بسم اﷲ الرحمن الرحیم
دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی تباہیوں کے بعد دنیا سر جوڑ کر بیٹھی کہ کس
طرح سے آنے والی نسلوں کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے ۔دنیا میں امن قائم
کرنے اور جنگوں سے روکنے کے لیے اقوام متحدہ وجود میں آئی لیکن اس کے
باوجود دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی ۔یہ الگ کہانی ہے کہ اقوام متحدہ کو
عالمی طاقت امریکہ نے کس طرح اپنے حق میں استعمال کیا ۔ دوسری جنگ عظیم میں
چھ ملین سے زائد انسان جو اس وقت کی کل آبادی کا تین فیصد تھے جنگ کا
ایندھن بنے ۔گولیوں ، بموں سے بچنے والے قحط اور بیماریوں کا شکار ہو گئے ۔جاپان
کے شہر ناگاساکی اور ہیرو شیما میں امریکہ نے ایٹمی بم کے ذریعے جو تباہی
پھیلائی اس کا اثرات بعد میں آنے والی کئی نسلوں پر بھی موجود رہے ۔اقوام
متحدہ کی تشکیل کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ اب امن کا دور دورہ ہو گا ،انسانیت
ترقی کی معراج پر پہنچ جائے گی، ممالک کی خودمختاری کا احترام سب ممالک
کریں گے لیکن دو عالمی طاقتوں کی ہٹ دھرمی اور دنیا پر اپنے اثر ورسوخ کی
ہوس نے دنیا کو پھر سے ایک دوسرے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ۔سرمایہ
دارانہ بلاک اور کمیونسٹ بلاک آمنے سامنے آگئے جس کی قیادت بالترتیب امریکہ
اور روس کرنے لگے ۔دونوں عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کو سمیٹنے اور
مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے مختلف سازشوں کا سہارا لینے لگے۔پراکسی وارز
اس دور کا اہم ہتھیار تھا جبکہ پس پردہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ بھی جاری
تھی۔اس موقع پر دنیا کے کچھ بڑوں نے امریکہ و روس کے درمیان مستقل تنازعہ
کی صورتحال بھانپ لی تھی جس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے
مختلف اقدامات شروع کیے گئے ۔اس کے لیے مختلف ممالک اور دنیا کی بڑی شخصیات
متحرک ہوئیں جس کے باعث مختلف معاہدے وجود میں آئے جس سے یہ سمجھا جارہا
تھا کہ شاید دنیا اب تباہی سے کسی حد تک محفوظ ہو سکے گی تاہم اب پھر سے یہ
امیدیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں
کے معاہدے سے نکلنے کی دھمکی کے بعد روس نے خبردار کیا ہے کہ یہ ایک خطرناک
اقدام ہوگا۔عالمی سیکورٹی کے لیے اس معاہدے کو اہم قرار دیتے ہوئے روسی
نائب وزیر خارجہ سیر گئی ریابکوف نے امید ظاہر کی ہے کہ عالمی سطح پر اس
معاہدے کے پیش نظر عالمی برادری اس کی امریکی اقدام کی مذمت کرے گی ۔روسی
موقف کے مطابق امریکہ ایسی دھمکیوں کے ذریعے بلیک میلنگ کر رہا تاکہ وہ
مختلف رعاتیں حاصل کرے۔ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا یہ معاہدہ اسی کی
دہائی میں امریکی صدر رونلڈ ریگن اور روسی صدر میخائل گوربا چوف کے درمیان
طے پایا تھا ۔ ان دنوں روس کی جانب سے ایس ایس 20میزائل نصب کرنے پر امریکہ
اور نیٹو نے شدید ردعمل کا اظہا ر کیا تھا ۔اس کے جواب میں امریکہ نے اس
میزائل کا توڑ کرنے کے لیے یورپ میں زمین سے مار کرنے والے کروز میزائل اور
پرشنگ میزائل نصب کیے تھے ۔ اس امریکی اقدام کے باعث دنیا میں یہ احساس
تیزی سے ابھرا کہ یورپ ایک نئی جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے جس کا نتیجہ سوائے
