تحریر۔۔۔ ڈاکٹر سید فہیم کاظمی الچشتی
قرآن کی مخاطب پوری نوع انسانی ہے اور قرآن میں 756آیات کریمہ ایسی ہیں، جن
میں انسان کو غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ۔ قرآن نوع انسانی کے ان افراد
سے مخاطب ہے ، جو بصیر ت والے او غورو فکر کرنے والے ہیں۔ جومظاہر قدرت پر
غور کرتے ہیں ان کی ماہیت کوسمجھتے ہیں اور تہ درتہ حقائق ادھیڑتے ہوئے اﷲ
کی کاریگری ، صناعی کو دیکھ کر اﷲ کی عظمت تک پہنچنے کی کوشش میں مسلسل
مصروف رہتے ہیں۔ ان کے غورو فکر کے سلسلہ میں کہیں انقطاع واقع نہیں ہوتا۔
یہ غورو فکر مسلسل ہمیشہ قائم رہتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ قرآن ہرگز
ہرگز ان قوموں اور لوگوں سے مخاطب نہیں ہے جو لکیر کے فقیر ہیں اور
غوروفکرسے عاری ہیں۔ نوع انسانی کے ایسے افراد کو قرآن چو پائے قرار دیتا
ہے بلکہ چوپایوں سے بھی بد تر۔۔۔قرآن انسان سے جس بصیرت کا تقاضا کرتا ہے،
آج کا مسلمان اس سے کوسوں دور ہے۔ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں یہ نہیں ہو
سکتا کہ ایک شخص مذہب کاعالم ہو اوراسے سائنسی علوم کی شنید نہ ہو۔ بلکہ
قرآن نوع انسانی کے افراد کو اس نہج پر دیکھنا چاہتا ہے کہ حامل قرآن سے ان
گنت سائنسی علوم کے سوتے پھوٹیں اور قرآن کے منکر ملحد سائنسدان انگشت
بدنداں رہ جائیں۔ شعوری وسعت کے بغیر قرآن اور قرآنی آیات کاصحیح مفہوم کسی
انسان کے ذہن پر نہیں آشکارا ہو سکتا ۔جتنی زیادہ شعوری وسعت ہوگی اتنے ہی
زیادہ قرآن کے معنی و مفاہیم ذہن پر آشکارا ہوں گے حضور ؐ پر اترا ہوا قرآن
اورآپ کی تعلیمات و سیرت کسی ایک قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری نوع
انسانی کاعلمی ورثہ ہے۔ اس ورثہ سے لکیر کا فقیر بندہ مستفید نہیں ہوگا
بلکہ وہ فیضیاب ہوگا جو اپنے آپ کو اس علم کااہل ثابت کرے گا اور یہ میراث
اس ہی کو منتقل ہوگی اور یہ ایک ایسی ٹھوس حقیقت ہے کہ جس کو کسی بھی طرح
جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ سن ہجری کی ابتدائی صدیوں میں مسلمان علمی لحاظ سے
پوری دنیا کے امام تھے۔ ہر سو ان کے علوم کا طوطی بولتا تھا اور آج یہ حالت
ہے کہ علم کے ہر ہر شعبے میں اغیار کے دست نگر ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے
اندر وہ بصیرت، فہم اور علم پیدا نہ کر سکے جس کا تقاضا قرآن ان سے کر رہا
تھا اور تعلیمات نبوی کر رہی تھیں۔ قرآن اور تعلیمات نبوی کو اگر کسی نے
زندہ رکھا ہے تو وہ صوفیائے کرام ہیں۔ ان قدسی نفس حضرات نے جان جوکھوں میں
ڈال کر رسول ؐ کی اس امانت کو محفوظ رکھا۔ وگرنہ سلاطین و بادشاہ تو صرف
مظاہرات میں کھو کر اسلامی اور قرآنی تعلیمات کے حقیقی جوہر سے دور ہوچکے
تھے۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ جب ہم موجودہ دورمیں سجادہ نشینوں ، گدی نشینوں اور
پیروں فقیروں کودیکھتے ہیں تو اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔ ان کی طلسماتی دنیا
عجیب و غریب ہے اور ان کے ہاں جو طور طریقے رائج ہیں ، ان میں قرآن فہمی
اور تعلیمات نبوی کاکوئی عکس نظر نہیں آتا۔ صوفیاء کرام کی اکثر درگاہیں ان
لوگوں کے قبضہ میں ہیں ، جو صوفیائے کرام کی تعلیمات ، بصیرت اور فہم سے
بالکل نا بلد ہیں۔
اکثراولیائے کرام کے مزارات پر منشیات کی بھر مار ہوتی ہے۔ چرس کے نشے میں
مدہوش لوگوں کوملنگوں کانام دے کر ان سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
حالانکہ صوفیائے کرام کسی بھی قسم کے نشہ تمباکو نوشی وغیرہ کو سخت ناپسند
فرماتے تھے۔ چہ جائیکہ نشہ کی اجازت دے دیں درباروں کے مجاور بھی اکثر اپنے
مخصوص مسلک کا پرچار کرتے ہیں۔ حالانکہ اس چیز کا صوفیائے کرام سے قطعی
تعلق نہیں ہے۔ ان مجاوروں اور سجادہ نشینوں کی شعوری ناتوانی کا یہ عالم ہے
