ملک میں ایک طرف مہنگائی دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں
بھارتی افواج کی جانب سے درندگی کی تمام تر حدیں پار کرگئی اُ س کے باوجود
اقوام متحدہ کی کارگردگی سوالیہ نشان بن گئی ؟ گزشتہ ہفتوں میں بھارتی خفیہ
ایجنسیاں اور فوج نے وادی کشمیر کو بدنام زمانہ گوتا نامہ جیل میں تبدیل
کردیا ،اقوام متحدہ کی خاموشی مسلمانوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی
ہے ، اگر مقبوضہ کشمیر جیسی ریاست یورپ میں کسی جگہ ہوتی تو اقوام متحدہ
اور امریکہ فوری ایکشن لے کر خودمختیار اور آزادریاست کے قیام کا اعلان
کردیتا ،مگر بدقسمتی سے یہ ریاست جنوبی ایشیاء میں ہے جہاں اقوام متحدہ اور
امریکہ کو اپنی مفادات کو دیکھتے ہوئے نوٹس لینا پڑتا ہے وہاں بھارت پر
پابندی تو دور کی بات ہے اقوام متحدہ نے تو بھارت کے خلاف سخت لہجے میں
بیان بھی نہیں دیا اب اگر دوسری جانب دیکھیں تو پاکستان میں نئی حکومت کے
قائم ہونے کے بعد جو مسائل سامنے نظر آرہے ہیں اگر اُس پر نظر دوڑائیں تو
سینکڑوں ہیں اب تحریک انصاف کی حکومت کو ایک طرف مہنگائی کا سامنا دوسری
جانب سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہاں وزیر
اعظم پاکستان عمران خان کی نئے پاکستان میں بہترین کوششیں قابل تعریف ہیں
جو حقیقی پاکستان بنانے میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں مگر دوسری جانب وزیرا
عظم پاکستان عمران خان کابینہ میں شامل ناتجربہ کار وزراء کی بیان بای سے
ملک کی ساکھ تو خراب ہورہی ہے مگر اُس کا اثر مقبوضہ کشمیر تک قائم ہے جہاں
بھارت نے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت
قائم ہوتے ہی بھارت کو جیسے سانپ سونگھ گیا وہاں مکمل خاموشی اختیار کررکھی
تھی ،پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان کی ٹی وی چینل پر کشمیریوں کی تذلیل
اور پھر معافی مانگنے کے بعد اِس کا ری ایکشن بھارت کے زیر کنٹرول مقبوضہ
کشمیر میں ری ایکشن برا ثابت ہوا،بھارتی درندوں نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی
انتہا کردی ،14سے زائد نوجوانوں کو شہید جبکہ 200سے زائد زخمی بھی کردیے
،انٹرنیٹ کی بندش ،موبائل سروس بھی بند کردی ، اخبارات کے دفاتروں کو سیل
کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی کدغن لگا دی ،مسئلہ کشمیر پر لکھنے والوں کے
اکاؤنٹس بھی بلاک کردیے ، اِس وقت تقریباً50ہزار سے زائد سوشل میڈیا
اکاؤنٹس فیس بک نے بند کئے ہیں جن کا تعلق پاکستان اور آزادکشمیر سے ہے
جواپنے مظلوم بھائیوں کی آواز کو سوشل میڈیا کے ذریعے اجاگرہ کرنے کی
کوششوں میں مصروف تھے اُن کے اکاؤنٹس بھی بند کردیے گئے ،بھارت اپنی تمام
تر چلاکیوں اور مکاریوں کے باوجود عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش
میں مصروف ہے وہاں پاکستان کی حفاظت کرنے والی پاک آرمی کے ڈر سے سرحدوں پر
چھیڑ چھاڑ بند کرکے اب سول عوام کو قتل کرنے کی پالیسی پر مصروف ہیں ،بھارت
مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرکے نوجوانوں کا قتل عام ،خواتین
کی عصمت دری ، حریت رہنماؤں کی گرفتاری سمیت اُن کی املاک کو بھی ملیہ میٹ
کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں وہاں حکومت پاکستان کو بھی چند پہلو پر غور
کرنا چاہیے ، خاص کر اُن پہلو پر جو عالمی سطح پر ہماری آواز کو اجاگرہ
