مسلم ممالک کے درمیان تنازعات و خانہ جنگیوں کا براہ راست
فائدہ صرف اُن قوتوں کو ہورہا ہے جو ان حالات میں فروعی مفادات کے لئے
تنازعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی معاشی مضبوطی اُن ممالک کے
لئے ہمیشہ ناقابل برداشت ہوتی ہے جو قرضوں کے بوجھ لاد کر بنا جنگ کئے
ریاستوں پر قبضے کرلیتے ہیں اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے کٹھ پتلی
حکومتوں سے من مانے فیصلے کراتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے سخت ترین شرائط
عاید کرکے ترقی پسند ممالک کی عوام کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر حکومتوں
کے لئے مشکلات پیدا کراتے ہیں۔ عالمی قوتوں کے نزدیک سب سے پہلے یہ ضروری
ہے کہ کوئی دوسرا ملک ان کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات نہ کرے ۔ حلیف بن کر
عالمی قوتوں کے مفادات کے لئے من مانی شرائط پر حکم مانے اور اگر کوئی ملک
ان قوتوں کے فیصلوں سے انکار یا فرار کی راہ اختیار کرے تو انہیں مختلف
طریقوں سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے۔ امریکا اس وقت عالمی برادری میں واحد
’’ سپر پاو ر‘‘ کی حیثیت سے پوری دنیا میں اپنی اجارہ داری کا خواہاں ہے
اور اس کا دفاعی بجٹ دنیا بھر کے ممالک کے مجموعی بجٹ سے کہیں زیادہ
ہے۔امریکہ نے 716 ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ سینیٹ اجلاس میں 'نیشنل ڈیفنس
آتھورائزیشن ایکٹ' نامی یہ بِل 10 کے مقابلے میں 87 ووٹوں سے منظور کیا۔
دنیا کے کونے کونے میں اتحادی ، حلیف یا حریف بن کر امریکی افواج کسی نہ
کسی شکل میں موجود ہیں۔ مسلح جنگوں کے لئے جنگی سازو سامان سمیت تباہ کن
کیمیائی ہتھیاروں سمیت خلائی سبقت کا جنون امریکا کا خواب رہا ہے۔ تاہم
موجودہ حالات میں اس وقت ایسے کئی بلاک بن رہے ہیں جو امریکی مفادات کو
براہ راست چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی مملکت کی مضبوطی کی
پہلی شرط اس ریاست کا معاشی طور پر مضبوط ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت
دنیا میں معاشی جنگ جاری ہے اور عالمی قوتیں ’’ سرد جنگ‘‘ کے نئے انداز کے
ساتھ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ان قوتوں کے درمیان وہ ممالک بُری طرح
پس رہے ہیں جو کسی نہ کسی صورت مخصوص بلاک کا حصہ رہ چکے ہیں۔ یا پھر رہنے
پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی معاشی حالت اس قدر توانا نہیں کہ وہ براہ راست
جنگ یا معاشی تعطل کے متحمل ہوسکیں۔
امریکا کی تاریخ جنگوں و تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ صرف1861-1865میں ریاست
ہائے متحدہ کی جنوبی و شمالی ریاستوں کے درمیان جنگو ں میں چھ لاکھ سے زائد
افراد ہلاک ہوئے۔ جنوبی و شمالی ریاستوں کے درمیان جنگ کی وجہ معیشت تھی۔
جو کپاس کی کاشت کے لئے غلاموں کو آزادی دینے سے روکنے سے شروع ہوئی ، اس
جنگ میں بحری جہاز، بھاپ سے چلنے والی ریل گاڑیاں اور صنعتی بنیادوں پر
تیار کئے جانے والا بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا ۔ لاکھوں انسان ہلاک ہوئے
، شمالی ریاستوں کو ابراہیم لنکن کی قیادت میں کامیابی ملی اور بالاآخر ’’
غلامی ‘‘ کا خاتمہ ہوا۔ شمالی ریاستیں غلامی کے قانون کو ختم کرنا چاہتی
تھی جبکہ جنوبی ریاستیں ’’ غلاموں ‘‘ کی آزادی کی مخالف تھی ۔ کیونکہ اس کی
بنیادی وجہ معیشت تھی۔
امریکا پہلی جنگ عظیم کے اتحادی بلاک کے ممالک برطانیہ ،فرانس ،اٹلی ،رومانیہ
، پرتگال،جاپان میں شامل تھا ۔ اس جنگ میں90لاکھ مرد ہلاک ہوئے ، اتنے ہی
افراد بھوک افلاس اور جنگ سے متاثر ہونے پر ہلاک ہوئے ،دو کروڑ کے قریب
ناکارہ ہوئے ۔ جبکہ ایک کروڑ فوجی ان سب کے علاوہ دوران جنگ ہلاک ہوئے۔
یعنی دوکروڑ انسان صرف ’’ ایک انسان ‘‘ کے قتل سے شروع ہونے والی جنگ کے
