فلم کا نام ہے ڈنکی راجہ ۔مجھے ڈر تھا کہ کہ ہزارہ کے
خانپوری راجاؤں سے لے کر پنڈی پنڈی گجر خان جہلم اور گگکھڑ کے راجہ ڈنڈا
سوٹا لے کر نکل پڑیں گے ادھر سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت جاری تھی
جمیل گجر کے بارے میں جناب ثاقب نثار شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گجر
کی بد معاشی نہیں چلے گی اس پر بھی میری قوم کے افراد چیخے چلائے میں خود
گجر گجر کرتا ہوں آل پاکستان گجرز ایسوسی ایش کا سر پرست بھی ہوں جس کے سر
پرست اعلی چودھری اقبال گجر سدا بہار ایم پی اے گجرانوالہ سے ہیں اور مزے
کی بات ہے وہ جمیل گجر کے والد ہیں ہم دونوں خاموش رہے اس لئے کہ ہمیں علم
ہے کہ جناب چیف جسٹس کے مخاطب جمیل گجر تھے جن کے بارے میں یہ ریمارکس دیے
گئے۔نہ ہی گجروں نے چیخیں ماریں اور نہ ہی راجاؤں نے شور مچایا ۔ورنہ ہو
سکتا ہے راجہ جہانزیب منہاس ہی چیخ اٹھتے اور کہتے کہ ہم راجاؤں کو گدھا
کہا گیا ہے لہذہ ہم احتجاج کرتے ہیں ہم نے تو واویلا نہیں کیا سارے راجہ چپ
ہیں حالنکہ جناب قمر زمان کائرہ نے سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کی جس کو ہم
نے مناسب طریقے سے روک لیا۔ اس ملک کے لاکھوں راجاؤں کو علم تھا کہ کسی
نگری کے حکمران کی بات کر رہے ہیں مجھے اور چودھری اقبال شفیق گجر ارشد
ضیاء اور دیگر برادری کے بڑے جانتے تھے کہ جمیل گجر کو مخاطب کیا گیا ہے
دوسری صورت میں پاکستان کے کروڑوں گجر احتجاج کرتے۔
موضوع کی طرف آنے سے پہلے پاکستان کا کشمیریوں سے تعلق رشتہ اور واسطہ جس
کلمے کی بنیاد پر ہے وہ ہماری رگ و جاں میں ہے ۔مومن جسد واحد ہیں ان کا
دکھ ہمارا دکھ ہے کشمیریوں نے آزادی کے لئے لازوال قربانیاں دی ہیں اور دے
رہے ہیا۔ان سے تعلق دینی تعلق ہے ہم پاکستانی دنیا میں پھیلے تمام مظلوں کے
ساتھ ہیں دور کی بات نہیں ہمارے وزیر خارجہ نے جنرل اسمبلی کے فلور پر جہاں
کشمیریوں کی بات کی وہیں فلسطینیوں کا ذکر کیا یہ پہلے وزیر خارجہ تھے
جنہوں نے نبی پاکﷺ کے خاکوں کے مقابلے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔کشمیری
پاکستان کا جزو لاینفک ہیں شہ رگ ہیں۔چلئے اس تعلق کو بھی الگ کر دیں ہمیں
ان کی تکلیف کا احساس ہے۔ہم ان پر ظلم و ستم نہیں دیھ سکتے حصہ بننا ایک
الگ مسئلہ ہے لیکن یہ یاد رکھیں کوئی بھی پاکستانی ان کی شام الم کو طویل
ہوتے دیکھ نہیں سکتا۔
اب بات کروں گا مطلب کی دو روز سے سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا فیاض چوہان کے
ایک اور دندان شکن مکالمے پر سیخ پاء ہے صوبائی وزیر اطلاعات نے ہمیشہ کی
طرح ایک ڈھیلی بال کرا دی ہے کہنا وہ کچھ اور چاہتے تھے مگر کشمیری کا لفظ
تکرار سے کرنے پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔گویا کسی راجے نے ڈنکی راجہ کے
خطاب پر پوری راجپوت برادری کی توہین سمجھ لیا ہے اور کسی کے بدمعاش کہنے
پر پوری گجربرادری لٹھ لے کر نکل پڑی ہے۔کرہ ارض پر پھیلے کشمیریوں نے اسے
کشمیر کی عزت کا مسلہ ء بنا لیا ہے۔مغلظات بکی جا رہی ہیں پاکستان پر
احسانات جتائے جا رہے ہیں ایک مہاشے نے بیریسٹر سلطان چودھری کو اکسایا کہ
وہ عمران خان سے ملیں اور فیاض چوہان کو گھر بھجوائیں ۔فیاض چوہان پہلے ہی
اپنی تیزی طراری کے عوض جکڑا ہوا سہما ہوا تھا اس نے پھر سے سر نکالا ہی
تھا کہ یہ کشمیری کشمیری کہنا ان کے گلے آن پڑا ہے۔حمزہ کی لمبی انگلی اور
لمبی زبان کو روکنا گلے پڑ گیا ہے ۔فیاض چوہان میرے دوست ہیں ہم دونوں آگے
پیچھے پی ٹی آئی میں آئے دونوں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ہیں۔میرا تلاش
