل ٹیکس سے مستثنیٰ تھا۔ تنخواہوں، پنشن میں 10 فیصد اضافہ کو
برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے
پنجاب اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران 6اپوزیشن ارکان کے خلاف ہنگامہ آرائی
کرنے ، سپیکر اور حکومت کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے، توڑ پھوڑ کرنے
اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر بجٹ اجلاس کے اختتام تک اجلاس میں
شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے، سپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے
اپوزیشن کے چھ ارکان اسمبلی محمد اشرف رسول، ملک محمد وحید، محمد یٰسین
عامر ، محمد مرزا جاوید، مس زیب النسائاور طارق مسیح گل کے خلاف کارروائی
کی ہے۔ مذکورہ ارکان رواں بجٹ اجلاس میں شرکت پر پابندی ہو گی۔ارکان اسمبلی
کیخلاف کارروائی کے آرڈرز میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز بجٹ اجلاس کے دوران
سپیکر نے صوبائی وزیر خزانہ کو بجٹ تقریر پیش کرنے کی جیسے ہی دعوت دی
اپوزیشن ارکان نے نعرے بازی کرتے ہوئے شور مچانا شروع کر دیا۔ انہوں نے بجٹ
تقریر اور اجلاس کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، سپیکراور حکومت کے خلاف
نعرے بازی کی فرنیچر توڑ دیا اور ایوان کا امن تہہ و بالا کر دیا۔ سپیکر نے
ایوان کو آرڈر میں لانے کے لیے باربار اپوزیشن ارکان کو متنبیہ کیا۔ مگر
مذکورہ بالا چھ ارکان نے سپیکر کے آرڈرز کی پروا نہ کی اور رولز کی صریحا
خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوان میں فکس مائیکرو فون اور ریکارڈنگ مشینیں توڑ
ڈالیں اور ایوان کی میزیں الٹ دیں۔مذکورہ اراکین اسمبلی ایوان کے افسران پر
بھی حملہ آور ہوئے۔ طارق مسیح گل نے ڈی جی پارلیمانی امور عنایت اﷲ لک کو
گریبان سے پکڑ لیا اور دھکے مارے مذکورہ بالا صورت حال کے پیش نظر اراکین
اسمبلی کی ڈیمانڈ اور پنجاب اسمبلی کے مقدس ایوان کے وقار کو ملحوظ رکھتے
ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی نے قواعدو انضباط کار پنجاب اسمبلی بابت 1997کے
قاعدہ 210کے تحت حامل اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے اپوزیشن کے مذکورہ بالا
6 ارکان پر بجٹ اجلاس کے اختتام تک اجلاس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی
ہے۔ تحریک انصاف کا ااصلاحی ایجنڈہ عوام دوست ایجنڈہ ہے جس کا مرکز پاکستان
کے عوام ہیں۔صوبے کی ترقیاتی منصوبہ بندی تعلیم ،صحت،مکان اور روز گار کو
مد نظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہے تاکہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے
والے عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ نئی حکومت کا 100روزہ ایجنڈہ
اس تبدیلی کا پیش خیمہ ہو گا ثابت ہو گا جس کا عزم لے کر تحریک انصاف کی
حکومت اقتدار میں آئی۔ صوبہ پنجاب کا بجٹ2018-19ء پنجاب اسمبلی میں پیش کیا
گیا۔اس شاندار اور فلاحی بجٹ نے مخالفین کے منہ بند کردئے ہیں۔ ا س بجٹ نے
صو بہ کی معیشت کی تاریخ کوعروج دوام بخشا ہے۔صوبہ میں خوشحالی اور سرمایہ