نتیجے میں ہلاک ہوگئے۔ مسلمانوں کی خلافت کا خاتمہ ہوا۔ پہلی مرتبہ زہریلی
و کیمیائی گیسوں کا استعمال ہوا۔دوسری جنگ عظیم میں میں 61 ملکوں نے حصہ
لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی۔ اور فوجوں کی تعداد
ایک ارب سے زائد۔ تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی۔ اور 5
کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریباً 2
کروڑ روسی مارے گئے۔ اور اس سے اور کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 7ہزار
گاؤں اور32ہزار کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے600000، یوگوسلاویہ کے 1700000
فرانس کے 600000 برطانیہ کے 375000 اور امریکا کے 405000 افراد کام آئے۔
تقریباً 6500000 جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000 کے قریب اٹلی اور جرمنی
کے دوسرے حلیف ملکوں کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000 آدمی مارے گئے جنگ کا
سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔
جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد
ٹھیکے دار امریکا نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کو موت
کے گھاٹ اتار دیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948سے1990کے درمیان امریکا اور
سوویت یونین جو پہلی جنگ عظیم میں اتحادی تھے ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد
اشتراکیت کے نظام کی وجہ سے سرد جنگ کے تناؤ اورعالمی تناؤ میں اضافے کا
باعث بنے ۔سرد جنگ کی وجہ سے برلن ناکہ بندی (1948ء-1949ء)، جنگ کوریا
(1950ء-1953ء)، جنگ ویتنام (1959ء-1975ء)، کیوبا میزائل بحران (1962ء) اور
سوویت افغان جنگ (1979ء-1989ء) جیسے واقعات رونما ہوئے۔
عالمی طاقت کے میزان میں امریکی و سوویت یونین کے درمیان ہر طرح کی مسلح یا
سرد جنگ نے عالمی امن کو متاثر کیا ۔ سوویت یونین کا خاتمہ امریکا اور اس
کے اتحادی ممالک کا دیرینہ خواب رہا تھا ۔جس کی تعبیر افغانستان میں سوویت
یونین کے حصے بکھرنے کی صورت میں آئی ۔ افغانستان میں سوویت یونین کی
مداخلت اور شکست نے امریکا کے لئے واحد سپر پاور ہونے کا موقع ملا اور اب
امریکا کسی طور نہیں چاہتا کہ ’’ واحدسپرپاور‘‘ ہونے کا تاج اُس کے سر سے
اترے اور کوئی دوسرا ملک اس طاقت کو چیلنج کرسکے۔
امریکا نے اُن مسلم اکثریتی ممالک کو بھی نشانہ بنایا جو مالی طور پر مضبوط
اور قدرتی معدنی دولت سے مالامال ہیں۔ اسلام فوبیا کے خوف میں مبتلا امریکا
، سب سے پہلے حریف کے طورپر اُن مسلم اکثریتی ممالک کو دیکھتا ہے جو اُس کے
راستے میں حائل ہوسکتے تھے ۔ کیونکہ عالمی قوتوں کو اپنی طاقت برقرار رکھنے
کے لئے تیل کی ضرورت تھی اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریتی ممالک
اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ وہ تیل کے بجائے اپنی ترجیحات بدل کر عالمی قوتوں
کو سرنگوں کرسکیں تو عالمی طاقتیں کو اپنی قوت برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
اس لئے مخصوص ایجنڈے کے تحت خلافت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا اور
خلافت عثمانیہ کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو مشرق وسطی پر مسلط کردیا
گیا ۔ جنگی ساز و سامان سے کمزور مسلم اکثریتی ممالک باہمی نااتفاقیوں اور
ریشہ بندیوں کے سبب اسرائیل کا مقابلہ نہ کرسکے اور اسرائیل ایک ایسے لاڈلے
کی صورت میں مضبوط ہوا جس کے ہر ظلم وجبر کو امریکا نے ویٹو کردیا اور مسلم
اکثریتی ممالک مالی دولت کے انبار رکھنے کے باوجود اپنی تاریخ کے برعکس
عسکری میدان میں کمزور رہے۔
امریکا نے جہاں عرب مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان باہمی تنازعات کا بھرپور
فائدہ اٹھایا تو دوسری جانب فوجی اہمیت کے حامل ممالک کو کمزور کرنے کے لئے
