مریم بتول(لاہور)
حکومت کے تبدیلی کے دعوے کھوکھلے نکلے۔تبدیلی کے سنہرے خواب دکھانے والوں
کی جب حقیقت سامنے آئی تو ہر ایک آنکھ حیران رہ گئی۔پہلے توٹیکس لگا کرملک
میں مہنگائی کر دی اور پھر سب سے اہم اقدام کا اعلان کیا ’’تجاوزات‘‘کے
خلاف کریک ڈاون۔قبضہ مافیاء کے ظلم وستم سے پسی ہوئی عوام کے لیے یہ ایک
خوش آئند اعلان تھا۔لیکن یہ کیا حکومت نے اس تبدیلی کا آغاز بھی غریب اور
پسی ہوئی عوام سے کیا گیا۔وہ عوام جو پہلے ہی سے ظلم کا شکار تھی اور اس
نئی حکومت سے یہ امید لگا بیٹھی تھی کہ وہ پاکستان میں مدینہ کی ریاست کا
نظام قائم کرئے گی۔ مگر یہ کیا ہوا!مدینہ کی ریاست قائم کرنے والے سرکاردو
عالم کاﷺ وہ مشہور واقعہ جس میں فاطمہ نامی عورت نے چوری کی اور جب اس کی
سفارش کی گئی تو آپ ﷺنے فرمایا’’کہ تم سے پہلے قومیں اسی لیے ہلاک ہوئی کہ
جب ان میں کوئی امیر آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی غریب
جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی،خدا کی قسم آج اگر فاطمہ بنت محمد ﷺبھی چوری
کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا‘‘۔
لیکن یہ کیا! اس فلاحی ریاست میں تو پچھلی قوموں کی ہی روایات کو دہرایا جا
رہا ہے۔وہ لوگ جو پاور میں ہیں اور جن کے پاس طاقت ہے ان کی تجاوزات کو
تو’’ریگولرائز‘‘کرنے کا حکم دیا گیا۔لیکن غریب محنت کش کے 2 مرلے کے مکان
کو تجاوزات کہہ کر مسمار کر دیا گیا۔غریب ڑیڑھی بان کے ساتھ جو انسانیت سوز
سلوک کیاگیا وہ ناقابل معافی جرم ہے۔اقتدار کے علمبرادروں کو تبدیلی کے
حقیقی معنی جاننے ہوں گے۔حقیقی تبدیلی وہ جو عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور
میں آئی، انھوں نے فرمایا کہ’’دریائے نیل کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا
مر گیا تو عمر اس کا بھی جواب دہ ہے‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا دور انتظامی لحاظ سے تاریخ کا سنہری دور کہا
جاتا ہے۔آپ کے دور میں جب قحط پڑا توآپ نے غلے کی چوری کرنے والے کی سزا
معاف کر دی اور کہا کہ حکومت اپنی ذمہ دار پوری نہیں کر سکتی لہذا اگر کوئی
اپنی ضرورت کے لیے چوری کرتا ہے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔کسی بھی حکومت
کا پہلا اور بنیادی کام عوام کو ضروریات زندگی مہیا کرنا ہے اور اس کے بعد
ان پر قانون کا اطلاق کرنا۔لیکن موجودہ حکومت نے اس کے برعکس غریب عوام سے
ان کی چھت اور کاروبار زندگی بھی چھین لیا اور ساتھ ہی ساتھ قوم کے مستقبل
کو کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور کر دیا۔حالانکہ ریاست کی یہ اولین ذمہ
داری تھی کہ طلبہ کو متبادل جگہ فراہم کی جاتی اس کے بعد یہ کاروائی عمل
میں لائی جاتی لیکن اقتدار کے نشے میں چور اہل اقتدار نے ایک لمحہ کے لیے
بھی نہ سوچا کہ وہ قوم کے مستقبل کو کس طرح تاریک کر رہے ہیں۔اہل اقتدار کو
اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور تبدیلی کے حقیقی معنوں کو سمجھتے ہوئے اس
تبدیلی کو لانا ہو گا جس کے لیے عوام نے انھیں چنا ہے۔
|