کیسا شعور ۔۔۔

گرما گرم بحث چھڑ چکی تھی ، کوئی بھی اپنی بات سے پیچھے ہٹنے پر تیار دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں بھی سُن رہا تھا اور کم از کم اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ بحث کا انجام مشکل ہے لیکن نتیجہ صفر ہی نکلے گا۔ میں ساری باتیں اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں اینالائز کر رہا تھا اور اسی سوچ میں تھا کہ کسی پوائنٹ پر اس بحث کے سمندر میں کود پڑوں لیکن ہمت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ بحث کا محور یہ تھا کہ عمران خان نے لوگوں کو یہ شعور دیا کہ ہمارے ذمہ واجب الادا قرض تیس ہزار ارب روپے کا ہو چکا ہے جس کے ذمہ دار دو ہی بڑی جماعتوں کے رہنما ہیں۔ گزشتہ روز میں نے اُن کی تقریر سُنی ، انہوں نے پچھلے چالیس برس کا ملبہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) پر ڈالا۔ حالاں کہ ان چالیس برسوں میں دو آمروں نے لگ بھگ بیس ، پچیس سال حکومت کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان آمروں کے دور میں قرضے نہیں لئے گئے؟ اگر قرض لئے ہیں تو پھر خان صاحب نے قوم سے خطاب میں اُن کاتذکرہ کیوں نہیں کیا۔ اس کے علاوہ نائن الیون کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کی مد میں ملنے والی کولیشن سپورٹ اور سن دو ہزار پانچ کے تباہ کن زلزلے کے متاثرین کے لئے بھیجی گئی بیرونی امداد میں کرپشن کا کوئی ذکر نہیں ملا۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ان امدادی رقوم کا صحیح استعمال ہوا ہوگا۔ واضح رہے کہ نائن الیون کے بعد افغان جنگ میں امریکہ سے ملنے والی رقم کو وفاق نے اپنے پاس رکھنے کے لئے فاٹا سیکرٹیریٹ بنایا اور یوں صوبے کو بائی پاس کیا گیا۔ اسی طرح زلزلہ زدگان کے لئے آنے والی بیرونی امداد کے استعمال کے لئے صوبہ کی بجائے ایرا بنائی گئی۔ خیر یہ ایک ضمنی سوال تھا جو میرے ذہن میں آیا۔ ذرا پھر گرما گرم بحث کی جانب لوٹتے ہیں۔ بحث میں دو گروپ بن گئے تھے ۔ ایک گروپ کے مطابق خان صاحب کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے لوگوں میں کرپشن کے خلاف شعور پیدا کیا اور لوگوں کو یہ شعور دیا کہ انہیں قرضوں کے بوجھ تلے کیسے دبایا گیا۔ جب کہ دوسرے گروپ کا مؤقف تھا کہ ’تبدیلی ‘ کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگا گیا اور اَب ’احتساب‘ کے نام پر حکومت دن گزار رہی ہے۔ مزید یہ کہ حکومت میں آنے سے قبل تو اُن کے پاس جادو کی چھڑی تھی جس کی بدولت وہ سب کچھ ٹھیک کر نے کے دعویدار تھے لیکن دو ماہ گزر جانے کے باوجود وہ جادوئی چھڑی نظروں سے ’’ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ‘‘ کے مصداق کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ اُن کا یہ مؤقف بھی تھا کہ میگا پراجیکٹ کے لئے قرض لئے جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بس رپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی ) کے لئے اربوں روپے کے قرضے لئے ، جو تاحال پشاور کے لوگوں کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے ، یعنی جس ٹہنی پر طوطا بیٹھتا ہے وہ جھک جاتی ہے۔ پہلا گروپ یہ ماننے کو تیار نہیں تھا ، اُن کے نزدیک دوماہ یا تین ماہ نہایتقلیل وقت ہے اور حالات بہتر بنانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ آج کل ایسے بحث و مباحثے آپ کو ہر جگہ ملتے ہیں اور اس میں گرما گرمی اور ہٹ دھرمی لازمی جزو ہوتے ہیں۔

اُمید ہے کہ آپ اس بحث ، یعنی دونوں گروپوں کا مدعا جان چکے ہوں گے۔ مجھے اس بحث سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مجھے علم تھا کہ اس بحث کا کوئی منطقی انجام نہیں نکلے گا ۔ اور دوسری طرف دونوں گروپ اتنے ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے۔ کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ میرا ذہن ذرا ہٹ کے سوچ رہا تھا کہ ایک سو چھبیس دن دھرنے اور خان صاحب کی حکومت سے قبل تقریروں سے واقعی پاکستان کے عوام با شعور ہو گئے ہیں۔ میری ذات رائے کے مطابق ہمارے معاشرے کے اندر جو شعور کی لہر دوڑی ہے وہ کچھ حد سے زیادہ ہے ۔ میرا بیٹاجماعت ششم میں پڑھتا ہے ،وہ اپنی تعلیم سے زیادہ سیاسی باتوں پر زیادہ توجہ دیتا ہے اور تو چھوڑیں ‘ ٹھیک ٹھاک بحث شروع کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا دیکھو، تو چھوٹے ، بڑے ، جوان اور بوڑھے تمام اس شعور کے متاثرین ہیں۔ غرض جہاں دو بندے اکھٹے دیکھو وہ اپنے کام کی بجائے اس شعور کی بناء پر سیاسی بحث میں اُلجھے ہوئے ملیں گے۔ ہونا تو چاہیے کہ جس راہ نہ چلنا اس کے کوس کیا گننا کے مصداق اپنے کاموں میں جت جانا چاہیے۔ یہاں میں آپ سے ایک اندوہ ناک واقعہ شیئر کرنا چاہتا ہوں جو عام انتخابات سے تین دن قبل ، یعنی بائیس جولائی کو پیش آیا۔ جماعت ہشتم کے ایک طالب علم نے اپنی والدہ سے چند ہزار روپے اس غرض سے مانگے کہ وہ سیاسی جھنڈے ، بیج ، ٹوپیاں اور مفلر وغیرہ خریدے اور انتخاب والے دن اپنے دوستوں کے ساتھ موج مستی کرے۔ والدہ نے بچے کو ٹوکا اور پیسے نہیں دیے جس پر کمسن طالب علم نے خود کشی کرکے اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ ہم خود بچوں کو تعلیم سے دور اور سیاست کے قریب کر رہے ہیں اور مستقبل کے درختوں کی جڑیں اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں۔ ذرا اپنے اردگر کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ طالب علم ، استاد ، مزدور ، کسان ، ڈاکٹر ، انجینئر ، تعلیم یافتہ ، اَن پڑھ ، ترکھان ، درزی ، مستری اور ریڑھی بان وغیرہ سب اس شعور کے سیلاب میں پھنس گئے ہیں۔ اپنے کاموں پر توجہ کم اور غیر ضروری۔۔۔کیا قومیں اس طرح ترقی کرتی ہیں؟ بالکل نہیں۔ وہاں جس کا کام اُسی کو ساجے کا اُصول کار فرما ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں نیب جیسے ادارے موجود ہیں۔ یہ اُن کا کام ہے کہ احتساب کریں، کرپشن اور بد عنوانی کی تحقیقات کریں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دیں ۔اس کے ساتھ حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر ادارے کو سیاست سے پاک کرکے مضبوط بنائیں۔ احتساب اور کرپشن کے قوانین قومی مفادات کو مد نظر رکھ کر بنائے جائیں یا پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم کی جائیں۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301536 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.