طے شدہ منصوبے کے تحت حملہ آور ہوا ، عراق اور افغانستان میں براہ راست
مداخلت کی تو لیبیا ، شام ، لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں اور
ایران مخالف جنگجوؤں کو آمنے سامنے کرکے ان ممالک کاتاراج کردیا ۔ عراق
امریکی ایما پر پہلے ایران پر حملہ آور ہوا اور کئی برس لاحاصل جنگ میں
کمزور ہوتے چلے گئے ۔ پھر عراق نے کویت کا رخ کیا تو امریکا نے پلٹی کھائی
اور عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کو جواز بنا کر حملہ آور ہوا۔ ایران میں
تبدیلی ہوئی اور خمینی انقلاب نے مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تنازعات کا
نیا سلسلہ ہوا ۔ جو عراق سے دراز ہوتا ہوا فلسطین ، شام ، قطر ، یمن اور
سعودی عرب کے بعد اب افغانستان تک پھیل چکا ہے۔
امریکا نے مسلم اکثریتی ممالک تنازعات سے فائدہ حاصل کیا تو دوسری جانب چین
کے ساتھ تجارتی تنازعے نے کئی عالمی قوتوں کو امریکی رویئے نے پریشان کردیا
ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تنازعات کی وجہ سے عالمی خطے میں معیشت کا
توازن بگڑ رہا ہے۔ جرمن ہول سیل فیڈریشن اور بیرون ملک تجارت کے سربراہ
ہولگر بنگ من کا کہنا ہے کہ’’ امریکا اور چین کے مابین تجارتی تنازعات کے
سبب جرمنی کو پہلے ہی کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں
سمجھتا ہوں کہ جرمنی کو دیگر یورپی اداروں کے ساتھ مل کر دونوں فریقین کے
درمیان اس تجارتی تنازعے کو حل کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہییں۔ اس مسئلے
کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصول و ضوابط کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ ہمیں
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر صدر ٹرمپ محصولات میں اضافے کی اپنی حکمت عملی
میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا اثر جرمنی اور یورپی یونین پر بھی پڑے گا جو
امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کرتے ہیں‘‘۔
موجودہ امریکی ٹرمپ انتظامیہ سے کینیڈا کے تعلقات پر متاثر ہوئے۔ کینیڈا کے
وزیراعظم جسٹین ٹروڈو نے امریکا کے لئے کینیڈا کی سافٹ ووڈ کی برآمدات پر
واشنگٹن کی جانب سے کسٹم ڈیوٹی عائد کئے جانے کے بعد کہا ہے کہ کینیڈا اس
بارے میں سخت ردعمل ظاہر کرے گا - کینیڈا کے وزیر اعظم نے کہا کہ’’ میں
احترام کا قائل ہوں لیکن ہم کینیڈا کے مفادات کا دفاع کرنے میں کسی کو بھی
کوئی رعایت نہیں دیں گے‘‘-چین کے ساتھ امریکی تعلقات میں سرد تناؤ بڑھتا ہی
جا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا دورہ چین کے دوران بیجنگ میں
چینی ہم منصب سے ملاقات کے دوران دونوں طرف سے سرد جملوں کا تبادلہ
ہوا۔امریکی وزیر خارجہ کا دورہ چین بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری
کو کم نہ کر سکا، مذاکرات کی میز پر بھی امریکی اور چینی وزرائے خارجہ میں
کشیدگی برقرار رہی، ایک دوسرے کو دو طرفہ تعلقات میں سردمہری کا ذمہ دار
قرار دیتے رہے۔چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’’ امریکا نے تجارتی جنگ اور
تائیوان کا ایشو چھیڑ کر اچھا نہیں کیا‘‘ جبکہ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا
تھا کہ’’ جن ایشوز کی بات کر رہے ہیں اس میں ہمارے درمیان واضح اختلافات
موجود ہیں‘‘۔چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’’ تائیوان کے معاملے پر امریکہ
کے اقدامات چینی حقوق کو متاثر کر رہے ہیں‘‘ اور’’ امریکہ چین کی داخلی اور
خارجہ پالیسیوں پر بے بنیاد اعترضات کرتا ہے‘‘۔
امریکا کے دیرینہ اتحادی ملک برطانیہ کے ساتھ بھی تجارتی معاملات پر
اختلافات اُس وقت کھل کر سامنے آئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے
