اس کرہء ارض پر ماں کا وجود محبتوں مشقتوں اور قربانیوں
کا استعارہ ہے یہ وہ ہستی ہے جو نو ماہ تک طرح طرح کی تکلیفیں جھیل کر اور
اپنی جان پر کھیل کر اپنے بیٹے کو دنیا میں لاتی ہے اسے اپنا خون جگر پلا
کر پالتی ہے ۔ راتوں کو جاگ جاگ کر اسے سنبھالتی ہے خود گیلے پر سوتی ہے
اسے سوکھے پر سلاتی ہے ۔ اپنی زندگی کے بہت سارے سال اور وسائل اسے اپنے
پیروں پر کھڑا کرنے میں صرف کرتی ہے حتیٰ کہ ننھا سا گوشت کا لوتھڑا ایک
تگڑا جوان بن جاتا ہے اور یہی اس کا کل اثاثہ ہوتا ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ
یوں ہونے لگتا ہے کہ یہی ماں کہیں اس کے خوابوں پر پہرہ دیتی ہے تو کہیں اس
کی ازدواجی خوشیوں کو ڈس لیتی ہے ۔ یہ نہیں سوچتی کہ جو میرے ساتھ ہؤا وہ
میری بہو کے ساتھ نہیں ہونا چاہیئے ۔ وہ بس یہ چاہتی ہے کہ جو کچھ میرے
ساتھ ہؤا وہ اس کے ساتھ کیوں نہ ہو آخر میں نے بھی تو اتنا کچھ برداشت کیا
تھا تو یہ کیوں نہ کرے؟
ایک بہو کو اپنی نئی زندگی میں سب سے زیادہ طعن و تشنیع اور ذہنی اذیت کا
سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب وہ پہلی بار امید سے ہوتی ہے ۔ ایک ساس خود
اس مرحلے سے گذر چکی ہوتی ہے اس وقت کی مشکل اور تکلیف سے بخوبی آگاہ ہوتی
ہے مگر بہو کے اس مقام پر پہنچنے کے بعد اپنے دل کو پتھر بنا لیتی ہے ۔
بیٹے کا بیوی کا خیال رکھنا اس کی دلجوئی کرنا اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا اور
وہ خود اپنے اوپر گذری ہوئی آزمائشوں کا گاہے گاہے ذکر کرنا اور بہو کی دل
شکنی اور بیٹے کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ۔ اور
بر صغیری ساسوں کا تو قومی نعرہ ہی یہی ہے کہ تمہارے ہاں کوئی انوکھا نہیں
ہو رہا وغیرہ وغیرہ ۔
عام طور پر ایسی ہی مائیں دیکھنے میں آتی ہیں جنہیں اپنے بیٹے کے لئے چاند
سی دلہن چاہیئے ہوتی ہے مگر کچھ کیس ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بہت معقول صورت
اور کماؤ بیٹے کے لئے نہایت ہی کم شکل یا غریب گھر کی لڑکی کا انتخاب کیا
گیا اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ دولت اور صورت آنی جانی چیزیں ہیں سیرت
بڑی چیز ہے ۔ اور ہم نے خود اپنی گنہگار آنکھوں سے ایسی لڑکی کو پورے گھر
کی نوکرانی بنے ہوئے دیکھا ہے ۔ ایک نہیں کئی بار کئی جگہ دیکھا ہے ۔ ہم
پلہ لوگوں میں رشتہ میسر ہونے کے باوجود اپنے سے کمتر گھرانے کے انتخاب میں
کوئی نیک نیتی نہیں بلکہ یہی سازشی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے کہ بیٹا بھی اپنے
قابو میں رہے اور ایک مفت کی نوکرانی بھی ہاتھ آ جائے ۔ پھر یہ لڑکی بےچاری
اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کے ہاتھوں اپنی پوری سسرال کو اپنی کھال کی
جوتیاں بنا کر پہنانے میں جت جاتی ہے ۔ اور اس کے مجازی خدا کی عزت نفس ستو
پی کر سوئی رہتی ہے ذرا دیر کو جاگ کر یہ تک نہیں دیکھتی کہ اس کے نکاح میں
آئی ہوئی عورت پورے خاندان کی کنیز بنی ہوئی ہے اور اس کی جنت کے چہرے پر
کتنا اطمینان اور آسودگی ہے کہ حکمت عملی کامیاب رہی ۔
ایک کیس تو ایسا بھی ہو چکا ہے کہ کسی شخص نے اپنی ماں کی پسند بلکہ ضد سے
بیاہ کر لائی ہوئی اپنی کم رُو بیوی سے تین سال تک کوئی تعلق نہیں رکھا ۔
حالانکہ یہ بات شریعت کی نظر میں کتنی ناپسندیدہ ہے اس کا اندازہ اسی بات
سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی صورت میں عورت کو خلع کا حق حاصل ہو جاتا ہے ۔
مگر وہ لڑکی بےچاری بہت مجبور اور کمزور تھی طلاق کا تمغہ عطا ہونے سے ڈرتی
تھی سو اس نے اپنے بےحس شوہر اور سسرال والوں کے دل جیتنے کے لئے اپنی ہستی
کو مٹا ڈالا اور بالآخر سرخرو ہوئی ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر اس کا کیا
