کشمیر پر بھارتی جبری قبضے کے 71سال

پی ایچ ڈی سکالرز ڈاکٹر ظہیر الدین خان شہید، پروفیسر رفیع الدین بٹ شہید، ڈاکٹر عبدالمنان وانی شہید، ڈاکٹر سبزار احمدصوفی شہید ، پروفیسر نذیر بٹ شہید، ڈاکٹر خالد داوود سلفی شہیدسمیت لا تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیریوں کی شہادت بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف ،آزادی اور اعلائے کلمۃ اﷲ کے لئے قربانیاں پیش کرنے کے بھرپور عزم کو ظاہر کر رہی ہے۔یہ قبضہ 27اکتوبر1947کو سرینگر ہوائی اڈے پر پہلے بھارتی فوجی دستے کے اترنے کے ساتھ شروع ہوا۔ جب کہ جموں و کشمیر کے عوام بیرونی جارحیت کے خلاف گزشتہ70سال یا 100 سال سے نہیں بلکہ4 صدیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے برسرپیکار ہیں۔ 19؍نومبر1586ء کو جب شہنشاہِ کشمیر یوسف شاہ چک کے بیٹے یعقوب شاہ چک جوکہ خودمختار کشمیر کے آخری حکمران ثابت ہوئے نے مغل فوج پر گوریلا حملے کا پہلا وار کیا تو اُسے کامیاب ترین حملہ قرار دیا گیا کیونکہ اس میں متعدد مغل فوجی ہلاک ہوگئے۔ اس رات یعقوب شاہ چک نے اپنی گوریلا فوج سے کہا تھا کہ ’’آزادی صرف ایک دن دور ہے، ہم کل تک مغلوں کو کشمیر سے مار بھگائیں گے‘‘۔ بدقسمتی سے وہ کل424 سال گزرنے کے باوجود نمودار نہ ہوسکا۔ مغلوں نے1586ء سے 1752ء تک167 سال کشمیر پر حکومت کی۔ انہوں نے کشمیر کو ’’باغِ خاص‘‘ کا خطاب دے کر700 باغات تعمیر کئے۔ کشمیر کو اپنی عیش و عشرت کے لئے تفریح گاہ بنا دیا۔ انہوں نے کشمیریوں پر ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت حکمرانی کی۔ پھر افغانوں نے1752ء سے1819ء تک جابرانہ قبضہ جمایا۔ 1819ء سے1846ء تک سکھا شاہی نے کشمیریوں کو روند ڈالا۔ پھر100سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کا خون چوسنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد1947ء سے بھارت نے اپنی درندہ صفت افواج کے سہارے کشمیر کو اپنی جاگیر بنا ڈالا۔ آج کشمیری اپنے ہی گھر میں قید ہیں۔ قابض بھارتی فورسز جس بے دردی سے کشمیریوں کی نسل کُشی کر رہے ہیں اس نے گزشتہ قابضین کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔

انڈیا اپنے قبضے کے حق میں جو دلائل دے رہا ہے وہ سراسر گمراہ کُن ہیں۔وہ کشمیر پر اپنے فوجی قبضے کو چار بنیادوں پر جائز قرار دیتا ہے:
(۱) مہاراجہ کشمیر کی جانب سے 26؍اکتوبر1947ء کو دستاویزِ الحاق ہند
(۲) 27؍اکتوبر1947ء کو گورنر جنرل انڈیا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے دستاویزِ الحاق کو تسلیم کرنا
(۳)26؍اکتوبر1947ء کو مہاراجہ کشمیر کی جانب سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط جس میں بھارت سے الحاق کے بدلے بھارتی فوجی امداد کا مطالبہ اور شیخ محمد عبداﷲ ریاست کی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کرنا
(۴) 27؍اکتوبر1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا مہاراجہ کشمیر کو خط کہ جس میں مندرجہ بالا امداد کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا ریاست میں معاملات کے تصفیہ اور امن و قانون کی بحالی کے بعد ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی ریفرنس سے حل کیا جائے گا۔