کہ’’ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کا بریگزٹ کا منصوبہ اگر پایہ تکمیل کو
پہنچ جاتا ہے تو ’امکان ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی تجارتی ڈیل کو حتمی
شکل نہ دی جا سکے‘۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے مے سے کہا تھا کہ ’’بریگزٹ کے
عمل کے دوران ان کی تجاویز پر غور کیا جائے لیکن مے نے ان کی تجاویز کو
مسترد کر دیا‘‘۔اپنے دورہ برطانیہ کے دوران ٹریزا مے اور ملکہ الزبتھ سے
ملاقات سے قبل برطانوی جریدے ’دی سن‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا
کہ’’ ٹریزا مے کا بریگزٹ کا منصوبہ شاید امریکا اور برطانیہ کی ’تجارتی ڈیل
کو قتل‘ کر دے گا‘‘۔
امریکا اور یورپی یونین میں بھی تجارتی جنگ کے شعلے مزید بلند ہورہے ہیں۔
یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر کا کہنا ہے کہــ’’ امریکی محصولات ناصرف
غیر منطقی ہیں بلکہ تاریخی طور پر بھی درست نہیں ہیں‘‘۔ڈبلن میں آئرش
پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے جین کلاڈ جنکر کا کہنا تھا کہ’’ یورپی یونین کے
مفادات کے تحفظ کے لئے جو کچھ بھی کرنے کی ضرورت پڑی ہم کریں گے‘‘۔دوسری
جانب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں دھمکی دی ہے کہ’’ یورپی
یونین کی جانب سے لگائے گئے محصولات کو ختم نہ کیا گیا تو امریکا درآمد
ہونے والی یورپی کاروں پر بھی بیس فیصد محصولات کا نفاذ کر دیا جائے گا۔‘‘
امریکا کے ترکی کے ساتھ بھی تعلقات تناؤکا شکار ہورہے ہیں۔ پادری کی رہائی
کے معاملے سے لے کر اسٹیل و المونیم مصنوعات پر امریکا کی جانب سے محصول پر
دگنے ٹیکس اور پھر ترکی جانب سے امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی دھمکی نے
تعلقات کو کشیدہ کردیا۔ ترکی میں قائم سعودی عرب سفارت خانے میں سعودی
صحافی کے قتل کے سنگین الزامات کے بعد ترکی و سعودی عرب میں تعلقات میں
تناؤ پیدا ہوا۔ ترک حکام نے سفارتخانے کی گھنٹوں تلاشی لی۔ سعودی عرب کے
خلاف امریکا کی جانب سے حفاظت کی مد میں بیان سمیت ولی عہد کا ترکی بہ ترکی
جواب اور حالیہ دنوں سعودی سفارت خانے میں سعودی صحافی کے مبینہ گمشدگی کے
سنگین الزام کے بعد امریکا اور سعودی وعرب کے درمیان بھی سرد جنگ کا آغاز
ہوچکا ہے۔امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو براہ راست دہمکیاں مشرق وسطی میں
امریکی نئی پالیسی کا تعین کررہی ہیں ۔امریکا کے تنازعات و اتحادی ممالک سے
سرد تعلقات کا تسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے تعلقات کو صرف امریکی
مفاد پر پرکھتے ہیں ان کے نزدیک امریکی کی پالیسیاں من و عن تسلیم کرنے
والا ہی اس کا اتحادی ہے۔ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد جنوبی و مشرقی
ایشیا کے لئے امریکی انتظامیہ کی سخت گیر پالیسیوں نے امریکا کے ساتھ
تعلقات میں کئی ممالک کو نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
امریکا اس وقت بیک وقت کئی ممالک سے تجارتی تنازعات کی جنگ میں الجھا ہوا
ہے ۔امریکا پنی تجارتی جنگی جنون کا سارا نزلہ پاکستان پر گرانے کی کوشش
کرتا بھی نظر آتا ہے۔ پاکستان پر امریکی دباؤ اس حد تک بڑھانے کی کوشش ہے
کہ آئی ایم ایف کو براہ راست ڈکٹیشن دی جاتی ہے کہ امریکا ، پاکستان کو بیل
آؤٹ پروگرام کو باریکی سے دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں 1980 سے آئی
ایم ایف کے 14 مالی پروگرام چل چکے ہیں جن میں 2013 میں تین سال کے لیے لیا
جانے والا 6.7 ارب ڈالر کا قرض بھی شامل ہے۔تاہم پاکستان کے وزیرِ اطلاعات
فواد چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے
گزشتہ ہفتے اپنے دورہ پاکستان کے دوران یقینی دہانی کرائی ہے کہ’’ اگر
اسلام آباد نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکچ کی