کرنے کے کام آتی ہے یعنی کہ اطلاعات ،اب پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان
کی زبان سے ایسے پتہ چلتا ہے کہ وہ پنجاب کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ کسی لاری
اڈے کے ہاکر ہیں جو آواز لگا لگا کر سواریوں کو گاڑی پر بیٹھانے کی کوشش
کررہے ہیں اور جن کی وجہ سے تحریک انصاف کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
،ایسے وزراء کو حکومت سے باہر رکھنا ہی سمجھ داری ہے فیاض چوہان نے تو
کشمیریوں سے معافی تو مانگ لی مگر جس للکار سے اُس نے کشمیریوں کی تذلیل کی
تھی اُسی طرح معافی مانگ کر وزارت سے مستعفی ہوجاتے مگر ایسا نہ ہوا آگے
جاکر عمران خان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا بعض وزراء کی جانب سے
تنقید مایوس کن ہے ،مسئلہ کشمیر ایک انٹرنیشنل مسئلہ ہے جہاں کشمیریوں جن
کی تعداد لاکھوں میں ہے اپنی جانوں کی قربانی دے کر تحریک آزادی کو قائم
کررکھا ہے وہاں پاک فوج کی قربانیاں بھلائی نہیں جاسکتی جنہوں نے ہر محاذ
پر اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ملک اور قوم کیلئے اہم کارنامے سرانجام
دیے ، پاکستان کشمیر کی سیاسی و سفارتی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے یہی وجہ
ہے کہ آزادکشمیر کی عوام الحاق پاکستان کی حامی ہے اُس کی وجہ قیام پاکستان
میں بھی کشمیریوں کا کافی عمل دخل تھا ،پاکستان میں جو بھی نئی حکومت
اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالتی ہے وہاں مسئلہ کشمیر کے ایشوز پر بات چیت
،بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے اندر سیاسی و سماجی مذہبی جماعتوں کے ساتھ
روابط اور دوستی کے تعلقات بڑھا کر اختلافات کا بیج بویا ہے وہاں وہ اپنے
ہم خیال دوستوں کے ذریعے سیاسی ،مذہبی اختلافاتی بیان دے کر پاکستان کو
توڑنے کی کوششیں کرچکا ہے پاک فوج اور ہمارے اداروں نے ناکام بنادیا اب اگر
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر نظر دوڑائی جائے تو تحریک انصاف کو 22سال
بعد بھی وہ مقام نہیں مل سکا جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اُن پر تنقید
کرسکیں ، ہاں دو سے تین سال عرصہ گزر جاتا تو تنقید کا حق سیاسی جماعتوں کو
تھا مگر سیاسی جماعتوں نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے تحریک انصاف کو آڑے
ہاتھوں لیا ہوا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ،ملک میں مہنگائی میں اضافہ ایک عام
روایت نہیں ہے بلکہ یہ اکثر اوقات جب پرانی حکومت اپنے زوال کے دن قریب
دیکھتی ہے تووہ ایسا کرنے کیلئے پہلی ہی پلان تیار کرچکی ہوتی ہے یہی وجہ
ہے کہ (ن ) لیگ کو ماضی کی غلطیوں کاعلم تھا جس پر اُنہوں نے ملک کو قرضدار
کرنے کے علاوہ ڈالر کو 134روپے تک لے گئی جس کی وجہ سے تحریک انصاف حکومت
کو کنٹرول کرنے کیلئے فالتو اخراجات پر پابندی لگانی شرو ع کردی ،یہ ایک
اچھا اقدام ہے مگر اِس میں بھی وقت کی ضرورت کا ہونا ضروری ہے ،عمران خان
کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وقت دیا جائے جس سے ملک میں مالی بحران ختم
ہوسکے ، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی کابینہ میں
ایسے وزراء کو شامل کریں جو ملک اور تحریک انصاف کیلئے مخلص اور محب وطن
ہوں ایسے وزراء کو ہر گز نہ شامل کریں جو ملک کی بدنامی کا سبب بنیں ،عالمی
سطح پر جس کا تذکرہ ہو ، سیاسی جماعتوں کو انتظار کرنا چاہیے ۔
|