یعنی بھارت کے کشمیر پر قبضہ کا سارا دارومدا ر مہاراجہ کشمیر کی الحاق ہند کی دستاویز پر ہے جس کے بارے میں بالکل عیاں ہوچکا ہے کہ دو دستاویز یعنی دستاویزِ الحاق اور ماؤنٹ بیٹن کو خط جس پر مہاراجہ نے26؍اکتوبر1947ء کو دستخط کئے تھے۔ 26؍اکتوبر کو سرینگر سے جموں کی 300 کلومیٹر سے زیادہ لمبی سڑک کے ذریعے سفر کر رہے تھے۔ اتنی طویل شاہراہ پر سفر کے دوران بھارت سے دستاویز الحاق کیسے ہوئی جبکہ مہاراجہ کے وزیر اعظم مُہرچند مہاجن اور کشمیر معاملات سے متعلق بھارتی سینئر افسر وی پی مینن دہلی میں تھے۔ دہلی اور عازمِ سفر مہاراجہ کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مہرچند مہاجن اور وی پی مینن27؍ اکتوبر ۱1947ء کی صبح10 بجے دہلی سے جموں بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے اور مہاراجہ کو اسی دوپہر اُن دونوں کی زبانی اپنے وزیر اعظم کے بھارت سے مذاکرات کے نتیجہ کا پتہ چلا۔ یہاں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ جب بھارتی فوج نے سرینگر ہوائی اڈے پر قبضہ کیا اس کے بعد مہاراجہ کی مہاجن اور مینن سے ملاقات ہوئی تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متذکرہ بالا دستاویز پر مہاراجہ کشمیر کے دستخط نہیں تھے اور اگر کسی نام نہاد ستاویز پر دستخط کئے بھی گئے تو اُن پر26؍اکتوبر1947ء کی جعلی تاریخ رقم کی گئی۔ مہاراجہ اور ماؤنٹ بیٹن کے مابین خطوط کو 28؍اکتوبر کو بھارت نے شائع کیا لیکن الحاق کی دستاویز کو شائع نہ کیا گیا جبکہ دونوں خطوط حکومتِ ہند نے تیار کئے تھے۔ دستاویزِ الحاق کی کاپی پاکستان کو بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی اسے1948ء کے آغاز تک اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔1948ء میں حکومت ہند نے جو وائٹ پیپر شائع کیا اس میں دستاویز الحاق کو شامل نہیں کیا گیا کہ جس کی بنیاد پر بھارت کشمیر پر قبضہ جائز قرار دینے کا دعویٰ کرسکے۔ آج تک مہاراجہ کے دستخط شدہ دستاویز الحاق کا کوئی بھی اصل پیش نہیں کیا جاسکا۔ اگر اُن تمام دستاویزات کو جوکہ جعلی ہیں کو اصل قرار دیا بھی جائے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے دستاویز الحاق کو مشروط طور پر تسلیم کرنا اور عوام کی رائے معلوم کرنے کی بات سے بھی بھارت نے آج تک عمل نہیں کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے خط میں عوام سے ریفرنس کا جو تذکرہ تھا وہ رائے شماری تھا۔ دستاویز الحاق کے جعلی ہونے پر یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ بھارت نے ایک خودمختار ریاست پر جبری فوجی قبضہ کیا تھا کیونکہ اس ریاست کے راجہ نے کسی بھی ایسی دستاویز پر دستخط نہیں کئے جن کا مقصد کشمیر کا بھارت سے الحاق ہو۔

موجودہ کشمیری تحریک مزاحمت1988 سے جاری ہے۔ کشمیری گزشتہ30سال سے کرفیو، پابندیوں، مظاہروں، مار دھاڑ، قتل عام، نسل کشی، پیلٹ گن اور زہریلی گیسوں کو برداشت کر رہے ہیں۔ یہ معصوم کشمیریوں کو بینائی سے محروم کرنے کے خلاف تحریک ہی نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی 1947ء سے اس کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ 2008ء سے 2010ء تک کا سلسلہ بھی اس نئی نسل کے زبردست عزم کا عکاس تھا جس نے سب سے پہلے امرناتھ شرائن بورڈ کو اراضی کی منتقلی کے خلاف شروع کیا ۔ اس دوران کشمیریوں کو بعض نئے تجربات سے آشکار ہونا پڑا جس کے دوران بھارتی انہتاپسندوں کی سرپرستی میں وادیٔ کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی واقعتا حیرتناک اور عبرتناک ثابت ہوئی۔ بعد ازاں شوپیاں میں خواتین کی بے حُرمتی اور پھر برہان وانی کی شہادت کے بعد پوری وادی میں زبردست احتجاج اور مظاہرین پر تشدد نے ثابت کردیا کہ کشمیر کی نئی نسل کوئی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں ہرگز نظر نہیں آتی ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی کشمیر میں سرمایہ کاری کے دعوے کر رہا ہے۔ بھارتی حکمران سوال کرتے ہیں کہ اگر کشمیر میں پاکستان کے لوگ آکر اپنا خون بہا گئے تو بھارتی فوج نے بھی کشمیر میں اپنا لہو بہایا ہے تاہم اُن پر یہ واضح ہو جانا چاہئے کہ جو لوگ پاکستان سے آئے اور بھارتی فوج کے خلاف معرکوں میں شہادت پائی وہ پاکستان میں موجود اُن لاکھوں کشمیری مہاجرین سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں صرف 1947ء سے1990ء تک اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہی لوگ اگر اپنے مادرِ وطن کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں تو کوئی بھی بین الاقوامی قانون انہیں اپنے گھر سے بیرونی قبضے کو ختم کرنے کے لئے کوئی بھی اقدام کرنے سے روک نہیں سکتا۔بندوق کشمیریوں کا آخری آپشن تھا۔ اس کے باوجود اگر آزاد کشمیر سے کوئی کشمیری جنگی بندی لائن کو عبور کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتا ہے تو وہ نہ تو بیرونی دہشت گرد ہے اور نہ ہی درانداز۔ ہر کشمیری کو اس عارضی لکیر جسے خونی لکیر کہا جاتا ہے کو روندنے کا حق حاصل ہے کیونکہ کشمیری کسی جنگ بندی لائن کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

بھارتی فوج کشمیر میں پتھر اور لاٹھیاں بردار کم سن نوجوانوں کو کچلنے کے لئے جدید ترین مہلک اسلحہ کا استعمال کر رہی ہے۔اب کریک ڈاؤن اور محاصروں کو ناکام بنانے کے لئے جائے واردات پر آنے والوں کو نشانہ باندھ کر شہید کیا جا رہا ہے یا انھیں باردوی دھماکوں سے اڑا دیا جا رہا ہے اور گھروں کو بھی کیمکل چھڑک کر نذر آتش کیا جا رہا ہے یا انھیں باردود سے اڑایا جاتا ہے۔ بھارت کا واویلا گمراہ کن اور قابل مذمت ہے کہ کشمیر میں جاری مظاہروں کو بیرونی امداد حاصل ہے۔ صدیوں سے آزادی کی جنگ میں مصروف قوم کی یہ نئی نسل کندن بن چکی ہے۔ اسے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نسل جس طرح اپنے سینوں پر گولیاں کھا رہی ہے اس نے 13؍جولائی1931ء کے شہداء کی یاد تازہ کردی ہے۔ بھارت کی لاکھ کوشش ہے کہ وہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی موجودہ لہر کو کچلنے کے لئے کثیرالجہتی پالیسی پر عمل پیرا ہو جائے۔ فلسطین طرز کی انتفادہ تحریک کو بندوق کی نوک پر دبانے کے لئے اس نے اسرائیل اور امریکا کی مدد بھی حاصل کی ہے۔ لیکن وہ تمام مذموم اور ظالمانہ حربے آزمانے کے باوجود ناکام و نامراد ہوا ہے۔ بھارتی حکمران بچوں اور عزت مآب خواتین کے عزم جو ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے کو دیکھ کر چیخ اُٹھے ہیں۔ بوکھلاہٹ میں وہ اپنے کمان کا آخری تیر آزما رہا ہے لیکن عظیم کشمیری قوم اپنے جگر آزما رہی ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ کشمیری اپنی جنگ کس طرح لڑ رہے ہیں۔ موجودہ انقلاب میں بندوق کا کوئی کردار نہیں۔ تا ہم بھارت نے اوڑی حملے سے اس طرح کا تاثر پیدا کرنی کی کوشش کی۔ جو ناکام ثابت ہوئی۔جہاد کونسل نے درست فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کے خلاف حملے شہروں اور دیہات سے باہر جنگلوں میں کئے جائیں تاکہ کسی کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ ملے کہ موجودہ انقلاب عوامی نہیں بندوق کا ہے۔ جس طرح ارون دھتی رائے نے بھارت کو بروقت اور درست مشورہ دیا تھا کہ یہ وقت ایسا ہے کہ کشمیر کو بھارت سے آزاد ہونے سے بھی زیادہ بھارت کو کشمیر سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے مہاراجہ کو خط کے تناظر میں ہی جواہر لعل نہرو نے28؍اکتوبر1948ء کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے الفاظ کو دہرایا گیا اور اس پالیسی پر عمل کرنے کا یقین دلایا تھا۔
"Consistently with that in the case of any state where the issue of accession has been the subject of dispute, the question of accession should be decided in accordance to the wishes of the people of the state, it is my governments wish that as soon as law and order have been restored in Kashmir and her soil cleared of the invaders the question of the state's accession should be settled by a referance to the people."