کہ اہل روحانیت جس کو بھان متی اور طلسمات وشعبدے سمجھتے تھے ، ان کو
کرامات کا نام دے کر ان بزرگوں کی تعلیمات سے انحراف کیا جارہا ہے۔ حالانکہ
یہ بزرگ اپنے دورمیں صرف صوفی ہی نہیں بلکہ سائنسدان بھی تھے ،انہیں ہر طرح
کے علوم پر عبور حاصل تھا۔ سائنسی علوم کی تمام شاخوں اور شعبوں سے یہ قدسی
نفس حضرات آشناتھے کیونکہ ایک روحانی بندے کی بصیرت سے مظاہرات کا ظاہر او
رباطن پوشیدہ نہیں رہ سکتا، جو علم اورایجاد کا انکشاف ایک سائنسدان اپنی
پوری زندگی تیاگ کر او رکھربوں ڈالرخرچ کرکے کرتاہے۔ وہ علم ایک صوفی کی
نگاہ بصیرت پر بغیر کسی کوشش کے عیاں ہوتاہے۔ آج سائنس جو انکشافات کر رہی
ہے، اس سے ہمارے اسلاف 14سو برس قبل واقف تھے۔ حضرت امام جعفر صادق ؑ
سائنسی قوانین کا جو انکشاف سینکڑوں برس قبل کر گئے ، سائنس ابھی تک وہاں
نہیں پہنچ پائی ہے۔ اسی طرح حضرت سید عبدالقادر جیلانی، حضرت شاہ ولی اﷲ نے
جن علوم کا انکشاف فرمایا، آج کی سائنس کھربوں ڈالر خرچ کرکے اورسینکڑوں
برس کی عرق ریزی کے بعد وہی بات کہہ رہی ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی
فرماتے ہیں کہ دنیا میری ہتھیلی پر رائی کے دانے کے برابر ہے۔ سلطان الہند
حضرت معین الدین چشتی اجمیری ، حضرت خواجہ غریب نواز اپنے مرشد کے حضور
خانقاہ میں 22سال پانیبھرنے کی خدمت سر انجام دیتے رہے جبکہ آپ نے 18سال کی
عمر میں بیعت کی تھی۔ جب آپ کی عمر چالیس سال ہوئی تو مرشد نے اپنی خصوصی
مجالس میں بیٹھنے کی اجازت اور کچھ عرصہ بعد انگشت شہادت اور بڑی انگلی
سامنے کرکے حضرت خواجہ غریب نواز کومخاطب کرکے پوچھا۔
معین الدین ! ……………… کیا دیکھتا ہے؟
حضرت خواجہ معین الدین نے عرض کیا ’’ حضور ! آپ کی دوانگلیوں کے درمیان
18ہزار عالمین کا مشاہدہ کررہا ہوں‘‘
یہ اٹھارہ ہزار عالمین ہماری دنیا کی طرح آباد دنیا ہیں،جہاں انسان ،فرشتے
اورجنات بستے ہیں۔ آج کی سائنس اس زمین کے علاوہ آج تک کائنات میں کسی
دوسری آباد زمین تک پہنچنا تو درکنار کسی آباد زمین کو دریافت تک نہیں
کرسکی۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ صوفیائے کرام سائنسدان نہیں ہیں۔
کہنا یہ مقصود ہے کہ قرآن نوع انسانی سے جس بصیرت کا تقاضا کرتا ہے، وہ
بصیرت صوفیائے کرام کو حاصل تھی اور صوفیائے کرام کے مزارات، آستانے اور
درگاہیں ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کی تعلیمات اور ان کے لافانی
و عظیم کردار کا پرتو اور ان کی بصیرت ہمارے اندر پیدا ہو ۔ اگر ہمارے ہاں
ان بزرگوں کے آستانوں پر بھنگیں کوٹی جاتی رہیں ، مسلکی و فقہی بے معنی
مناظرے ہوتے رہے، رعونت اور ریاکاری کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا ہے تو ہم
صوفیاء کرام کی بصیرت اور علم اور تعلیمات سے بہرہ ور نہ ہو سکیں گے۔
موجودہ دور میں ضروری ہے کہ اولیائے کرام کی درگارہوں پر جدید سے جدید
لیبارٹیز اور رصدگاہیں قائم ہوں ۔ جدید اوراعلیٰ سائنسی علوم کی تدریس ہو۔
فلاحی ادارے قائم ہوں، جہاں محنت کرنے وا لے ضرورت مندوں کو امداد مل سکے۔
فری علاج ومعالجہ کے لیے ہسپتال قائم کیے جائیں۔ روحانی علوم کی سائنسی و
علمی توجیحات کے ادارے قائم ہوں۔ اخلاق سنوارنے اور تعمیر کردار کے حوالے
سے موزوں ماحول تشکیل دیا جا کر ادارتی سطح پر کوششیں کی جائیں۔ ماورائی
علوم اور قرآن کے علوم پر عظیم الشان یونیورسٹیاں قائم کی جائیں یہ طریقہ
تو سراسر اولیائے کرام اور تعلیمات نبوی ؐ کے خلاف ہے کہ چندنیم پڑھے لکھے
مجاور اور سجادہ نشین ان درگاہوں کے متولی بن کر بیٹھ جائیں ، جہاں منشیات
کا سرعام استعمال کیا جائے ۔ فخرو رعونت پر مبنی خشک مواعظ کہے جائیں، اپنی
بڑائی بیان کرکے ریا کاری کے مظاہرے کیے جائیں۔ یہ سب کچھ خلاف شرع ، خلاف
طریقت، خلاف اسلام اور خلاف قرآن ہے
|