کالا باغ ڈیم اور ہماری ناقص سوچ

کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اسکی تیاری کے مراحل سے ہی متازعہ رہا ہ ہے کا لا باغ ڈیم حکومت پاکستان کا پانی زخیرہ کرکے بجلی کی پیداور زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے ایک بڑا اور جامعہ منصوبہ تھا جو تا حال متنازعہ ہونیکی وجہ سے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا معاشی مسئلہ کو سیاسی ایشو بنا کر مضحکہ خیز شکل دے دی گئی کا لاباغ ڈیم سے اسکی جگہ نوشہرہ یا ارد گرد علاقے کی ایک انچ زیین کو بھی کوئی خطرہ نہیں۔

یہ انتہائی اہم ایشوہے دوسر ے ڈیم کی فیزیبلٹی رپوٹ تیار کرنے میں تقریبا 7سال کا عرصہ درکارہوگا آبی زخائر ہماری میعشت کے لیئے نا گزیر اہمیت کے حامل ہیں مگر صد افسوس اقتصادی ایشوکو سیاسی بنایا گیااب سنجیدہ فکرمبصرین بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ اس سنگین مسئلہ کا اظہار اخبارات TVبیانات کی بھر مار او ر دعووں اور وعدوں کی ہمیشہ ہی سے بھینٹ کی نذر ہوتارہا۔

یورپین کنٹری کے پاک کمیونٹی لیڈر نے بڑا اعلان کیا اتنا چندہ دے گے ایک دو نہیں کئی ڈیم بنالیں گویا کے تمام بیرون وطن پاکستانی ڈیم بنانے کے لیئے گھر بار چھوڑ کر اپنی روٹی روزی کمانے گئے ہیں ۔ ہمارے حکمران بھی آتے جاتے رہتے ہیں لیکن یہ صرف کاٖغذی شیر ہیں ڈیم بنانے میں سیریس نہیں ہم بیرون ملک پاکستانیوں کے جذبہ اور چندہ دہندگی کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ کالا با غ ڈیم تعمیر کی بجائے سیاسی مقاصد کا اظہارہے صدر پرویز مشرف ڈیم کی افادیت کو بخوبی سمجھتے تھے