قصور تھا اسے کس بات کی سزا ملی؟ وہ شخص اپنی ماں کی زیادتی کا بدلہ اپنی
بیگناہ بیوی سے اسے اپنی زندگی ہی میں بیوہ کر کے کیوں لے رہا تھا؟ اس غریب
نے اپنی زندگی کے تین قیمتی سنہرے سال مشقتیں اذیتیں جھیلتے اور طلاق کے
خوف کی سولی پر جھولتے ہوئے گذارے ۔ اگر وہ شوہر کی بےاعتنائی اور لاتعلقی
سے دلبرداشتہ ہو کر کوئی انتہائی قدم اٹھا لیتی خود کو ختم کر لیتی تو اس
کا خون کس کے سر ہوتا؟
ایک اور صاحب اپنی نوجوانی میں کسی لڑکی کو پسند کرتے تھے ۔ لڑکی یا اس کے
خاندان میں کوئی خرابی نہیں تھی یہ ہر لحاظ سے ایک بہترین رشتہ تھا مگر ان
کی ماں راضی نہیں ہوتی تھی حتیٰ کہ انہوں نے کورٹ میرج کی دھمکی دے دی تو
ماں نے بھی انہیں اپنا دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دے کر انہیں اس ارادے سے باز
رکھا اور ان کی شادی اپنی پسند سے ایک غریب گھر کی لڑکی سے کر دی انہوں نے
بیوی سے بےاعتنائی تو نہ برتی مگر استطاعت رکھنے کے باوجود اسے ایک بہتر
زندگی بھی نہ دی اور مرتے دم تک اس لڑکی سے رابطہ رکھا جس سے ان کی شادی
نہیں ہو سکی تھی کیونکہ بعد میں اس لڑکی کی بھی کہیں شادی نہیں ہو سکی تھی
۔
اسی طرح سے ایک اور قصہ ہے کہ کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا بظاہراس
رشتے میں کوئی قباحت نہ تھی مگر لڑکے کی ماں نے اپنا بیٹا ہاتھ سے نکلتا
دیکھ کر اسے اپنے دودھ کی قسمیں اور واسطے دے کر اس کی شادی اپنی بھتیجی سے
کر دی ۔ ایک ہفتے تک لڑکے نے اپنی دلہن سے کوئی واسطہ نہیں رکھا بات کھل
گئی لڑکی کو گھر بٹھا لیا گیا اور لڑکے نے اسے واپس لانے سے انکار کر دیا ۔
تین مہینے کے اندر طلاق ہو گئی لڑکی کی دوسری بہت اچھی جگہ شادی ہو گئی بچے
بھی ہو گئے ۔ اس لڑکے نے بھی اپنی پسند کی جگہ شادی کر لی ماں منہ دیکھتی
رہ گئی ۔ بیشک ماں کا بہت بڑا حق ہوتا ہے مگر اس کا مطلب اولاد کی حق تلفی
اور اپنے رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھانا نہیں ہوتا ۔ محض اپنی بادشاہی بچانے
کے لئے اس کے ساتھ زور زبردستی اور غلط جگہ شادی کا نتیجہ اکثر ہی طلاق کی
صورت میں برامد ہوتا ہے ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ مرد میں ہمت ہونی چاہیئے اگر
کسی جگہ مرضی نہ ہو تو ہرگز وہاں شادی نہ کریں اور اگر کر ہی لیں تو پھر اس
رشتے کو نبھائیں اپنے والدین کی ضد اور خود غرضی کی سزا اپنی بیوی کو نہ
دیں ۔ ذرا خدا سے بھی ڈرنا سیکھیں ۔ اور کسی بھی عورت کے ساتھ جب سسرال میں
کوئی زیادتی ناانصافی ہوتی ہے تو مرد اس میں برابر سے شریک ہوتا ہے اور وہی
انہیں اتنا موقع دیتا ہے کہ اس کی منکوحہ کی حیثیت کسی مفت کی ملازمہ سے
زیادہ نہیں ہوتی ۔ اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں میاں بیوی کے
درمیان ہونے والے نوے فیصد جھگڑوں میں مرد کی ماں بہنوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
اچھا خاصا پڑھا لکھا کماؤ گھر کی کفالت میں کردار ادا کرنے والا مرد اپنی
ماں بہنوں کے ہاتھوں کاٹھ کا اُلو بنا ہؤا ہوتا ہے ۔ قدم قدم پر روا روا
رکھی جانے والی ، بیٹی اور بہو کے درمیان تفریق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے
کے باوجود اپنے دماغ سے نہیں سوچتا ۔ کتنی ہی کم عقل نادان اور آخرت کی
پوچھ پکڑ سے بےپرواہ ماؤں نے اپنے حسد یا اپنی فسادی بیٹیوں کے کہنے میں آ
کر اپنے بیٹوں کے گھر اجاڑ دیئے ۔ گھر نہ بھی ٹوٹا تو کسی جہنم سے کم بھی
نہیں رہا ۔ کیونکہ سبھی مائیں ایسی نہیں ہوتیں جن کے پیروں کے نیچے جنت
ہوتی ہے کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بہو کے پیروں تلے سے زمین کھینچنا
جانتی ہیں ۔ |