اس پالیسی نے بھی دستاویز الحاق کی نفی کردی کہ اگر عوام نے الحاقِ پاکستان کا فیصلہ کیا یا خودمختاری جاری رکھنے کے حق میں رائے دی تو پھر دستاویز الحاق کی اہمیت بھی ردّی کے کاغذ جیسی ہی ہوگی۔ یہ پالیسی جس طرح 28؍اکتوبر1947ء کو قابل قبول تھی آج2018ء کو بھی اس پر عمل درآمد ہو تو کشمیریوں کو قبول ہوگی۔یہ رائے شماری کانگریس کی حکومت کے انتظام میں صوبہ سرحد میں کی گئی جبکہ غیر مسلم اکثریتی صوبے آسام کے مسلم اکثریتی ضلع سلہٹ میں بھی رائے شماری کرالی گئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ جب کشمیر کے بالکل برعکس جونا گڑھ کی ہندو اکثریت کے مسلمان حکمران نواب نے 15؍اگست1947ء کو الحاق پاکستان کیا تو بھارت نے اس کی مخالفت کی۔ تو جواہر لعل نہرو نے 30؍ستمبر1947ء کو کہا کہ ’’ہم اس مسئلے کا حل عوام کے ریفرنڈم یا رائے شماری سے چاہتے ہیں، ہم اس ریفرنڈم کے نتائج کو قبول کرلیں گے۔ پاکستان جونا گڑھ مسئلہ غیر جانبدارانہ ریفرنڈم سے حل کرے۔‘‘ اسی طرح جونا گڑھ میں فروری1948ء کو ریفرنڈم ہوا۔ ووٹ بھارت کے الحاق کو ملا۔ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے تحت ریفرنڈم نہیں کرایا گیا۔ دستاویز الحاق کا سہارا لینے سے قبل نہرو نے25؍اکتوبر1947ء کو وزیر اعظم برطانیہ کو لکھا کہ کشمیر کے الحاق کا مسئلہ عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہئے۔8؍نومبر1947ء کو بھارت کی جانب سے وی پی مینن اور پاکستان کے چوہدری محمد علی نے ریفرنڈم کی تفصیلی سکیم پیش کی جس کی بھارتی نائب وزیر اعظم ولبھ بھائی پٹیل نے سرپرستی کی تھی۔ اس میں یہ اصول سامنے لایا گیا کہ حکومت پاکستان اور بھارت کسی بھی ریاست کا الحاق تسلیم نہیں کریں گے جس کے عوام اور حکمران کے مذاہب مختلف ہوں۔ اس اصول کے تحت مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کے ہندو ڈوگرہ حکمران کے کسی نام نہاد الحاق کو بھارت کی جانب سے تسلیم کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی تھا بلکہ اسی اصول کے تحت الحاق کا فیصلہ بھی رائے شماری سے ہونا تھا۔ بھارت اپنے اُن وعدوں سے بالکل مُکر گیا اور پاکستان نے غفلت اور سُستی کا مظاہرہ کیا۔ بھارت کشمیریوں کے مابین اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

بھارت کی طرف سے جاری قتل عام نے بھارت کو بے نقاب کر دیا ہے۔27؍اکتوبر1947ء کو کشمیر پر بھارتی قبضے سے متعلق غیر جانبدار قلمکاروں نے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ سٹینلے وائپر اور السٹر لیمب نے تو اس پر کھل کر بات کی ہے جبکہ سابق امریکی عہدیدار رابن رائفل نے28؍اکتوبر1993ء کو واضح کر دیا کہ امریکا مہاراجہ کی دستاویز الحاق کو تسلیم نہیں کرتا اور تمام کشمیر متنازعہ ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام نے کرنا ہے۔ الحاق کی دستاویز پاکستان یا اقوام متحدہ میں پیش نہیں کی گئی۔بعد ازا ں بھارت نے کہا کہ وہ گم ہوگئی ہے۔ جنیوا کی انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے ایک قرار داد کے ذریعے کہا کہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز بوگس اور جعلی ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ بھارت نے کشمیر پر قبضے کا منصوبہ ستمبر1947ء کو ہی بنا لیا تھا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مکتوبات سے بھی یہ بات ظاہر ہوگئی ہے۔ دوسری طرف جب گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح نے27؍اکتوبر1947ء کو پاکستانی فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انگریز کمانڈ انچیف لیفٹننٹ جنرل سر ڈگلس گریسی نے اُس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔گریسی نے سپریم کمانڈر فیلڈ فارشل ایکون لیک سے ہدایات کیلئے رجوع کیا، ایکون لیک28؍اکتوبر1947ء کو دہلی سے لاہور پہنچ گئے۔ جس کے بعد محمد علی جناح نے ماؤنٹ بیٹن اورنہرو کو اگلے روز لاہور بلا لیا۔ اس طرح بھارت نے کشمیر پر جعلی دستاویز کا بہانہ بناکر فوجی قبضہ کرلیا۔2بٹالین فوج ڈیکوٹا جہازوں میں سرینگر پہنچ گئی۔ بھارت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوجی قبضے کو مضبوط کرتا گیا۔ پاکستان نے کشمیر کو آزاد کرانے کی کوششیں کیں لیکن بھارت کے دباؤ پر عالمی برادری نے مداخلت کی اور پاکستان کو ایسے موقع پر سیز فائر کرانے پر مجبور کیا جب پاک فوج جنگ جیت رہی تھی۔ پاکستانی فوج کو محاذ پر واپس بلایا تو وہ رو پڑے کہ اُن کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ آج بھی کشمیری نوجوان تاریخ کا منفرد انتفادہ لڑ رہے ہیں، کشمیر ایک انقلاب ہے لیکن اس موقع پر بھی بھارت کے وفود دنیا بھر میں سرگرم ہیں اور پاکستان کے ذریعے کشمیریوں کو اس زوردار جدوجہد سے فی الحال گریز کرنے اور بھارت کو سہولیت دینے کی کوششیں اور سازشیں کر رہے ہیں ہیں۔ اگر پاکستان نے اس وقت اقوام متحدہ اور او آئی سی اور دیگر عالمی فورموں پر کشمیر کا مسئلہ مؤثر انداز میں جارحانہ طور پر اٹھانے میں کوتاہی یا کسی تساہل سے کام لیا تو شاید تاریخ پھر کبھی ایسا موقع نہ دے۔ آج71سال بعد بھی بھارت خطے پر اپنا تسلط جمانے میں مصروف ہے۔بھارتی حکمرانوں نے اپنی روایتی پالیسی ترک نہ کی تو یہ اس خطے کے عوام کے وسائل غربت اور جہالت کے خاتمے کے بجائے دفاع کے فروغ اور ظکے میں اسلحہ کی نئی دوڑ لگانے کے مترادف ہو گا۔ عمران خان کی حکومت کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ وہ دنیا کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کرنے اور کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے لئے جارحانہ مہم چلائے گی اور بھارتی کو کوئی یک طرفہ نرمی نہیں دے گی۔کشمیریوں کا قتل عام اس خطے میں بھارت کی جارحیت کی بدترین مثال ہے۔ اسلام آباد حکومت اس سلسلے میں سفارتی اور سیاسی طور پر مہم تیز کرنے میں ہی بہتری سجھتی ہے۔ جو پاکستان کے مفاد میں ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیریوں کا قلم چھوڑ کر کلاشنکوف اٹھانا کشمیریوں کے مصمم عزائم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ بھارتی قبضے کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کریں گے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 556720 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More