انہوں نے 2003میں وعدہ بھی کیا تھا۔ لیکن یہ مسئلہ سیاسی انا کی بھینٹ ہمیشہ سے ہی آڑے آتارہا ۔ پاکستان بنے 70سال سے اوپر کا عرصہ ہوگیا کتنا پانی پلوں کے نیچے سے گذر کا سمندر کا رزق بن گیا مگر اہل پاکستان آج پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں حیرانی ہے کہ پانی جس پر ہر جاندار کی زندگی کا دارومدار ہے ہمارے حکمرانوں نے اس پر بھی جم کر سیاست کی ہم اپنے ہمسایہ ملک کو ازلی دشمن قرار دینے سے ہی سیراب ہو جاتے ہیں اور اس نے اپنے اورہمارے دریاؤں پر اتنے ڈیم بنا لیئے کے آج وہ کہہ رہا ہے کے پاکستان کے لئیے پانی کا قطرہ بھی نہیں چھوڑوں گااسے بنجر بنادونگا۔ آج ہمارا وزیراعظم چندہ مانگ رہاہے اور کرے بھی تو کیاسارے سود خوروں نے قرض دینے سے انکار کر دیاامریکہ نے تو ہمارے شہیدوں کے لہو کی مسلمہ قیمت بھی روک لی۔ لکشمی ہمیشہ پہلے ہمارے درازے پر آئی ہم نے دھتکار دیااور وہ ساتھ والے گھر چلی گئی۔ڈیم کی افادیت عام لفظوں میں سمجھانا چاہتا ہوں جو بھی عناصر اسکی مخالفت کرتاہے وہ ملک سے مخلص نہیں بلکہ غداروطن ہے اور انکے گھروں سے پانی والی ٹینکیاں اتار دی جائیں جس سے روز انہ نہاتے ہیں پانی پیتے ہیں اگر یہ ٹینکی نہ ہو تو یہ پانی کے لئے پریشان ہو جائیں گے اسی طرح گھروں میں چھوٹے ڈیم یعنی پانی کی ٹینکی کی ضرروت ہے اور ملک کو کالاباغ ڈیم کی ضرورت ہے ۔ اب چلتے ہیں اپنے اصل مضمون کی طرف کالاباٖغ ڈیم کے Upstream تھوڑی جگہ سوان نہر کی ہے یہ 6ملین ایکڑفٹ پانی کالا باغ ڈیم کا ہے جس کا 40فیصد سوان نہر میں سٹور ہوتا ہے اور 60فیصد سائیٹ میں کیونکہ یہ ایک Flat علاقہ ہیاس میں 24ہزار ایکڑ زمین پانی میں آئے گی اور صرف 3ہزار ایکڑ پانی KPKکی زمین پر آئے گا۔ اسکے بننے سے فلڈ میں کنٹرول آئے گا۔ آج جدید سائینس سے فلڈ سے 72گھنٹے پہلے معلوم ہو جاتاہے کے کتنا پانی آرہاہے چونکہ تربیلا ڈیم میں صرف سٹوریج ہو تی ہے اس لئے جب اسکو کھولا جاتا ہے تو سارا پانی سمندر میں چلا جاتاہے۔ اس سے نہ صرف پانی سٹور کرنے کیFlexibilityہو گی بلکہ 3500میگا واٹ بجلی بھی بنائی جاسکے گی۔ اس ڈیم کے وونوں طرف پنجاب ہے کیونکہ یہ انڈس پر ہے اس سے کسی گاؤں کے ڈوبنے کا کوئی خدشہ نہیں اور جی ۔ ٹی روڈ ریلوے لائن بھی اس سے محفوظ رہیں گی جس طرح بھی تجربہ کرلیں اس کی وجہ سے flooding نہیں ہو سکتی۔ بلاوجہ لوگوں نے اس مسئلہ کو الجھا دیا ہے۔ پاکستان میں سچ کا قحط ہے سچ بولنا سرکار ﷺ کی سنت ہے لوگ اس اہم سنت کی نفی کرتے ہیں اور پھر قوم کے وہی حالات ہوتے ہیں جو اس وقت قوم کے ہیں اسلیے میں کہنا چاہتا ہوں کے کالاباغ ڈیم پر جو بھی کہا وہ جھوٹ کا پلند ا ہے ایک دھوکہ ہے جو پاکستان عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کے پاکستان کے مسائل اس ملک کے حکمرانوں کے مسائل نہیں لوگ بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کے کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوب جائے گا حالانکہ ایسا ..000فیصد بھی چانس نہیں ہے۔

صرف اس اہم مسئلہ کو Explain کرنے کی ضرورت ہے ا نڈس River جہاں سے شوروع ہوتاہے اور جہاں ختم ہوتاہے اس کے دونو ں طرف پاکستان ہے جو ہمیں اﷲ کریم نے عطا کیا ہے ا ور ہم اسکا استعمال نہ کرکے کفران نعمت کر رہے ہیں ہر دھائی جب شوروع ہوتی ہے تو Wapdaمیں ہر اگلے د س سال کی رپوٹ مرتب کی جاتی ہے جس میں اگلے دس سال کی پانی کی ضررویات اور موجودگی کا جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد حکومت کو نئے منصوبوں کی تجاویز دی جاتی ہیں اگر حکومت ان منصوبوں پر عمل نہیں کرتی تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کے اب کیا ہونے والاہے۔ اس ملک میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کے ہمیں ان حالات کا پہلے سے معلوم نہیں تھا کالا باغ ڈیم نہ بننے کی صورت میں ہم ہر سال اس کی اسکی قیمت ادا کررہے ہیں جو کے 132ارب روپے ہے جس میں 66ارب پنجاب کے لوگ ادا کررہے ہیں بکلی کے بلوں کی مد میں KPK 08 ارب روپے سندھ 30ارب 6ارب بلوچستان کے لوگ ادا کررہے ہیں یہ تقربیا ڈیڑھ ارب ڈالر بنتے ہیں کیری لوگر بل کی رقم بھی اتنی ہی بنتی ہے۔ کیری لوگر بل وہ بل ہے جس کو مانگنے میں جو کردار ہم نے ادا کیا شائید اس سے زیادہ عزت کسی بھکاری کی ہوتی ہے کوئی نہیں کہتا کے آپ کا Circular Debt اتنا زیادہ کیوں ہے گزشتہ سا ل 92ارب یونٹ کی بجلی پیدا کی جانی تھی جس میں 29ارب یونٹ ہائیڈرل 29.5ارب یونٹ گیس 30ارب یونٹ فرنس آئیل سے 3.6 ارب یونٹ Nuclearاور Coalسے ہوناتھی اسکی Generation of Costیوں ہوناتھی-

