احتساب کی تلوار

ن لیگ کے بعد پیپلزپارٹی پر بھی احتساب کی تلوار چلنے کو ہے گوکہ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ ہم نے احتساب کو بگتا ہے جیلیں کاٹی ہیں۔یہ بات کچھ حد تک تو ٹھیک بھی ہے لیکن اس کمزور احتساب کو صرف سیاسی چال کے طور پر استعمال کیا جاتا رہاہے ماضی گواہ ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر مقدمات بناتی رہی ہیں اور اسے مکمکا کے لئے استعمال کرتی رہیں ہیں لیکن اس مرتبہ معملہ کچھ بڑھ کر ہے اس احتساب کے عمل کی قیادت اس وقت سپریم کورٹ کے پاس ہے اور موجودہ حکومت بھی سپریم کورٹ سے مکمل تعاون کرنے پر تیار ہے پچھلے ستر سالوں میں ایسے حالات کبھی بھی نہیں رہے سب ان حالات کا جادو ہے جو پوزیشن کو متحد ہونے پر مجبور کر رہا ہے زرداری صاحب کی پریس کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھی۔

یہ تو ہم سب کو علم ہے کہ اپوزیشن کے دکھ سانجھے ہیں ان کے ذہنوں میں ایک ہی معاملہ ہے کسی طرح احتساب کا عمل رک جا ے اس سلسلے میں زرداری اور مولانا صاحب کی ملاقات بھی ہوچکی ہے اور اس میں اے پی سی بلانے کی تجویز بھی آئی ہے جو غالبا 31 اکتوبر کو بلائی جائے گی لیکن جس انداز سے احتساب کا عمل جاری ہے 31اکتوبر "دلی دور است" کی مصداق لگ ہے اس اے پی سی کا اہم ترین نکتہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو احتساب نواز شریف کے دور میں ریاست پاکستان کے اداروں نے شروع کیا تھا کیا وہ احتساب پی ٹی آئی حکومت گرنے سے رک جائے گا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ نواز شریف کی نااہلی اس کے اپنے دور حکومت میں ہوئی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کا تلخ پہلو ہے کہ ماضی میں اور خاص طور پر 90 کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ناچاکی پر حکومتیں کرتی رہی ہیں گوکہ عوام کو بیڈ گورننس اور کرپشن کی وجہ ہی بتائی گئی ہے لیکن اس مرتبہ ایسا کچھ ہونے نہیں جا رہا۔ موجودہ حکومت کا گرنا اپوزیشن کے مفاد میں نہیں ہے اس کا ادراک اپوزیشن کو بخوبی ہے۔ اس وقت اپوزیشن کا مشترکہ مقصد اس احتساب کے عمل کو سیاسی رنگ دے کر متنازع بنانا ہے اس سلسلے میں ان کی کوشش یہ ہے کہ ملک میں سیاسی بے یقینی کی فضا پیدا کی جائے اور اتنا گند اچھالا جائے کہ اس غبار میں کسی کو کچھ نظر نہ آئے۔

حیرت ہوتی ہے جب اپوزیشن حکومت کے معاشی معاملات پر تنقید کرتی ہے اور معاشی حالات کو بہتر کرنے کے مشورے دیتی ہے۔ جناب آپ ہی نے تو اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلا ہے 6 ہزار سے 20 ہزار ارب ڈالر تک قرضے آپ ہی کی قابلیت اور مہارت کا نتیجہ ہیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے میڈیا پر حکومت مخالف بیانات اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کے کانوں میں رس گولنے کے لئے تو اچھے ہیں لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ اگر یہ حکومت گر جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں جو حکومت آئے گی وہ کم ازکم اپوزیشن کی نہیں ہوگی۔ جو شخص پانچ سال تک صدر اور وزیر اعظم دونوں بڑے عہدوں کی طاقت استعمال کرتا رہا اس کے باوجود وہ اپنی بیوی کے قاتلوں کو نہ پکڑ سکا وہ کیا اس ملک کے حالات بہتر کرے گا۔ پوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ اب ان کی کرپشن کی کہانیاں ایک ایک کر کے عوام سامنے آرہی ہیں جس کا مک مکا کے دور میں تصور بھی نہیں تھا۔ اکا دکا جعلی بیانات عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے دے دئے جاتے تھے لیکن اب تو آڈیٹ کی باتیں ہو رہی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ قسمت کی دیوی حکومت پر مہربان ہے اپوزیشن کے پاس دو ہی اشوز تھے جس پر وہ بھرپور تحریک چلا سکتے تھے وہ تھے مہنگائی اور حکومت کے بڑے بڑے دعوے جو فی الحال پورے نہیں ہو پا رہے ان مسائل کی بنیاد پر اپوزیشن تحریک چلا سکتی تھی میڈیا کا ایک حصہ بھی ان کے ساتھ تحریک میں شامل ہو سکتا تھا لیکن پھر سعودی عرب کے بیل آؤٹ پیکیج کی خبر آگئی اس خبر نے اپوزیشن کی صفوں میں ماتم برپا کردیا ان کے ہاتھ سے معاملات ریت کی طرح نکلنے لگے اس پیکج کے بعد یہ امید ہو چلی ہے کہ شاید اب IMF کے پاس نہ جانا پڑے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکومت کو مہنگائی کیئے بغیر ملکی معیشت کو بہتر کرنے کا موقع مل جائے گا۔اب اپوزیشن کے پاس اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے اور ہنگامہ آرائی کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ نئی حکومت کے آتے ہی ایسا تاثر دیا جارہا تھا کہ سعودی عرب اور چین کی حکومتوں سے شریف خاندان کے ذاتی مراسم کی وجہ سے وہ پاکستان کی امداد کرتے ہیں موجودہ حکومت ان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے گی لیکن سعودی اقتصادی پیکج اور دورہ چین کی تیاریوں کے بعد یہ تاثر بھی زائل ہوتا نظر آرہا ہے جس طرح پوری دنیا میں وزیراعظم کو پذیرائی مل رہی ہے اس سے یہ امید ہوچلی ہے کہ مستقبل میں پاکستان دنیا میں اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

حکومت کو بہت بڑا موقع ملا ہے کہ وہ معیشت کی سمت کو سیدھا کرے درآمدات بڑھانے اور برآمدات کو کم کرنے کی کوشش کرے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام تک اس کے ثمرات پہنچائے اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر اپوزیشن کے لیے آنے والے حالات سازگار نہیں ہونگیں۔

Imran Ahmed Memon
About the Author: Imran Ahmed Memon Read More Articles by Imran Ahmed Memon: 8 Articles with 6828 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.