معدنیات قدرت کے وہ خزانے ہیں جو خدا نے
اپنی مخلوق کیلئے زمین کی تہوں میں چھپا رکھے ہیں اور جو جتنا محنت کش اور
منصوبہ ساز ہے اس میں اس کا اتنا ہی حصہ ہے۔ قدرت نے یہ دولت یوں تو ساری
زمین کے نیچے پھیلا رکھی ہے لیکن کچھ علاقوں کو انتہائی قیمتی معدنیات
انتہائی فراخ دلی سے عطا کی ہیں۔
بلوچستان انہی خوش قسمت زمینوں میں سے ایک زمین ہے کہ جن کو خدا نے قیمتی
معدنیات سے فراوانی سے نوازا ہوا ہے۔ یہاں کوئلے سے لے کر گیس اور کرومائیٹ
سے لے کر تانبے اور سونے تک کے بیش بہا خزانے موجود ہیں ۔ لیکن اس زمین کی
بد قسمتی یہ ہے کہ اسے دریافت کرنے والے ، نکالنے والے اور استعمال کرنے
والے مخلص نہیں اور یہی وجہ ہے کہ معدنی لحاظ سے دنیا کا امیر ترین خطہ
ہونے کے باوجود یہ غربت، افلاس ، بد حالی، تعلیم کی کمی اور انتہائی
پسماندگی کا شکار ہے۔
سوئی میں گیس ، چملانگ اور مچھ میں کوئلہ ، مسلم باغ میں کرومائیٹ اور بے
شمار مقامات پر بے شمار دیگر معدنیات موجود ہیں۔ چاغی کو ایک اعزاز تو یہ
حاصل ہے کہ پاکستان نے یہاں اپنے ایٹمی دھماکے کیے لیکن دوسرا فخر اس کو یہ
بھی حاصل ہے کہ اسی علاقے میں ریکوڈک میں سونے اور کاپر کے بیش بہا خزانے
بھی دفن ہیں۔ ریکوڈک کی زمین دنیا کی امیر ترین زمینوں میں سے ایک ہے کہ
یہاں 12.3ملین ٹن تانبا یا کاپر اور 20.3ملین اونس سونا موجود ہے۔ ایک
اندازے کے مطابق ان ذخائر کی قیمت 500بلین ڈالر ہے۔ جو کہ اس سے زائد ہو
سکتی ہے لیکن ابھی تک سنجیدگی سے اس دولت کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ہماری
دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایک برائی یہ بھی ہے کہ ہم جو کام خود کر سکتے
ہیں اس کو بھی تن آسانی اور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
یہی کچھ ہم ریکوڈک کے عظیم خزانے کے ساتھ کر رہے ہیں ہم نے اس بیش بہا
خزانے کو غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دیا ہے اور بیرک گولڈ جیسی بدنام
زمانہ کمپنی کو بھی اس میں حصہ دار بنا دیا ہے بیرک گولڈ ایک انتہا ئی بد
نام کمپنی ہے اور دیگر جن ملکوں میں جہاں یہ کام کر رہی ہے اس سے قتل و
غارت ، عورتوں سے زیادتی ،مقامی لوگوں کو تنگ کرنے اور ان کو خوفزدہ کرنے
جیسے جرا ئم منسوب ہیں تو ہم کیسے اس سے کسی نیکی یا بھلائی کی توقع کر
سکتے ہیں دوسری کمپنی اینٹا فوگیسٹا ہے اور انہیں دونوں کمپنیوں کے اشتراک
کا نام ٹیتھیان کاپر کمپنی TCCہے ۔ ان کمپنیوں میں سے ہر ایک کا حصہ 37.5
فیصد ہے جبکہ اس عظیم منصوبے میں حکومتِ بلوچستان کا حصہ 25فیصد ہے۔ یوں ہم
مہارت کے بدلے اپنی دولت کا 75فیصد حصہ بیچ کر اپنی قومی دولت ضائع کر رہے
ہیں کیونکہ یہ مہارت بھی ہمارے پاس موجود ہے اور صلاحیت بھی اور بقول ڈاکٹر
ثمر مبارک مند نہ ہمیں کسی ماہر نہ مہارت اور نہ کسی بیرونی صلاحیت کی
ضرورت ہے۔ ریکوڈک ہمارے لیے قدرت کا ایک عطیہ ہے جسے ہم اپنے ملک کی ترقی
کیلئے استعمال کر سکتے ہیں اور بقول ایک امریکی جیالوجسٹ اگر ریکوڈک کے
خزانے سے پاکستان کو اس کا صحیح اور درست حصہ بھی ملے تو یہ کسی بھی تیل
پیدا کرنے والے ملک سے زیادہ امیر ہو سکتا ہے۔
آج جب کہ ملک معاشی طور پر مسلسل تنزلی کی طرف جا رہا ہے غربت کی لکیر سے
نیچے کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی غربت بہت سارے معاشرتی مسائل