درخواست کی تو واشنگٹن اس درخواست کی مخالفت نہیں کرے گا‘‘۔
امریکا کی جانب سے پاکستان پر آئی ایم ایف جانے پر دباؤ کو سی پیک منصوبے
سے جوڑا جارہا ہے کہ امریکا پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کا فائدہ اٹھا
کر دراصل چین کے منصوبے ون بیٹ ون روڈ کی کامیابی کے راستے میں رکاؤٹ پیدا
کرنا چاہتا ہے۔ نومبر کے ابتدائی ہفتے میں آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کا
باقاعدہ دورہ کرے گا ۔ تاہم دورے سے قبل موجودہ حکومت ایسے اقدامات لے رہی
ہے جس کا آئی ایم ایف مطالبہ کرتا رہا ہے۔2008کے بعد پاکستان اپنے تمام
بیرونی قرضوں کی تفصیلات بھی آئی ایم ایف کو دے گا ۔ جس میں سی پیک قرضوں
کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔پاکستان کے لئے معاشی مشکلات کو کنٹرول کرنے کے
کوئی دوسرا راستہ فی الوقت نہیں بچا تھا ۔ کیونکہ پاکستان کی نئی حکومت کے
ابتدائی دو آپشن خلاف توقع کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔
دوسری جانب افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان اپنا کردار با احسن
انداز میں ادا کرنے کے لئے تیار اور مدد فراہم کررہا ہے ۔ جس کا سب سے بڑا
ثبوت افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوسری مرتبہ براہ راست دوحہ میں
فریقین کے درمیان ملاقاتیں ہیں۔لیکن کابل حکومت کا ردعمل خطے میں امن کے
لئے مسلسل رکاؤٹ کا سب بن رہا ہے ۔ چمن بارڈر پر ایک مرتبہ پھر باب دوستی
بند کردیا گیا کیونکہ پاکستان کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان حفاظتی باڑ
کو روکنے کے لئے کابل فورسز نے بھاری اسلحے کا استعمال کیا ۔فورسز کی ٹیم
سرحد پر خاردار باڑ لگانے میں مصروف تھی کہ وہاں پر افغان فورسز نے باڑ
لگانے میں مداخلت کی اورباڑ لگانے والی پاکستانی فورسزپر بلااشتعال فائرنگ
کردی، جس پر علاقے میں تعینات پاکستانی فورسز نے بھرپور جواب دیا،جس کے بعد
افغان فورسز کو اپنی فائرنگ بند کرنا پڑی۔ یہ دوسری مرتبہ افغان سیکورٹی
فورسز کی جانب سے حملہ ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تناؤ میں
اضافہ ہوا۔ اہم ترین صورتحال یہ ہے کہ کابل حکومت سرحدوں پر باڑ لگانے کی
مخالفت اس لئے کررہی ہے تاکہ ان جگہوں سے آزادنہ نقل و حرکت پر پابندی نہ
ہو۔ لیکن آزاد سرحدوں کی وجہ سے جو نقصانات ہوئے ہیں وہ ناقابل تلافی
ہیں۔کابل حکومت کی جانب سے تعاون کے بجائے اشتعال انگیز حملے سے امریکا ۔
افغان طالبان امن مذاکرات براہ راست متاثر ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر
افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کے موقع پر اس قسم کے واقعات سے امن دشمن
عناصر کو ہی فائدہ ملے گا۔امریکا کی جنگوں کا مقصد اپنے معاشی معاملات کو
تحفظ دینا شامل ہے ۔ دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دو اہم تعارفی دور
میں امریکی افواج کی بیدخلی کے بعد امریکا کی جانب معاشی مفادات کے لئے
تحفظات کا حصول اہمیت کا حامل ہے ۔ توقع یہی کی جا رہی ہے کہ اگر مذاکرات
میں تعطل پید نہیں ہوا توامریکا جلد اہم فیصلہ کرلے گا ۔ افغان طالبان نے
امریکی وفد کے ساتھ دوسری ملاقات کی باقاعدہ تصدیق کردی ہے ۔ جس کے بعد
امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگربھارت ، کابل حکومت ایسی کوئی ناپسندیدہ کاروائی
یا سازش نہ کریں جس سے دونوں اہم اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات تعطل کا
شکار نہ ہوں تو کچھ لو ، کچھ دو کے اصول پر افغانستان میں قیام امن کا خواب
پورا ہوسکتا ہے۔ پاکستان ، امریکا سمیت کسی دوسری عالمی قوت کی تجارتی و
زمینی جنگ میں جانب دارنہ کردار کے بجائے ثالث یا غیر جانبدار رہنا چاہتا
ہے۔ پاکستان کے پرامن بیانیہ کو عالمی پزئرائی حاصل ہو رہی ہے ۔
|