موجودہ نظام کے نقائص

کیا ملکی سیاست نوے کی دہائی کی طرف واپس جارہی ہے؟ جب حکومتوں کو نہ چلنے دینے کا رویہ اپوزیشن کی کامیابی تصور کیا جاتا تھا۔نئی حکومت کو آئے ابھی دو ماہ ہی گزرے ہیں اسی قلیل عرصے میں میڈیا کا سخت اور غیر روایتی انداز معیشت کی بدحالی سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل ناتجربے کار حکومت کامنہ چڑا رہے ہیں پچھلے دو مہینوں کے حالات اور حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ کرپشن ہمارے ملک میں کوئی مسئلہ نہیں ہم بحیثیت قوم شخصیتوں کے پجاری موروثی سیاست کے حامی ہیں میڈیا کی ہر سچی جھوٹی بات کا ہمیں یقین حقائق جاننے کی کوئی خواہش نہیں کسی ایک کے کئیے گئے نقصانات کا ذمہ دار کسی دوسرے کو ٹھہرانا ہمارا شیوہ اپنی اصلاح کیے بغیر دوسروں کی اصلاح کا جذبہ بدرجہ اتم ہے ہم بحثیت مجموعی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں ہم ایک ایسا منتشر ریوڑ ہیں جسے قابو کرنے کے لئے کسی لیڈر کی نہیں بلکہ ڈنڈے کی ضرورت ہے جو اپنی دہشت سے ہمیں یکجا کر سکیں۔

اس قوم نے عظیم سپوت پیدا کیے پچھلے ستر سالوں میں دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا کھیل٬ تعلیم ہو یا جنگ کا میدان ہر جگہ اپنی دھاک بٹھائی لیکن پچھلے چند سالوں میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ قوم یکدم بانج ہوگئی ہے معاشرے میں اشفاق احمد فیض احمد فیض حبیب جالب جیسے لوگ نظر نہیں آتے جو قوم کی سمت کو ٹھیک کر سکیں بلکہ ڈگڈگی بجانے والے مداری ان کی جگہ لے چکے ہیں ہمارا نظام ایماندار اور مخلص لوگوں کو قبول کرنے سے انکاری ہے ہمیں زرداریوں اور شریفوں کی لت پڑچکی ہے جو ہمیں بھیک مانگنے پر مجبور کر چکے لیکن پھر بھی ہمارے محبوب قائد ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر عجب اس میڈیا پر جس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو مہینوں میں نئی حکومت کا تیاپانچہ کردیا کیا اب سیاسی بیانات حکومت کی کارکردگی پرکھنے کی کسوٹی ہوں گیں جنہوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا وہی لوگ حکومت پر تنقید کر رہے ہیں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے یا سابقہ لیکن جواب وہی چلتا ہے جو موجودہ اپوزیشن دیتی ہے حکومت پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ اب تک کنٹینر پر ہے کیوں نہ ہو کہ اس کنٹینر نے ہی تو حکومت تک پہنچایا ہے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا عمل شروع ہوتے ہی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے ذرائع ابلاغ پر ریاست کی تشہیر کچھ اس طرح کی جا رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا موجودہ حکومت نے آکر ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔

حکومتی مخالفین کے لہجے انتہائی سخت اور ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کسی طرح ملک کو نقصان پہنچے تو ہمیں بغلیں بجانے کا موقع ملے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہے ذاتی حملے اور گھریلو خواتین کے لئے نازیبا الفاظ کا استعمال قابل مذمت ہے یہ رویے جمہوری نہیں ہو سکتے ان رویوں میں کہیں نہ کہیں وہ نفرت چھپی ہے جو بغض معاویہ کا درجہ رکھتی ہے۔

اسٹیٹسکو اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اس نظام کے حامی اسے بچانے کے لئے متحرک ہیں یہ نظام جو مکمکا کی پیداوار تھا تیسری سیاسی قوت کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔بیوروکریسی حکومتی پالیسیوں پر عمل کرنے سے ہچکچا رہی ہے ادارے تباہی سے دوچار ہیں پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کا خواب بھی دھرا کا دھرا ہی رہ گیا پارلیمنٹ میں گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں ہورہا ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اپوزیشن نے اب تک حکومت کو قبول ہی نہیں کیا۔

اٹھارویں ترمیم مسائل پیدا کررہی ہے حکومت چاہتے ہوئے بھی پورے ملک میں نظام تعلیم پولیس ریفارمز اور صحت عامہ کی یکثر پالیسی رائج نہیں کرسکتی ہر صوبے کی دو اینٹ کی مسجد اٹھارہویں ترمیم کا تحفہ ہے اٹھارہویں ترمیم اسی وقت کارگر ثابت ہو سکتی ہے جب پورے ملک میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہو اور پاکستانی سیاست میں اس کے دور دور تک کوئی مکانات نہیں تو آخرکار اٹھارہویں ترمیم کو کس مقصد کے لیے لایا گیا۔

یہ تمام خامیاں نظام کے مفلوج ہونے کی نشاندہی کررہی ہے نظام چلتا نظر نہیں آ رہا اگر حکومت کو گرایا گیا تو بھونچال آئے گا جس سے جو سونامی اٹھے گی اس کی لہریں اس نظام کو بہا لے جائیں گی کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا جو اگلی باری کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اگر اس نظام کو بچانا ہے تو اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کو قبول کرنا ہوگا احتساب کے اس عمل کو سیاسی رنگ دینے کے بجائے حمایت کرنی ہوگی یہ کام عوام نہیں کر سکتے اس کے لیے سیاسی قائدین کو سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کے لئے سوچنا ہوگا۔

Imran Ahmed Memon
About the Author: Imran Ahmed Memon Read More Articles by Imran Ahmed Memon: 8 Articles with 6827 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.