معاش کے لئے ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۳ رہنے کی وجہ سے دو افراد آگے نکلے ایک سینٹ میں
اور دوسرا وزارت میں پہنچا ورنہ مائیک میرے پاس تھا اور رہتا اور معاملات
بھی ۔کہتے ہیں لیٹ کمر ہمیشہ لیٹ ہی رہتا ہے لیکن ایک بات کہہ دوں جب جناب
بزدار کے خلاف سنٹرل پنجابی طاقتوں نے انہیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش
کی تو خبریں اخبار نے میرا ساتھ دیا جناب ضیاء شاہد کے اخبار نے مجھے شان
سے چھاپا اور وہ کالم جس کا نام بزدار کو عزت دو تھا وہ مخلافین کے
پراپوگنڈے کو بہا لے گیا۔وہ کیا کہتے ہیں ہم ستے پتر کے منہ پر پیار دیتے
رہے اور کسی نے نوٹس بھی نہیں لیا۔اب فیاض الحسن چوہان کے لئے کمر کس کے
اترا ہوں کہ کہ جناب گجروں اور راجوں کی طرح کشمیری بھائی بھی ہوشمندی کا
مظاہرہ کریں۔اگر فیاض الحسن نے کسی کشمیری کی بات کی ہے تو اس نے نام لے کر
حمزہ،شہباز،نواز کو کشمیری کہا ہے۔ لاہور گجرانوالہ سیالکوٹ گجرات میں
کشمیر سے آنے والوں کو کشمیری کہا جاتا ہے۔فیاض کا مجھے علم ہے وہ لفظ
نیازی کا توڑ نکال رہے تھے جو مناسب نہیں تھا۔
میں دیکھ رہا ہوں لوگ ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہیں کشمیریوں کی قربانیوں
کا ذکر کر رہے ہیں اور ایسے میں وہ پاکستانیوں سے اپنے مذہبی اخلاقی رشتوں
کو بھلا دیتے ہیں۔فیاض الحسن چوہان کے خلاف ایک مہم شروع کر دی گئی ہے۔لوگ
بھول رہے ہیں کہ ہم میڈیا پرسنز نے کتنے جبر کا مقابلہ کیا ہے۔فیاض چوہان
ان دنوں میڈیا پر ثناء اﷲ،طلال،دانیال،اور عابد شیر علی کا مقابلہ کرتا رہا
جب سب کو چپ سی لگی تھی۔پنڈی کالج روڈ کے شکیل اعوان کا کوئی سامنانہ کرتا
تھا میں میدان میں اترا اور اسے شکست دی۔فیاض چوہان کی تیزیاں جو مخالفین
کی صفوں کو چیر کے نکلتی تھیں انہیں ایک دو ماہ میں نیام میں بند کرنے کی
جو بھی کوشش کی جائے گی وہ ناکام ہو گی۔البتہ میرا اپنے اس چھوٹے بھائی کو
تلقین ہے ضروری نہیں شیخ رشید کی طرف الفاظ کی پوری گردان کا برسٹ ماریں
ہولے سے پیار سے جواب دیں۔اب ہم اپوزیشن نہیں ہیں لوگ ہمیں دیکھ رہے
ہیں۔فواد چودھری اور فیاض چوہان پی ٹی آئی کا منہ مہاندرہ ہیں آپ جو کہیں
گے وہ عمران خان کا لفظ ہو گا۔اسی لئے کہتا ہوں اب حکومت اور پارٹی الگ
ہونی چاہئے اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ہاؤسنگ پراجیکٹ کا بوجھ ہلکا ہوا
تو پارٹی کے نئے سیکرٹری جنرل جناب ارشد داد اس جانب توجہ دیں گے۔ارشد داد
بریگیڈئر جہانداد کے صاحبزادے ہیں اور گمنام سپاہی کی طرح ۲۰۱۸ کے الیکشن
کے پیچھے یہی تھے۔۔امید کرتا ہوں میرے کشمیری دوست جو مجھے ہزارے وال پنڈی
وال سے زیادہ کشمیری سمجھتے ہیں ۔جتنا مجھے جموں کشمیر میں پڑھا جاتا ہے
شائد کسی اور خطے میں نہیں ہاں البتہ سرائیکی دیس کے لوگ مجھ سے محبت کرتے
ہیں اس لئے کہ خبریں کی طرح ہر پسے ہوئے طبقے کو میں دل سے قریب سمجھتا ہوں
۔فیاض چوہان کی اڑان اونچی تھی کال کا جواب نہیں دیتا لوگ روتے ہیں مگر اسے
اٹھانا فرض سمجھتا ہوں ۔اسے خیال رکھنا ہے۔اﷲ نے جن لوگوں کو اٹھانے کی
طاقت دی ہوتی ہے وہ انہیں گرانے کی قوت بھی دیتا ہے یہ عوام ہیں ان کا فون
نہیں تو میسیج کا جواب دیا کرو۔پی ٹی آئی کے وزراء کو یہ مرض لاحق ہو گیا
ہے سیکرٹری رکھو جو آپ کے چاہنے والوں کے سوالوں کا جواب دے۔پی ٹی آئی کو
ایک لاکھ سے اوپر ووٹ ہر حلقے سے ملے پنڈی میں اڑتیس ہزار۔جان لیجئے کہ پی
ٹی آئی کا رکن متلون مزاج ہے منتقم بھی یہ نہ ہو کل پیپلز پارٹی کی طرح
پانچ سو بکسے سے نکلیں اس کی ذمہ داری آپ وزراء پر ہو گی۔یہ میں لکھ رہا
ہوں اور سمجھا رہا ہوں۔
میاں محمد نے کہا تھا کہ دوستوں سے چنگی مندی ہو جاتی ہے یار یاروں کا مندہ
نہیں مانگتے ۔
|