فضائی آلودگی کا عفریت!

کالم برائے آگاہی فضائی آلودگی

فضائی آلودگی اس وقت عالمی سطح پر انسانی صحت کے لحاظ سے چوتھا بڑا خطرہ ہے ۔ فضائی آلودگی سے دُنیا میں ہر سال 70لاکھ افراد لقمہ اجل بنتے ہیں ۔پوری دُنیا میں فضائی آلودگی سے مرنے والے 7ملین میں سے 1.4ملین کا تعلق چین سے ہے ۔ دوسرا نمبر بھارت کا ہے جہاں فضائی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد 645,000سالانہ ہے ۔اس فہرست میں تیسرا نمبر وطنِ عزیز کا ہے جہاں ہر سال فضائی آلودگی 111,000افراد موت کا شکار ہوتے ہیں ۔کراچی دُنیا کا پانچواں آلودہ شہر ہے ۔ہر سال پاکستان میں فضائی آلودگی کی بیماریوں سے نمٹانے کے لیے 500ملین ڈالر کے اخراجات ہوتے ہیں۔عالمی ادارہِ صحت نے دُنیا کے 4ہزار 300شہروں کے تجزئیے کے بعد جاری رپورٹ میں بتایا کہ ایشیاء اور افریقہ کے غریب ممالک میں ماحولیاتی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں مختلف ماہرین انسان کو اپنا ماحول بہتر بنانے پر زور دیتے ہیں ۔ آنے والے سالوں میں زیادہ ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے جن میں سردی ٗ گرمی ٗ طوفان ٗ حد سے زیادہ بارشیں ٗ سموگ ٗ غذائی قلت سے انسانی حیات خطرے سے دوچار ہوگی ۔ ہر سال موسم سرما میں وطنِ عزیز سموگ کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔جس سے کئی حادثات بھی پیش آتے ہیں۔ سموگ دراصل فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے ۔یہ سموگ سلفر ڈائی اکسائیڈ ٗ کلورو فلورو کاربنز ٗ کاربن مانو آکسائیڈ ٗ گاڑیوں کے دھوئیں سے خارج ہونے والے آکسائیڈز ٗ ہائیڈرو کاربنز میٹلک کمپاونڈز ٗ تابکار مادوں اور زیریلی گیسوں کے اخراج سے فضاء میں شامل ہونے والے پلوٹینٹس کی وجہ سے بنتی ہے ۔ اس کے علاوہ 25سے 30ارب کلو گرام فصلوں کی باقیات اور گھاس بھوس نذر آتش کرنے سے بھی فضاء میں دھواں کی کثیف تہہ جمع ہو جاتی ہے جو موسمِ سرما میں منجمند ہو کر سموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے آئندہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں دو مسائل شدت اختیار کر جائیں گے ایک ماحولیاتی آلودگی اور دوسرا آب کا مسئلہ ۔ ان مسائل سے نہ صرف انسانی بلکہ چرند ٗ پرند اور درختوں کا بھی بچنا محال ہو جائے گا۔ یوں تو کر ہِ ارض میں آباد ہر 10میں سے 8افراد آلودہ فضاء میں سانس لے رہے ہیں ۔ لیکن ایشاء اور افریقہ ٗ لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں آلودگی کی مجموعی صورتحال تشویشناک ہوتی جارہی ہے ۔بمطابق رپورٹ دُنیا کے 10آلودہ ترین شہروں میں سے 5جنوبی ایشیاء میں ہیں۔جن میں بھارت کے تین شہر دہلی ٗ ممبئی ٗ گوالیار ٗ بنگلہ دیش کا شہر ڈھاکہ ٗ اور پاکستان کا شہر کراچی شامل ہیں اور پھر بھارت اور پاکستان فضائی آلودگی اور ماحولیاتی مسائل کے خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں پہلے دس ممالک میں شامل ہیں ۔وطنِ عزیز میں آلودگی سے سالانہ 20ہزار افراد قبل از وقت ہلاک ہو جاتے ہیں۔جن میں شہر کراچی نمایاں ہے جہاں 9ہزار سالانہ اموات رپورٹ ہوتی ہیں ۔پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 68ہزار نوزائیدہ بجے فضائی آلودگی کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں ۔جب کہ 16.28ملین افراد براہ راست فضائی آلودگی کے باعث صحت کے مسائل سے دوچار ہیں ۔ پاکستان میں فضائی آلودگی سے سال میں 80ہزار سے زائد افراد ہسپتال میں داخل ہو رہے ہیں ۔ ان میں سے 8000افراد پھپھڑوں اور سانس کے مستقل مریض بن رہے ہیں ۔ جب کہ 5لاکھ افراد سانس کے دیگر عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ بڑوں کے علاوہ 5سال سے کم عمر کے پچاس لاکھ بچوں میں سانس کی بیماریاں ریکارڈ کی گئیں ۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق 2005میں 22ہزار بالغ افراد شہروں میں ہوائی آلودگی سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوکر موت کی وادی میں چلے گے ۔ اب حالت اس سے کئی گناء زیادہ ہے سالانہ 80ہزار افراد علاج کے لیے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ۔ سال 2005میں پاکستان میں فضائی آلودگی سے ہونے والا مالی نقصان ایک ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیدوار کا 1.1فیصد بنتا ہے۔ ماحولیات ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی بین الاقوامی معیار سے متجاوز ہو چکی ہے ۔ ان میں نصف سے زیادہ اموات دو ممالک بھارت اور چین میں رپورٹ ہو رہی ہیں ۔ یوں تو فضائی آلودگی دنیا کے لیے بڑا چیلنج بن چکالیکن امیر ممالک میں اس فضاء کو صاف کرنے کے لیے بہتری آرہی ۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کے بارہ میں موجودہ صدی سے پہلے ہی سائنسدانوں نے الرٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ’’دی لینسیٹ ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تیزی سے ہونے والی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید غذائی کمی کے باعث 2050تک 5لاکھ افراد لوگ موت کے منہ میں چلے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔اور پھر عالمی معاہدہ ٗ جس میں پاکستان اور بھارت شامل ہیں 2028ء تک گرین ہاوس گیسوں کے استعمال کی چھوٹ ملنے کی وجہ سے آئندہ 10سے 15سالک میں فضائی آلودگی کی بہتری کی امید نہیں ۔انسان نے اپنے ماحول کے ساتھ خود ظلم کیا اور آنے والی نسلوں کی زندگی اجیرن کر دی ۔جہاں ماحولیاتی آلودگی کے اور کئی سبب ہیں وہاں ہی وسائل کی عدم دستیابی ٗ سہولیات کی کمی کے باعث دیہی علاقوں سے آبادی شہروں میں منتقل ہو رہی ہے ۔ وطن عزیز کے دیہی علاقوں میں آبادی 75فیصد تھی جو کہ اب کم ہو کر 65فیصد سے بھی کم ہوتی جارہی ہے ۔عالمی سطح پر گلوبل کلایمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 10سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے ۔جب کہ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اگلے 15برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 27لاکھ سے زیادہ ہو جائے گی۔نیچر پاکستان پروجیکٹ کے مطابق سمندر کی سطح میں سلانہ 6ملی میٹر اضافہ ہو رہا ہے ۔ عالمی بنک نے اس ضمن میں کہا ہے کہ پاکستان میں 2007ء سے 2011تک پائے جانے والے فضائی آلودگی کے ذرات کو ناپا گیا جن میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور سیسہ سر فہرست تھے ۔پاکستان کی فضاؤں میں ان ذرات کی مقدار عالمی ادارہ برائے صحت کے مقررہ معیار سے زیادہ ہے۔ 2017میں سموگ کی وجہ سے زراعت اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ کراچی شہر زیادہ آلودہ ہوچکا۔ کراچی کی فضاؤں میں پی ایم 2.5ٗ فضائی آلودگی کی شرح 88مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہے ۔ بمطابق رپورٹ صرف کراچی میں سالانہ 9000افراد فضائی آلودگی سے قبل از موت جان کی بازی ہار تے ہیں ۔ اور پھر وطن عزیز میں گزشتہ 20سالوں میں گاڑیوں کی تعداد 20لاکھ سے بڑھ کر 1کروڑ 6لاکھ سے متجاوز ہو چکی ہیں ۔ اور پھر جنگلات 90کی دہائی میں 35لاکھ 90ہزار ہیکٹر پر مشتمل تھا جو کہ 2000کی دہائی میں 33لاکھ 20ہزار ہیکٹر تک رہ گیا ۔ اس کے علاوہ ایک دن میں 54ہزار ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے ۔یا پھر اسے جلایا جاتا ہے ۔ کئی جگہوں کوڑا کرکٹ ٗ آلودگی دریاؤں میں پھینک دی جاتی ہے جو نہ صرف آلودگی کا باعث بلکہ آبی مخلوق کا قتل بھی ہے اور پھر اس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا جوکہ انسانی زندگی کے لیے بھی خطرناک ہے جس سے نظر کی خرابی ٗ گلے کی خراش ٗ پھیپڑوں ٗ سینے کے امراض کا موجب بنتی ہے ۔ پلانٹس اور صنعتی یونٹس سے خارج ہونے والے زہریلے دھواں اور مواد سے ہر سال 30لاکھ سے زائد اموات ہو رہی ہیں ۔

