ازقلم : ارسلان ساحل
اگست 1947میں بر صغیر پر آزادی کا سورج طلوع ہوا تو بھارت اور پاکستان کے
نام سے دو آزاد مملکتیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں لیکن بد قسمت ریاست
جمو ں و کشمیر کے عوام کے لیے ایک اور سیاہ بختی کا دور شروع ہو گیا۔تقسیمِ
بر صغیر کے اصول کے مطابق ریاست کی غالب مسلم اکثریت ،جغرافیائی محلِ وقوع
،تاریخی صداقتوں ،معاشی ،معاشرتی اور تہذیبی تقاضوں کے تحت ریاست جموں و
کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چائیے تھالیکن برطانوی سامراج،کانگریس اور
مہاراجہ ہری سنگھ کے گٹھ جوڑ کے باعث اِس کا الحاق بھارت سے کر دیا گیا۔
ریاست جموں و کشمیر کی غلامی کی تاریخ بڑی طویل اور روح فرسا ہے۔1819تا
1846یعنی27سال تک ریاست سکھوں کے ظلم و جبر کا شکار رہی۔16مارچ1846کو پنجاب
کے شہر امر تسر میں انگریزوں اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے مابین بیعانہ امر
تسر طے پایا۔اِس معاہدہ کی رْو سے انگریزوں نے گلاب سنگھ کو دریائے راوی کے
مغرب کے تمام علاقے انسان،حیوان،چرند،پرندسب فروخت کر ڈالے جِس پر شاعرِ
مشرق،فرزندِ کشمیر ،علامہ محمد اقبال یوں چینخ اْٹھے کہ
بادِ صباء !بہ جنیوا گزر کنی
دہقاں و کشت و جوئے و خیاباں فرد ختند
حر فِ زما بہ مجلس اقوام باز گوئی
قوم ہے فردختند وچہ ارزاں فرو ختند
ترجمہ:’’اے صبح کی ٹھنڈی ہوا!اگر تیرا گزر جنیوا (لیگ آف نیشن کے ہیڈ
کوارٹر)سے ہو تو اقوامِ عالم کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ قدر نا شناس
انگریزوں نے کشمیر جیسا حسین خطہ کسان،کھیت،کھلیان،دریاؤں اور باغوں سمیت
بیچ ڈالا۔ایک پوری قوم فروخت کر دی اور ستم یہ کہ کتنی سستی بیچی۔‘‘
1931 کا سال کشمیر کی تاریخ میں ایک سنگِ مِیل کی حیثیت رکھتا ہے۔اِس سال
پے درپے ایسے واقعات ہوئے کہ کشمیریوں کے صدیوں سے دبے ہوئے جذبات طوفان کی
طرح امڈ پڑے اور انہوں نے تحریکِ آزادی کی شکل اختیار کر لی۔وہ ادوار اور
آج کا دن کشمیریوں کے جذبات اور اْن کی آزادی کی خواہش اور جد و جہد میں
کوئی کمی پیدا نہیں ہوئی۔
وہی کشمیر کہ جہاں لہلہاتے باغات ہوا کرتے تھے ،فلک بوس کہسار جِس کے ماتھے
کا جھومر تھے۔بہتے چشمے اور کِھلتے شگوفے جِس کے حسن کو چار چاند لگا دیا
کرتے تھے ،کشش اور معدنیات سے معمور وادیاں خدا کی عظمت کا یقین دلانے کے
لیے کافی تھیں۔وہاں آج سب کچھ بدل چکا ہے۔لیکن یہ بدلاؤ ہمیں شائد نظر نہ
آئے کیونکہ ہم تو ادھر ہی مصروف ہیں تبدیلی کا کھیل کھیلنے میں۔ہم مصروف
ہیں اسمبلی ہال کے ڈیسک بجانے میں ،مصروف ہیں تجاوزات ہٹانے میں،مصروف ہیں
اپنی مصروفیات میں۔ہمیں وہاں آئی ہوئی تبدیلیاں نظر نہیں آئیں گی۔اِسے نصیب
کا کھیل کہیں یا اپنوں کی بے وفائی ،اِسے ظلم و ستم کی سیاہ رات سے تعبیر
کریں یا آزمائش کا مرحلہ۔جو بھی کہا جائے کم ہے کیونکہ اب صورتحال انتہائی
گھمبیر ہو چکی ہے۔مکان ہیں تو جلتے ہوئے ،دریچے ہیں تو اْکھڑے ہوئے ،بچے
ہیں تو بلکتے ہوئے ،مائیں ہیں تو روتی ہوئیں ،بہنیں ہیں تو تڑپتی ہوئیں
،بزرگ ہیں تو آہ و فغاں کرتے ہوئے ،نوجوان ہیں تو ہاتھوں میں پتھر لیے
ہوئے،ہسپتال ہیں تو بھرے ہوئے۔یقیناََ اِس وقت وہاں ’’زندگی اک جبرِ مسلسل
کی طرح ہے‘‘۔
ہندو سامراج سالہا سال سے اِس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان
کشمیریوں کے دلوں میں موجود آزادی کی خواہش کی چنگاری کو بجھا دیا جائے
لیکن نوجوان مجاہد برھان وانی کی شہادت نے کشمیری مسلمانوں کے دلوں میں
موجود آزادی کی خواہش کی چنگاری کو شعل جوالہ بنا دیا۔وہ جو ذرہ تھا وہ
صحرا بن گیا۔وہ جو قطرہ تھا وہ دریا بن گیااور وہ جو شعلہ تھا وہ آتش فشاں
بن گیا۔
آزادی کی خواہش ،آزادی کی تڑپ اب کشمیری عوام بلکہ بچوں کی روح تک سرائت کر
چکی ہے۔اسلحہ و بارود سے لیس انڈین آرمی کے سامنے ہاتھوں میں پتھر لیے
،حصولِ آزادی کے فلک شگاف نعرے لگانا اور کسی اندھی گولی کا نشانہ بن کر
راہِ حق کے شہیدوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا دینا اب کشمیری عوام کا
معمول بن چکا ہے۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ
بنا لیتا ہے موجِ خونِ دِل سے خود چمن اپنا
وہ پابندِ قفس جو فطرتاََ آزاد ہوتا ہے.
|