انٹرنیٹ کا غلط استعمال اور اس کے مضر اثرات

نام عروج فاطمہ

موجودہ دور میں اگر کسی سائنسی پیش رفت کا بول بالا ہے تو وہ یقینی طور انٹرنیٹ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقولہ زبان زدِ عام و خاص ہے کہ موجودہ دور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ انٹرنیٹ بھی اب تک کی محیرالعقول سائنسی ایجاد ات میں سے ایک ایجادہے۔ پوری دنیا کوگلوبل ولیج بنانے میں انٹرنیٹ کا کلیدی کردارہے۔ پیغامات اور معلومات کی ابلاغ و ترسیل ہو یا اس کا حصول انٹرنیٹ سے ہر کام نہ صرف آسان سے آسان تر ہوگیاہے۔ نیٹ کا مطلب جا ل ہے اور اس غیر مرئی جال کی لپیٹ میں پوری دنیا آ چکی ہے۔ جس سے باہر نکلنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ انسانی زندگی کا شائد ہی کوئی شعبہ ہو جس میں انٹر نیٹ کا عمل دخل نہ ہو۔

بدقسمتی سے ہر ایجاد کی طرح انٹرنیٹ کا بھی سو ءِ استفادہ ہو رہا ہے۔ جس سے یہ کارآمد چیز عالمی سطح پر انسانی معاشرے کیلئے جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔ خاص طور سے نوجواں اور بچے اس کے مضراثرات کا شکار ہورہے ہیں ۔ ان مضر اثرات سے انسان کا دینی جذبہ سرد پڑرہا ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں معطل ہورہی ہیں۔ اخلاقی اور تہذیبی ڈھانچہ شکت و ریخت سے دوچار ہے۔انسان کا سماجی رویہ یکسر تبدیل ہو گیا ہے اس کا میل جول جواب تک ایک مانوس معاشرے تک ہی محدود تھا اب انٹرنیٹ کی بدولت کافی حد تک اس کے روابطہ میں وسعت آگئی ہے۔ وہ کچھ ایسی منفی سوچ اور غلط راہ و روش سے آشنا ہوا ہے۔ جو اس کے معاشرتی اور مذہبی نقطہ گاہ سے ناپسند و نامناسب ہے۔ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ انٹرنیٹ پر جو مواد ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے اس کا بڑا حصہ جنسی حس کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ متحرک اور غیر متحرک فحش تصویریں جابجا دکھائی پڑتی ہیں۔ یہاں تک کہ مذہبی معلومات او روحانی حض حاصل کرنے کے لئے بھی چند ایک نا زیبا مناظر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس وقت نوجوان طبقے میں جواخلاقی بگاڑ اور مذہبی بیزاری کا عنصر سر ابھار رہا ہے۔ اس میں انٹرنیٹ کا بھی ایک بڑا کردار ادا کررہا ہے۔ انٹرنیٹ نے بے شک دوریاں کم کردی ہے۔ لیکن یہ دوریاں انٹرنیٹ کی مصنوعی دنیا میں کم ہوئی ہیں۔ اصل اور حقیقی دنیا میں اسے ایک خلا پیدا ہوا ہے جو روز بروز بڑھتا ہی جارہاہے۔ ایک بچہ بظاہر ماں باپ کی نگاہوں کے سامنے بیٹھا ہوا ہیں لیکن اپنے موبائیل یا پرسنل کمپیوٹر کی مدد سے وہ کہیں اور پہنچ چکا ہوتا ہے۔گویا اسکے وجود کو کیمپیوٹر یا موبائل نے جذب کر کے کسی دوسری دنیا میں روانہ کر دیا ہے۔ اس معاملے میں والدین کی نگرانی اور ناظروں کی نظارت میں ایک اور پیچیدگی سامنے آجاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر اصل دنیا میں ایک بچہ آوارہ گردی اور بدچلنی کا مظاہرہ کرے تو اس کو سماج کی آنکھ ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہی والدین اس کی غلط روی سے زیادہ دیر تک ناواقف رہ سکتے ہیں۔ مگر انٹرنیٹ کی دنیا میں آوارہ گردی بغیر کسی کھٹک کے ہوتی ہے۔ یہاں نظارت و نگرانی کا کوئی اہتمام ہی نہیں۔ آپ کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ بھی دکھا سکتے ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی میل جول بڑھا سکتے ہیں۔ کسی بھی ان دیکھے شخص کیساتھ رشتہ استوار کرسکتے ہیں۔ اس خوف کے بغیر کہ کوئی میری حرکتوں کو دیکھ رہا ہے۔

تحقیق سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال مختلف نفسیاتی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ بعض افراد اپنے وقت کا 40فیصد سے80فیصد حصہ انٹرنیٹ کی نذر کرتے ہیں۔ اور کبھی کبار یہ دورانیہ 20 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے

انٹرنیٹ نے نشہ کی صورت اختیار کی ہے۔ الکوہل ،اور دڑگس کے بعد انٹرنیٹ کی لت تیسرے درجے پر آتی ہے۔ لت کسی بھی چیز ہی ہو ہرگز اچھی نہیں ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تواس لت کا دنیا میں ہزاروں افراد شکار ہیں-

 

Saba Ashfaq Warsi
About the Author: Saba Ashfaq Warsi Read More Articles by Saba Ashfaq Warsi: 2 Articles with 2441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.