ہائیڈرل ۱ روپے پیسے فی یونٹ، گیس 5روپے 41پیسے یونٹ، فرنس آئیل 12روپے 4پیسے یونٹ، نیوکلئیر کول 3روپے پیسے یہ واپڈا کے Cost Accounting Cell کی فگر ز ہیں جن میں غلطی نہیں ہوتی۔ہمیں صرف اس بات کا جواب چائیے کے واپڈا کو ایک روپے 02پیسے والی بجلی بنانے نہیں دی گئی جبکہ 12روپے 4پیسے والی بجلی پر منظوری دی گئی۔

اگر آک کالا باغ ڈیم ہوتا تو 12ارب یونٹ بجلی اسکی ہوتی اور اسکی Generation of Cost ایک روپے 02 پیسے ہوتی لیکن وہی 12ارب یونٹ بجلی فرنس آئیل سے بنا رہے ہیں اور اگر اسے 12ارب یو نٹ سے ضرب دی جائے تو 132ارب روپے بنتے ہیں جو ہم کیری لوگر بل سے حاصل کرتے ہیں۔ مجھے KPK اور سندھ کے رہنما یہ بتائیں کے عوام اربوں روپے ادا کررہے ہیں وہ تم کیوں نہیں ادا کرتے۔ پاکستان میں ایک خوف و ڈر یہ ہے کے KPK عوام کالا باغ ڈیم کے خلاف ہیں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپوٹ کے مظابق KPKکے ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹرز ایک کروڑ چھ لاکھ سات سو پچاسی ہیں 2008میں ٹوٹل ووٹ 5لاکھ اٹھتر ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے جو کے 5.4فیصد بنتے ہیں94.6فیصد نے انکو ووٹ ہی نہیں دیا۔ جس طرح ملٹرے بغاوت ہوتی ہے اسی طرح یہ Electoralبغاوت ہے۔ کیا ہم اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ 1929میں نوشہرہ کا تمام علاقہ کیونکہ ڈوبا جبکہ وہاں تو کالا باغ ڈیم نہیں تھا2010کے سیلاب میں لیول 961 تھا 1929کے سیلاب کا لیول 951تھا اس مرتبہ لیول 10 فٹ اونچا تھایہاں کالاباغ ڈیم نہیں تھا پھر کیوں سیلاب آگیا اب اس سے بڑا طوفان تو نہیں آسکتا کیا ہم طوفان نوح کا انتظار کررہے ہیں۔جناب چیف جسٹس صاحب کی اکاوش کو میں سلوٹ کرتاہو اور ہر پاکستانی کا اور اورسیز پاکستانی کا جو ڈیم کے لئیے فنڈنگ کر رہے ہیں۔
کالا باغ ڈیم کی اشد ضرورت ہے جو کے ہمیں مل کر اسکا حل سوچنا ہو گا اور اسے ہنگامی صورت میں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اچھے لفظوں سے یاد کریں ۔
 

Syed Maqsood Ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood Ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood Ali Hashmi: 171 Articles with 152583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.