کاری کے نئے دریچے کھلیں گیاور بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔اس بجٹ
میں پسماندگی اور احساس کمتری کا خاتمہ ممکن بنایا گیا ہے۔جنوبی پنجاب میں
بھی سڑکوں کا جال بچھایاجا رہا ہے۔اور وہاں کے عوام کو تعلیم،صحت اور ہر
قسم کی بنیادی سہولیات ان کی دہلیز پر پہنچائی جائے گی جنوبی پنجاب کے لو
گوں کی زند گی میں انقلاب برپا ہو جائے گا ۔نئے بجٹ میں زراعت کو معیشت کی
ریڑھ کی ہڈی کا درجہ دیا گیا ہے۔ جس سے ان کی زندگی میں تیزی آجائے گی اور
وہ انتہائی سکون کے ساتھ زراعت کی پیداواری میں اضافہ کریں گے۔ صحت کی
سہولیات کولوگوں کی دہلیز پر پہنچانے کے لئے متعدد اقدامات کئے جا رہے ہیں
۔ نئے بجٹ میں ٹیکس گزاروں کو بھی متعدد سہولیات دی گئی ہیں۔ و ہ دن دور
نہیں جب صوبہ پنجاب کے ترقیاتی منصوبہ جات کی تقلیدملک کے دیگر صوبے بھی
کریں گے ۔ پنجاب کے بجٹ میں سماجی شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی
ہے۔پنجاب کانیا بجٹ صوبے کی پائیدارترقی کا محور اورعوام کو حقیقی معنوں
میں ریلیف دیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے ریکارڈ فنڈز رکھے اور
جنوبی گئے ہیں۔پنجاب کے عوام کی خوشحالی کیلئے بڑے پروگراموں پر عملدرآمد
جاری رہے گا۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ،پسماندہ علاقوں کی ترقی حکومتی
ترجیحات میں شامل ہے ، اسی لئے نئے بجٹ میں پسماندہ علاقوں کی ترقی و
خوشحالی کیلئے زیادہ وسائل مختص کئے گئے ہیں۔تعلیم ،صحت،پینے کے صاف پانی
کی فراہمی اوردیگر سماجی شعبوں کیلئے مزید فنڈز رکھے گئے ہیں۔ زراعت کی
ترقی اور کاشتکار کی خوشحالی کیلئے بجٹ میں خصوصی اقدامات اور زرعی شعبے کی
ترقی اور کسان کی فلاح و بہبود کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔ صوبے کے
عوام کو معیاری تعلیمی و طبی سہولتوں کی فراہمی ہمارا مشن ہے جسے ہر صورت
پورا کریں گے۔ رواں مالی سال میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے صوبے میں
ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہوگااورتمام وسائل عوام کی امانت ہیں اور ان کی
فلاح و بہبود پر خرچ کئے جا رہے ہیں- صوبائی حکومت نے اپنا عوام دوست بجٹ
پیش کر کے نئی تاریخ مرتب کی ہے۔ حکومت کاشتکاروں کو ہر قسم کی سہولیت میں
پیش پیش ہے۔پاکستان میں توانائی کا بحران جلد اپنی موت آپ مر جائے گا۔ دنیا
بھر کی نظریں پاکستان کی تیز رفتار معاشی ترقی پر اٹک گئی ہیں۔دنیا کو اب
سی پیک منصوبہ کی اہمیت و افادیت معلوم ہورہی ہے۔پاک چین دوستی کو ہمیشہ
اہمیت دی گئی ہے۔اور یہی دوستی اب اپنی نئی آن بان کے ساتھ طلوع ہو رہی
ہے۔سی پیک منصوبہ میں اب کوئی بھی ملک دونوں ممالک کی رضا مندی کے بغیر
شامل نہ ہو سکے گا۔ مخالفین پاکستان کی تیز رفتار ترقی کو ہمیشہ منفی انداز
میں دیکھ رہے ہیں اور ہر بار اس ترقی پر طنز و تنقید کو اپنا وطیرہ بنانے
کو اپنا دانشورانہ ا قدام قرار دیتے ہیں۔اگر یہ لوگ واقعی ملک و قوم سے
مخلص ہوتے تواس ترقی پر حکومت وقت کا ساتھ دیتے۔ |