رحمانی (کمہار )کمہار کا مٹی کے برتن بنانا ،مٹی کے برتن
استعمال کرنا نبیوں کی سنت ہے اور اسی طرح کمہار کا کام بھی نبیوں پیغمبروں
کے دور سے چلتا ہوا آرہا ہے صدیوں کی داستان میں کمہار کئی تہذیبوں کی
بنیاد بھی رکھتا آیا ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پہچان کو مضبوط کرتے
چلے آئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کمہار انسانی زندگی کا پہلا فنکار تھا
،کمہار کا کام چیزوں کو نئے وجود میں ڈھالنا ہوتا تھا اور اسی کام میں
ڈھلتے ڈھلتے وہ اپنی ساری زندگی اسی کام میں گزار دیتے تھے،کمہار لوگ بہت
ذہین ہوتے تھے کہ وہ بغیر کسی کمپیوٹر، پیچیدہ مشین اور نفیس اوزار کے ان
کے صدیوں کے تجربے میں دھلے ہاتھ مٹی کے وہ خوبصورت فن پارے تخلیق کرتے تھے
جو کہ مشینوں اور کمپیوٹروں پر رکھے ہاتھ بھی دم بھر کو بے جان ہوجاتے تھے
کمہار بہت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے ان کے گھر بہت کچے کچے ہوتے تھے کمہار
پورے دن سخت محنت کے بعد وہ صرف چند پیسے کماتے تھے ماضی میں مٹی کے برتن
کا استعمال بہت زیادہ ہوتا تھا،کیونکہ ماضی میں پلاسٹک اور شیشہ کے برتن
نہیں ہوتے تھے اسی لیے پہلے کے لوگوں کا رجھا ن زیادہ تر مٹی کے بنے ہوئے
برتنوں پر ہوتا تھا وہ کھانے پینے کے لیے مٹی کے برتن کا استعمال کرتے تھے
اور مٹی کے برتن میں بنا ہوا کھانا بہت ہی لذیذ بنتا تھا، مٹی سے بنے برتن
آج کے دور میں بھی اور ماضی میں کافی مقبول اور قابل استعمال رہے ہیں اور
کسی بھی دور میں مٹی سے بنے برتنوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور
میڈیکل سائنس بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ مٹی سے بنے برتن کا استعمال
انسانی صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔،مٹی کے برتن استعمال کرنا سنت بھی ہے
کیونکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ مٹی سے بنے برتنوں میں ہی کھانا پینا پسند فرمایا
یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی بی بی فاطمہ الزہرہ رضی اﷲ عنہا کو جہیز
میں بھی مٹی کے برتن ہی دئے تھے جب کہ آج کل یہ رواج ختم ہوچکا ہے۔ تاریخی
لحاظ سے مٹی کے برتنوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب عقل انسانی نے شعور کی دنیا میں قدم رکھاتو
کھانے پینے کے لئے مٹی کے برتنوں کا ہی استعمال شروع کیااور یہ ایک حقیقت
ہے کہ آج کے دور کے انسانوں کے مقابلے میں اس دور کے انسان زیادہ صحت مند
ہوا کرتے تھے اور یقیناًاُن کی صحت مند زندگی کا ایک راز مٹی کے برتن کا
استعمال بھی تھا موجودہ دور میں مٹی کے برتن کا استعمال تقریباً ختم ہوچکا
ہے اور مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک، اسٹیل، سلور، پیتل، کانچ، ماربل اور
مختلف دھاتوں سے بنے برتنوں نے لے لی ہے، اور جب سے لوگوں نے مٹی سے بنے
برتنوں کا استعمال ترک کیا ہے متعدد بیماریوں میں گِھرچکے ہیں شہروں میں
مٹی سے بنی اشیاء کا استعمال کھانے پینے کے لئے تو نہیں البتہ گھروں کی
سجاوٹ اور تزئین و آرائیش میں ضرور ہوتا ہے اور مٹی کے برتنوں کا استعمال
گاؤں اور دیہاتوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے، شہری علاقوں میں مٹی سے بنے
برتنوں کا استعمال ختم ہونے یا ترک ہونے کی وجہ سے برتن سازی کے کاروبار سے
منسلک کاریگروں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی وجہ سے اس
کاروبار سے جڑے لوگ آہستہ آہستہ یہ کام چھوڑتے جارہے ہیں اس صورتحال میں
اگر دیکھا جائے توبرتن سازی کا کام موجودہ حالات میں کافی ابتر اور تنزلی
کا شکار ہے حالانکہ برتن سازی کے کام کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت سے کسی
طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتالیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں انسانوں نے