بلکہ دہشت گردی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ ریکوڈک جیسے خزانے ہمارے لئے قدرت
کا ایک تحفہ ہیں اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ قدرت کئی بار ضرور
لیکن بار بار موقع نہیں دیتی۔ لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے
مفاد پرست حکمران ان قدرتی خزانوں کو غیروں کے ہاتھ فرخت کر دیتے
ہیں۔ریکوڈک کے قابلِ استعمال ذخائر اس وقت 260بلین ڈالر کی مالیت کے ہیں
جبکہ کل ذخائر کا محتاط ترین اندازہ 500بلین ڈالر ہے۔ جس میں اضافے کا
امکان ایک ٹریلین ڈالر تک کا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کی فرخت سے ایک
بلین ڈالر کے مالیت کے 260سٹیل ملز جتنا نقصان ملک کو پہنچے گا۔ اگر ثمر
مبارک مند جیسی شخصیت کے مطابق اس سونے ، کاپر اور دیگر معدنیات کی کشید
کیلئے ہمیں کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں تو پھر کیوں اس کے حصص یا مکمل
طور پر فروخت کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ بات یہ نہیں کہ کیوں کسی منصوبے
کا ٹھیکہ کسی غیر ملکی کمپنی کو دیا جائے یہ سب کچھ آج کی دنیا میں عام ہے
اور کاروباری دنیا اسی طرح چل رہی ہے لیکن اس کے بدلے میں میزبان ممالک بہت
زیادہ فوائد اور سرمایہ حاصل کرتے ہیں اور اگر وہ بھی اس ملک میں خود
ماہرین اور افرادی قوت موجود نہ ہو تو تب۔ اور ریکوڈک جیسے خزانے تو خدا کی
نعمت ہوتے ہیںجب کہ افرادی قوت، مہارت اور صلاحیت سب کچھ موجود ہے تو اس
انمول خزانے کو کیوں غیروں کے ہاتھوں بیچا جائے۔ اگر آج ہم خود اس قابل نہ
بھی ہوں تو بھی اس کو آنے والی نسلوں کی امانت سمجھ کر غیروں کی دست برد سے
بچایا جائے۔ کیونکہ ہم نے ان کیلئے کوئی دوسرا قابلِ فخر اثاثہ نہیں چھوڑا
۔
دہشت گردی ، بد امنی، مہنگائی ، افراطِ زر اور ناخواندگی جیسے مصائب دینے
کے بعد کم از کم اگر ہم اتنا ہی کر لیں کہ جو معدنیات قدرت نے ہمیں دی ہیں
انہیں اگر نکال کر اس ملک کی ترقی میں استعمال نہیں کر رہے تو اس امید پر
انہیں امانتاً زمین میں رہنے دیں کہ جب بھی یہ نکلیں اس ملک اس زمین کے کام
آسکیں اور بلوچستان جہاں ویسے ہی احساسِ محرومی کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم
لے رہے ہیں جن میں بلوچستان کی کئی شکایات بالکل بجا ہیں اور انہیں دور
کرنے کیلئے حکومت کو بہت تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ ریکوڈک نہ صرف ملکی ترقی
بلکہ بلوچستان کی شکایات دور کرنے کا بھی ایک اچھا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
کاپر اور سونے کے ساتھ ساتھ دیگر قیمتی معدنیات سے بھرپور یہ خزانہ پاکستان
کی قسمت بدل سکتا ہے۔ پاکستان کو قدرت نے غریب نہیں بنایا لیکن اسے وہ
حکمران نہ مل سکے جن کا خلوص شک و شبہے سے بالا تر ہو ورنہ تو ہم کم از کم
اس دولت کو جو قدرت نے ہمیں بنی بنائی دی ہے اس کی قدر کر لیتے اور ان
خزانوں سے مکمل استفادہ کرتے اور ان میں کسی خیانت کا سوچتے بھی نہ ۔ لیکن
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تھر کول کے اور دوسری طرف ریکوڈک کے عظیم
ذخائر ہمارے خلوص کے منتظر ہیں۔ جن پر ہمارے حکمرانوں کو خصوصی توجہ دینے
کی ضرورت ہے۔ تھر کول سے ہم اپنی توانائی کی تمام ضروریات پوری کر کے فاضل
توانائی کو دوسرے شعبوں میں بھی استعمال کر سکتے ہیں جبکہ ریکوڈک تو
پاکستان کو دنیا کے خوشحال ترین ملکوں کی صف میں کھڑا کر نے کو کافی ہے۔ |