عوام میں اس بات کا شعور ہی نہیں کہ ہمارے ماحول کو خراب کرنے ٗ پلاسٹک بیگ ٗ کوڑا کرکٹ ٗ گاڑیوں کا دھواں ٗ جنگلات کا بے دریغ صفایا یہ وہ ماحول دشمن عناصر ہیں جو انسان ہی نہیں دیگر مخلوق کا جینا بھی اجیرن کر رہے ہیں ۔

فضائی آلودگی کو کم کرنے اور ممکنہ خطرات سے بچاو کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں ہر پاکستانی ہر ایک درخت لگائے اور ان کی حفاظت بھی کی جائے تو یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور ملک اور آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ہمیں اس حوالہ سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ فضائی آلودگی کے عوامل میں خاطر خواہ کمی لانا ہوگی ۔کیونکہ یہ کسی فردِ واحد کا نہیں ٗ بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے۔فضائی آلودگی اور اس کے مضمرات کے متعلق عام لوگوں تک معلومات کی برقت رسائی ٗ شجر کاری کو ہر سطح پر فروغ دینے ٗ اور ماحول کو گندہ کرنے کے منفی اثرات سے آگاہی سے بڑی حد تک قابو پاکر انسانی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے ۔
 

عابد ہاشمی
About the Author: عابد ہاشمی Read More Articles by عابد ہاشمی: 185 Articles with 141285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.