اپنا انداز زندگی تبدیل کرلیا ہے اور اس بدلتی صورتحال سے برتن سازی کے
کاروبار سے جڑے کاریگر کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں چاہے زمانہ نے ترقی میں
انداز بدل لیے ہوں پر آج بھی حیدرآباد،گوجرانوالہ ،اوکاڑہ،پسروراور
دیگرشہروں میں چند ایک جگہوں پر یہ کام اب بھی اسی لگن اور مہارت سے ہوتا
ہے ، دیکھا جائے تو برتن سازی کا کام بے حد مشکل اور مہارت طلب کام ہے اور
مٹی سے بنائی جانے والی اشیاء کئی مرحلوں سے گزر کر اپنی اصل شکل اختیار
کرتی ہیں،مٹی کے برتن بنانے کے لیے صاف مٹی کی ضرورت ہوتی ہے مٹی کے برتن
اور دوسری اشیاء خالص قسم کی چکنی مٹی سے تیار کیے جاتے ہیں ان میں کسی قسم
کی دوسری اشیاء استعمال نہیں ہوتی، کمہار کے کام کرنے اور رہائش کی جگہ الگ
ہوتی ہیں انہوں نے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں مٹی کے کچے گھر بنا کر اپنی دنیا
بسائیہوتی ہے،مٹی کا برتن چھ دن میں تیار ہوتا تھا جس میں ایک دن مٹی کا
برتن بنانے، دو دن اس کو دھوپ میں خشک کرنے جبکہ تین دن پکانے لگتے
ہیں،پکانے کے لیے استعمال ہونے والا ایندھن مختلف قسم کے کچرا کنڈیوں سے
جمع شدہ کچرے پر مشتمل ہوتا ہے یہ بھی صدیوں سے چلا آنے والے انکا اپنا
فارمولا ہے جس میں نہ ہی بجلی خرچ ہوتی تھی نا ہی ایٹمی ایندھن کا استعمال
ہوتا تھا ماضی میں تقریباََ 50فیصد عورتیں بھی یہ کام کرتی تھیں جبکہ اس
دور میں تقریباََ 20فیصد عورتیں یہ کام کرتیں ہیں،ماضی میں کئی اقسام کے
برتن بنائے جاتے تھے جس میں نادی، گملے، گڑھے، تندور، مٹکے، صراحی، غلق،
گلاس، ہانڈی، پلیٹیں، اور مختلف قسم کی کئی اشیاء بنائی جاتی تھی ماضی میں
مٹی کا کام بہت ہی سادہ ہوتا تھا اور ماضی میں مٹکے، نادی اور صراحی کافی
تعداد میں بنتے تھے جو کہ پورے پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک میں برآمد کیا
جاتے تھے،ماضی میں کمہار اپنے بچوں کو بھی یہی کام سکھاتے تھے اسی لیے
کمہار کا کام نسل در نسل چلتا آرہا ہے،،کمہار لوگ اپنی ذہانت کا استعمال کر
کے نئی نئی اشیاء تیار کرتے تھے ان سادہ ہنرمندوں کی بنائی ہوئی یہ چیزیں
آج تک دنیا بھر کے لیے باعثِ توجہ ہیں ،کمہار کا کام آج بھی اچھے سے جانا
پہچانا جاتا ہے،اور اس میں سے آنے والی آمدنی میں سے ان کاگذر بسر ہوتا ہے
پر پھر بھی وہ اس کام سے کچھ حدتک مطمئن ہیں کیونکہ یہ ان کا خاندانی پیشہ
ہے، ان کی محنت مزوری زیادہ ہے پر اس کا معاوضہ انہیں بہت کم ملتا ہے پر وہ
اسی میں خوش ہیں کیونکہ وہ باہر جاکر کوئی کام نہیں کرنا چاہتے ہے کیونکہ
بچپن سے ہی انہیں یہ کام سکھادیا جاتاہے،اس کے علاوہ نہ وہ کوئی کام کرتے
ہیں اورنہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ باہر جاکر وہ کوئی دوسرا کام کرے، اور
اگر اسی کام کے لیے جاتے بھی ہے تو انہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے، ایک کمہار
رہائشی سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ وہ پچپن سے ہی اس کام کو سر انجام
دیتے آرہے ہیں پر باقیوں کی نسبت انہوں نے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور
اس مقام پر پہنچایا کہ آج وہ بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن میں سے ان کا
ایک بیٹا پولیس میں نوکری کرتا ہے اور دوسرا بیٹا فوج میں ہیں ان کی بہو
سماجی کارکن ہیں اور جو اس کے تین بیٹے ہیں اور ان کے بچے اعلیٰ عہدوں پر
فائز ہونے کے وجہ سے اس کمہار کے کام کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے اعلیٰ تعلیم
کی وجہ سے ان کا رجحان اس کام کی طرف کبھی ہوا ہی نہیں اور ان کے والدین نے
کبھی بھی انہیں اس کام کو کرنے کے لیے دباؤں بھی نہیں ڈالا ،لیکن اس کے
باوجود کمہار فیملی کی نئی نسل بھی اپنے اس کام پر فخر محسوس کرتی ہے۔
|