تباہی کے کچھ نہیں ہوگا اور اس کے اثرات یقینی طور پر محدود نہیں ہوں گے
لہذا یورپ سمیت دیگر ممالک میں امریکی اقدام کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں
آیا اور بڑے بڑے مظاہرے کیے گئے ۔1985میں میخائل گوربا چوف کے جنرل سیکرٹری
بننے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جوہری میزائلوں کے روک تھام کے لیے ہونے
والے مذاکرات میں تیزی سے مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی ۔1987میں دونوں
ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات کامیاب ہو گئے اور یوں ایک معاہدہ طے
پاگیا۔1991تک اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے تقریبا 2700میزائل تباہ کیے
گئے ، اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی تنصیبات کا معائنہ کر
سکتے ہیں ۔ابتدائی طور پر روس اور امریکہ اس معاہدے کا حصہ تھے تاہم بعد
1991میں اس معاہدے کے لیے رکنیت کا اعلان کیا گیا جس کے بعد بیلا روس ،
قزاخستان اور یوکرین بھی اس معاہدے کا حصہ بن گیا۔سرد جنگ کے خاتمہ کے
بعدکئی یورپی ممالک جن میں جرمنی ، ہنگری، پولینڈ ، چیک ریپبلیکن شامل ہیں
اپنے میزائل ختم کر دیے ۔امریکی دباؤ کے تحت 2000میں چیکو سلواکیہ نے بھی
اپنے میزائل تباہ کر دیے ، 2002میں یورپی ممالک میں سے بلغاریہ وہ آخری ملک
تھا جس کے پاس میزائل کا ذخیرہ موجود تھا تاہم مئی کے آخر میں ہی اس نے بھی
اپنے تمام میزائل امریکہ کی مدد سے ختم کر دیے ۔
اس معاہدے سے دستبرداری کی باتیں 2007میں سامنے آئیں جب روسی صدر ولادی میر
پوٹن نے خبردار کیاکہ وہ اس معاہدے سے نکل سکتے ہیں ۔ روس کی اس دھمکی کی
وجہ امریکہ کی جانب سے یورپ میں ڈیفنس شیلڈ کی تنصیب تھی ۔ روس نے اس پر
اپنے بھرپور تحفظات کا اظہار کیا تاہم اس کے باوجود دنوں ممالک نے اسی سال
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کو دعوت دی کہ وہ بھی اس معاہدے کا
حصہ بنیں ۔2014میں امریکہ نے الزام عاید کیا کہ روس اپنی ضرورت سے زائد اور
غیر قانونی اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے کروز میزائل بنا رہا
ہے۔2017میں نیویارک ٹائمز نے امریکی فوج کے ذرائع سے رپورٹ جاری کی کہ وہ
روس کی جانب سے آئی این ایف معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضرورت سے زائد
میزائل بنانے اور نصب کرنے کی وجہ سے تشویش کا اظہار کرتے ہیں ۔تاہم کچھ ہی
عرصہ میں امریکہ ذرائع نے تصدیق کر دی کہ روس ایس ایس سی 8میزائل بنا چکا
ہے جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
اس وقت صورتحال سر د دور سے کافی مختلف ہے کہ اب اس دوڑ میں روس اور امریکہ
ہی نہیں بلکہ دیگرعالمی و علاقائی ممالک بھی شامل ہیں ۔اب دنیا میں بھی دو
بڑی طاقتوں کا نظام موجود نہیں ہے ۔چین ایک بڑی طاقت ہونے کی وجہ سے اس دوڑ
کا حصہ ہے جبکہ دیگر طاقتیں بھی اس میں شامل ہو رہی ہیں۔یہاں یہ یاد بھی
رکھنا ضروری ہے کہ روس اور امریکہ کی بڑی آمدن کا ایک ذریعہ جنگی ہتھیاروں
کی خریدو فروخت بھی ہے ۔عالمی سطح پر موجود جنگی ہتھیاروں کے بیوپاری دنیا
میں امن کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔اس صورتحال میں دنیا کے بڑوں کو پھرسے
سوچنا ہو گا کہ کس طرح سے دنیا کو اس اسلحہ سازی کی صنعت سے نجات دی جا
سکتی ہے ۔دنیا کو مزید ہیرو شیما اور ناگا ساکی جیسے سانحات سے بچانا ذیادہ
ضروری ہے۔ |